الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
109. بَابُ : إِنْشَادِ الشِّعْرِ فِي الْحَرَمِ وَالْمَشْىِ بَيْنَ يَدَىِ الإِمَامِ
109. باب: حرم میں شعر پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کا بیان۔
Chapter: Recting Poetry In The Haram And Walking In Fornt Of The Imam
حدیث نمبر: 2876
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا ابو عاصم خشيش بن اصرم، قال: حدثنا عبد الرزاق قال: حدثنا جعفر بن سليمان، قال: حدثنا ثابت، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل مكة في عمرة القضاء وعبد الله بن رواحة يمشي بين يديه وهو يقول: خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله، فقال له عمر: يا ابن رواحة بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي حرم الله عز وجل تقول الشعر؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" خل عنه، فلهو اسرع فيهم من نضح النبل".
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ فِي عُمْرَةِ الْقَضَاءِ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ: خَلُّوا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيلِهِ الْيَوْمَ نَضْرِبْكُمْ عَلَى تَنْزِيلِهِ ضَرْبًا يُزِيلُ الْهَامَ عَنْ مَقِيلِهِ وَيُذْهِلُ الْخَلِيلَ عَنْ خَلِيلِهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا ابْنَ رَوَاحَةَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي حَرَمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ تَقُولُ الشِّعْرَ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَلِّ عَنْهُ، فَلَهُوَ أَسْرَعُ فِيهِمْ مِنْ نَضْحِ النَّبْلِ".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو)، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خواب گاہوں سے جدا کر دے گی اور دوست کو اپنے دوست سے غافل کر دے گی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور اللہ عزوجل کے حرم میں تم شعر پڑھتے ہو؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوڑو ان کو (پڑھنے دو) کیونکہ یہ ان پر تیر سے زیادہ اثرانداز ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأدب70 (2847)، (تحفة الأشراف: 266) ویأتی عند المؤلف برقم: 2896 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   سنن النسائى الصغرى2876أنس بن مالكخل عنه فلهو أسرع فيهم من نضح النبل
   سنن النسائى الصغرى2896أنس بن مالكخل عنه فوالذي نفسي بيده لكلامه أشد عليهم من وقع النبل
   جامع الترمذي2847أنس بن مالكخل عنه يا عمر فلهي أسرع فيهم من نضح النبل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2876  
´حرم میں شعر پڑھنے اور امام کے آگے چلنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ قضاء میں مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کے آگے آگے چل رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے: «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کافروں کی اولاد! ان کے راستے سے ہٹ جاؤ (کوئی مزاحمت اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالو)، ورنہ آج ہم ان پر نازل شدہ حکم کے مطابق تمہیں ایسی مار ماریں گے جو سروں کو ان کی خوا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2876]
اردو حاشہ:
(1) عمرۃ القضاء یہ 7 ہجری میں ادا کیا گیا۔ اسے عمرۃ القضاء اس لیے کہا گیا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اسے عمرے کا متفقہ طور پر فیصلہ ہوگیا تھا، اور مصالحت ہوگئی تھی کہ آئندہ سال مسلمان عمرہ کرنے آئیں گے اور تین دن تک مکہ مکرمہ میں بلا روک ٹوک رہیں گے، کفار مکہ شہر خالی کر دیں گے۔ اور ایسے ہی ہوا۔ یہاں قضا ادا کے مقابلے میں نہیں کیونکہ اگر یہ عمرہ حدیبیہ کی قضا ہوتا تو پھر عمرہ حدیبیہ کو آپ کے عمروں میں شامل نہ کیا جاتا جبکہ اتفاق ہے کہ آپ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ ان میں سے ایک حدیبیہ والا عمرہ ہے۔
(2) حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے یہ اشعار صرف کفار قریش کوشرمندہ کرنے کے لیے تھے ورنہ نبیﷺ لڑائی کے لیے گئے تھے، نہ لڑائی ممکن ہی تھی۔ شعراء کو اپنے جذبات کے اظہار کا حق ہوتا ہے اور عموماً شعراء کا کلام حقیقت پر محمول نہیں ہوتا، بلکہ ان کا مقصد اپنے جذبات کو تسکین دینا ہوتا ہے۔ ان میں مبالغہ ہوتا ہے اور انتہا پسندی عام ہوتی ہے۔ اسی لیے کفار مکہ نے ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ورنہ سنجیدگی میں ایسے الفاظ صلح کے خلاف تصور کیے جاتے ہیں۔
(3) حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہﷺ کے آگے آگے چلنا آپ کے احترام کے لیے تھا۔ کبھی آگے چلنا بھی احترام کی علامت ہوتا ہے۔ خصوصاً خدام آگے ہی چلا کرتے ہیں۔
(4) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عبداللہ بن رواحہ پر اعتراض شاید اس بنا پر ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ رسول اللہﷺ شدت استغراق کی وجہ سے عبداللہ بن رواحہ کے اشعار کی طرف توجہ نہیں فرما رہے ورنہ رسول اللہﷺ کی موجودگی کے باوجود اعتراض کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2876   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2847  
´شعر پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن رواحہ آپ کے آگے یہ اشعار پڑھتے ہوئے چل رہے تھے۔ «خلوا بني الكفار عن سبيله اليوم نضربكم على تنزيله ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله» اے کفار کی اولاد! اس کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے) راستے سے ہٹ جاؤ، آج کے دن ہم تمہیں ایسی مار ماریں گے جو کھوپڑی کو گردنوں سے جدا کر دے گی، ایسی مار ماریں گے جو دوست کو دوست سے غافل کر دے گی عمر رضی الله عنہ نے ان سے کہا: ابن رواحہ! تم رسول اللہ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں شعر پڑھتے ہو؟ رسول ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2847]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حافظ ابن حجرنے امام ترمذی کے اس قول پر نقد کیا ہے،
کہتے ہیں:
امام ترمذی کا یہ کہنا کہ عمرۃالقضا جنگ موتہ کے بعد ہے یہ ان کی صریح غلطی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2847   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.