الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
89. بَابُ : مَا لاَ يَقْتُلُهُ الْمُحْرِمُ
89. باب: محرم کس جانور کو نہیں مار سکتا؟
Chapter: What The Muhrim May Not Kill
حدیث نمبر: 2839
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني ابن جريج، عن عبد الله بن عبيد بن عمير، عن ابن ابي عمار، قال: سالت جابر بن عبد الله عن الضبع،" فامرني باكلها، قلت: اصيد هي؟ قال: نعم، قلت: اسمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الضَّبُعِ،" فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهَا، قُلْتُ: أَصَيْدٌ هِيَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَسَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ".
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کے کھانے کا حکم دیا، میں نے ان سے پوچھا: کیا وہ شکار ہے؟ کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: ہاں (میں نے سنا ہے)۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأطعمة32 (3801)، سنن الترمذی/الحج28 (851)، الأطعمة4 (1791)، سنن ابن ماجہ/الحج90 (3085)، الصید 15 (3236)، (تحفة الأشراف: 2381)، مسند احمد (3/297، 318، 321)، سنن الدارمی/المناسک 90 (8984، 1985)، ویأتی عند المؤلف في الصید 27 (برقم 4328) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   سنن النسائى الصغرى2839جابر بن عبد اللهأمرني بأكلها قلت أصيد هي قال نعم
   جامع الترمذي851جابر بن عبد اللهالضبع أصيد هي قال نعم قال قلت آكلها قال نعم
   جامع الترمذي1791جابر بن عبد اللهالضبع صيد هي قال نعم قال قلت آكلها قال نعم
   سنن أبي داود3801جابر بن عبد اللههو صيد ويجعل فيه كبش إذا صاده المحرم
   سنن ابن ماجه3085جابر بن عبد اللهفي الضبع يصيبه المحرم كبشا وجعله من الصيد
   سنن ابن ماجه3236جابر بن عبد اللهعن الضبع أصيد هو قال نعم قلت آكلها قال نعم
   سنن النسائى الصغرى4328جابر بن عبد اللهالضبع فأمرني بأكلها فقلت أصيد هي قال نعم
   بلوغ المرام1140جابر بن عبد اللهالضبع صيد هو؟ قال: نعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2839  
´محرم کس جانور کو نہیں مار سکتا؟`
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بجو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے اس کے کھانے کا حکم دیا، میں نے ان سے پوچھا: کیا وہ شکار ہے؟ کہا: ہاں، میں نے کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ کہا: ہاں (میں نے سنا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2839]
اردو حاشہ:
(1) بجو مردار خور نہیں۔ اگر یہ مردار خور ہوتا تو اسے حرام کہنے میں کوئی باک نہیں تھا۔ چونکہ یہ حلال جانور ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ شکار کی ذیل میں آتا ہے۔ محرم کے لیے شکار حرام ہے، لہٰذا وہ بجو کو نہیں مار سکتا۔ اگر مارے گا تو اسے اس کا فدیہ دینا پڑے گا۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ
(2) اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ محرم بجو کو قتل یا شکار نہیں کر سکتا، البتہ اس کی حلت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ اسے کھانا حلال سمجھتے ہیں۔ دیگر اہل علم نے اسے حرام کہا ہے کہ یہ ذوناب (کچلی والا جانور) ہے۔ مگر شاید وہ اس بات سے غافل رہے کہ یہاں ذوناب کے لغوی معنیٰ مراد نہیں بلکہ ذوناب سے مراد شکاری جانور ہے جیسے کتا، شیر، چیتا وغیرہ اور بجو بالا تفاق شکاری نہیں۔ ناب تو وجہ حرمت نہیں۔ اس ناب میں کیا حرج جو شکار نہ کرے۔ (تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان ہوگی)۔
(3) اس حدیث سے اشارتاً یہ بات سمجھ آتی ہے کہ محرم کوئی ایسا جانور شکار نہیں کر سکتا جسے کھایا جاتا یا جو کسی منفعت کی وجہ سے شکار کیا جاتا ہو۔ اگر وہ شکار کرے گا تو اسے جزا دینی پڑے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2839   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3085  
´اگر محرم شکار کرے تو اس کے کفارہ کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے شکار کئے ہوئے بجو کے کفارہ میں ایک مینڈھا متعین فرمایا، اور اسے شکار قرار دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3085]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
احرام کی حالت میں جنگلی جانور کا شکار کرنا حرام ہے جب کہ حرم کی حد میں ہر شخص کے لیے شکار حرام ہے۔
خواہ احرام باندھا ہوا ہو یا نہ ہو۔

(2)
اللہ تعالی نے فرمایا:
  ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا﴾  (المائدة5/ 95)
 اے ایمان والوں! شکار کو مت قتل کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔
اور جو شخص تم میں سی اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تواس پر وہ فدیہ واجب ہوگا جو مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے۔
جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں۔
یہ (فدیہ)
چوپایوں میں سے ہو جو (نیاز کے طور پر)
کعبہ تک پہنچایا جائے یا اس کا کفارہ مساکین کو دیا جائے یا اس کے برابر روزے رکھ لیے جائیں۔

(2)
لکڑبھگا کے برابر قربانی کے جانوروں میں سے مینڈھا ہے۔

(3)
قرآن مجید میں شکار کیے گئے جانور کےمثل (مساوی)
جانور قربان کرنے کا حکم ہے۔
اس سے مراد قدوقامت میں مساوی ہونا ہے۔
مثلاً:
ہرن کے بدلے بکری اور گائے کے بدلے گائےمکہ پہنچائی جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف۔
سورۃ مائدہ آیت: 95)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3085   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1140  
´(کھانے کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن ابی عمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا بجو (چرگ) بھی شکار ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! میں نے پھر پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں!۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور بخاری اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1140»
تخریج:
« «إسناد صحيح» أخرجه أبوداود، الأطعمة، باب في أكل الضبع، حديث:3801، والترمذي، الأطعمة، حديث:1791، والنسائي، الصيد، حديث:4328، وابن ماجه، الصيد، حديث:3236، وأحمد:3 /318، 322.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«ابن ابی عمار» ان کا نام عبدالرحمن بن عبداللہ بن ابی عمار قریشی مکی ہے۔
کثرت عبادت کی وجہ سے ان کا لقب قـسّ، یعنی راہب تھا۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1140   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3801  
´بجو کھانے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکڑبگھا (لگڑ بگڑ) ۱؎ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: وہ شکار ہے اور جب محرم اس کا شکار کرے تو اسے ایک دنبے کا دم دینا پڑے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3801]
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ کا کھانا حلال ہے۔
کیونکہ اسے نبی کریمﷺ نے شکار قرا ر دیا ہے۔
یعنی جس کا شکارکرکے کھانا جائز ہے۔


دوسرا یہ معلوم ہوا کہ حالت احرام میں محرم اگر کسی جانور کا شکار کرلے گا تو اسے اس جانور کے مثل فدیہ ضروری ہوگا۔
اور یہ مثلیت ظاہری جسم کے ڈیل ڈول (قدوقامت) کے حساب سے ہوگی۔
نہ کہ قیمت کے اعتبارسے جیسے لگڑ بگڑ اور مینڈھا جسامت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔


لگڑ بھگڑ بھی ذوناب جانور ہے۔
اور ہر ذوناب درندہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔
پھر اسے اس حدیث میں کیوں حلال قرار دیا گیا ہے۔
امام خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ کُلُّ ذِي نابٍ مِنَ السباعِ کے عموم سے اس کی تخصیص ہوگئی ہے۔
اور امام ابن قیم نے کہا ہے کہ لگڑ بگڑ (ضبع) بھی اگرچہ درندہ ہی ہے، لیکن ہردرندے میں حرمت کی دو وجہیں ہیں۔
ایک کچلیوں کا ہونا او ردوسرا عادی درندہ ہونا اور درندہ کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم اور خاص ہے۔
اس لئے کہ دونوں وصف رکھنے والے جانوروں کے کھانے سے کھانے والے کو اندر بھی درندگی والی قوت آجاتی ہے۔
جیسے شیر۔
لومڑی۔
وغیرہ ہیں۔
اور لگڑ بگڑ کچلیاں والا تو ہے۔
لیکن اس میں درندگی والی وہ قوت نہیں ہے جو مذکورہ جانوروں میں ہے، اس لئے اس کو حلال قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3801   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.