الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
161. بَابُ : قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ }
161. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد: ”مسجد میں ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو“۔
Chapter: The saying of Allah, The Mighty And Sublime: "Take Your Adornment To Every Masjid"
حدیث نمبر: 2961
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، وعثمان بن عمر , قالا: حدثنا شعبة، عن المغيرة، عن الشعبي، عن المحرر بن ابي هريرة، عن ابيه، قال:" جئت مع علي بن ابي طالب حين بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة ببراءة، قال: ما كنتم تنادون؟ قال: كنا ننادي" إنه لا يدخل الجنة إلا نفس مؤمنة، ولا يطوف بالبيت عريان، ومن كان بينه وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد فاجله، او امده إلى اربعة اشهر، فإذا مضت الاربعة اشهر، فإن الله بريء من المشركين ورسوله، ولا يحج بعد العام مشرك، فكنت انادي حتى صحل صوتي".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ الْمُحَرَّرِ بْنِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" جِئْتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِينَ بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِبَرَاءَةَ، قَالَ: مَا كُنْتُمْ تُنَادُونَ؟ قَالَ: كُنَّا نُنَادِي" إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَأَجَلُهُ، أَوْ أَمَدُهُ إِلَى أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا مَضَتِ الْأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، فَإِنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ، وَلَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، فَكُنْتُ أُنَادِي حَتَّى صَحِلَ صَوْتِي".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل مکہ کے پاس سورۃ براءت دے کر بھیجا محرر بن ابی ہریرہ نے اپنے والد سے پوچھا: آپ لوگ کیا پکارتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہم اعلان کرتے تھے کہ جنت میں سوائے مومن کے کوئی نہ جائے گا، اور ننگا ہو کر کوئی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، اور جس شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہد و معاہدہ ہو تو اس کی مدت و مہلت چار مہینے کی ہے، اور جب چار مہینے گزر جائیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ مشرکوں سے بری ہو گا، اور اس کا رسول بھی، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کر سکے گا۔ میں (یہ باتیں) لوگوں کو پکار پکار کر بتا رہا تھا یہاں تک کہ میری آواز بیٹھ گئی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14353)، مسند احمد (2/299)، سنن الدارمی/الصلاة 140 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2961  
´اللہ تعالیٰ کا ارشاد: مسجد میں ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل مکہ کے پاس سورۃ براءت دے کر بھیجا محرر بن ابی ہریرہ نے اپنے والد سے پوچھا: آپ لوگ کیا پکارتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ہم اعلان کرتے تھے کہ جنت میں سوائے مومن کے کوئی نہ جائے گا، اور ننگا ہو کر کوئی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، اور جس شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی عہد و معا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2961]
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ اس موقع پر امیر حج تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے مگر براء ت کا اعلان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصی ذمے داری تھی کیونکہ اس قبائلی دور میں عہد کے متعلق کوئی اعلان نبیﷺ کا خاندانی شخص ہی کر سکتا تھا ورنہ مشرکین اسے معتبر نہ سمجھتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آپ کے ساتھ رشتے داری سے سب لوگ واقف تھے، لہٰذا اس اعلان کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا گیا۔ دیگر اعلانات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی سے کروائے، لہٰذا سابقہ حدیث اور اس حدیث میں کوئی اختلاف نہیں۔
(2) چار ماہ ظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلان سے چار ماہ شمار ہوں گے لیکن بعض محققین نے براء ت کی آیت کے نزول سے چار ماہ شمار کیے ہیں، یعنی شوال، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ آیت کے آئندہ الفاظ ﴿فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ…﴾ (التوبة: 9: 5) اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی بات صحیح ہے۔
(3) اس حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہر عہد کی مدت چار ماہ مقرر فرما دی لیکن یہ بات درست نہیں۔ یا تو راوی کو غلطی لگی یا ضرورت سے زیادہ اختصار ہوگیا۔ دیگر احادیث میں وضاحت ہے کہ اعلان یوں تھا: جس شخص کا اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو چکا ہے تو وہ اپنی مقررہ مدت تک برقرار ہے۔ اور جس کے ساتھ آپ کا کوئی عہد نہیں (یا جس کی مدت مقرر نہیں) وہ چار ماہ تک امن میں ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، باب ومن سورة التوبة، حدیث: 3092) مزید ملاحظہ ہو: (تفسیر ابن کثیر، سورۂ توبة، آیت: 2، تحت الآیة ﴿فَسِيحُوا فِي الأرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ﴾ یعنی اس کے بعد مشرکین سے عام لڑائی ہے۔ ویسے بھی یہ بعید ہے کہ رسول اللہﷺ کسی سے کیے ہوئے عہد کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیں۔ رسول اللہﷺ تو عہد کی بہت زیادہ پاسدار فرمانے والے تھے۔ ﷺ
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2961   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.