الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
61. بَابُ : تَفْسِيرِ الشِّغَارِ
61. باب: شغار کی تفسیر۔
Chapter: Explanation Of Ash-Shighar
حدیث نمبر: 3339
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا هارون بن عبد الله، قال: حدثنا معن، قال: حدثنا مالك، عن نافع. ح والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، قال مالك: حدثني نافع، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن الشغار"، والشغار: ان يزوج الرجل الرجل ابنته على ان يزوجه ابنته وليس بينهما صداق.
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ. ح وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ مَالِكٌ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّغَارِ"، وَالشِّغَارُ: أَنْ يُزَوِّجَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ ابْنَتَهُ عَلَى أَنْ يُزَوِّجَهُ ابْنَتَهُ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا صَدَاقٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 28 (5112)، صحیح مسلم/النکاح 7 (1415)، سنن ابی داود/النکاح 15 (2074)، سنن الترمذی/النکاح 30 (1124)، (تحفة الأشراف: 83230)، موطا امام مالک/النکاح 11 (24)، مسند احمد (2/7، 62)، سنن الدارمی/النکاح 9 (2226) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5112عبد الله بن عمرالشغار الشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه الآخر ابنته ليس بينهما صداق
   صحيح البخاري6960عبد الله بن عمرالشغار
   صحيح مسلم3468عبد الله بن عمرلا شغار في الإسلام
   صحيح مسلم3465عبد الله بن عمرنهى عن الشغار والشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه ابنته وليس بينهما صداق
   صحيح مسلم3467عبد الله بن عمرالشغار
   جامع الترمذي1124عبد الله بن عمرالشغار
   سنن أبي داود2074عبد الله بن عمرالشغار
   سنن النسائى الصغرى3336عبد الله بن عمرالشغار
   سنن النسائى الصغرى3339عبد الله بن عمرالشغار
   سنن ابن ماجه1883عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن الشغار والشغار أن يقول الرجل للرجل زوجني ابنتك أو أختك على أن أزوجك ابنتي أو أختي وليس بينهما صداق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم355عبد الله بن عمرنهى عن الشغار. والشغار ان يزوج الرجل ابنته الرجل على ان يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق
   بلوغ المرام840عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن الشغار،‏‏‏‏ والشغار ان يزوج الرجل ابنته على ان يزوجه الآخر ابنته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 355  
´وٹے سٹے (شغار) کی شادی منع ہے`
«. . . 230- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار. والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار (وٹے سٹے کے نکاح) سے منع فرمایا ہے۔ (نافع نے کہا:) اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بچی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا (اور) دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہو گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 355]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5112، ومسلم 1415/57، من حديث مالك به]
تفقه
➊ شغار (ادلا بدلا کی شادی، بٹے کی شادی) جائز نہیں ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: «وأجمع العلماء علٰي أن نكاح الشغار مكروه لا يجوز واختلفوا فيه إذا وقع هل يصح بمهر المثل أم لا؟» علماء کا اجماع ہے کہ شغار مکروہ ہے جائز نہیں ہے اور انہوں نے اس میں اختلاف کیا کہ اگر یہ نکاح کردیا جائے تو کیا مہرِ مثل سے صحیح ہے یا نہیں؟ [التمهيد 14/72]
➋ عبد الرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ الله سے روایت ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبد الرحمن بن حکم سے کیا اور عبد الرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کیا۔ [و قد كانا جعلاه صداقاً] اور دونوں نے اس (نکاح) کو (ہی) حق مہر قرار دیا تو خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان (بن الحکم الاموی) کی طرف لکھ کر بھیجا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دو۔ انہوں نے اس خط میں بھی لکھا تھا کہ یہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4141 يا 4153 وسنده حسن، مسند ابي يعلي: 7370 و سنده حسن]
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔ ابن نمیر (راوی) نے یہ اضافہ روایت کیا ہے: اور شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے: تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں یا اپنی بہن کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بہن کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم: 1416، دارالسلام: 3469]
➍ بعض علماء کہتے ہیں کہ مطلقا نکاح شغار ممنوع ہے چاہے اس میں حق مہر ہو یا نہ ہو۔ یہ قول مرجوح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 230   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3339  
´شغار کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا ہے، اور شغار یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اس شخص کے ساتھ کرے۔ اور دونوں ہی بیٹیوں کا کوئی مہر مقرر نہ ہو۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3339]
اردو حاشہ:
(1) شغار یہ ہے شغار کی یہ تفسیر اگرچہ خود رسول اللہﷺ یا کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ یہ حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت نافع سے منقول ہے‘ تاہم اس تفسیر سے نکاح شغار کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ وٹہ سٹہ شغار کی ذیل میں نہیں آتا کیونکہ ان میں الگ الگ مہر مقرر ہوتا ہے‘ تاہم جہالت کی وجہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے نتائج بالعموم بہت غلط نکلتے ہیں‘ اس لیے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
(2) سنن ابوداود میں ایک واقعہ منقول ہے کہ دوشخصوں نے ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا‘ اس کے بعد اس میں الفاظ ہیں: [وكانا جعَلا صداقًا]  اور ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیاتھا۔ (سنن ابي داود: النكاح‘ حدیث: 2075) اس کے باوجود اس راویت میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مروان (اپنے گورنر) کو لکھا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دیں کیونکہ یہ وہی شعار ہے جس سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حق مہر ہو‘ تب بھی اس طرح کا مشروط نکاح (جس میں ایک دوسرے کی بیٹی یا نکاح کی شرط ہو) باطل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سنن ابو داود کی یہ روایت صحیح ابن حبان (الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: 6/ 180‘ وموارد الظمآن: 4/196) میں  [وَقَدْ کَانَا جَعَلاَہُ صَدَاقاً] کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے‘ یعنی اس میں جعل کا مفعول اول بھی مذکور ہے۔ اس عبارت کی رُو سے معنیٰ بنتے ہیں کہ ان دونوں نے اس مشروط نکاح ہی کو حق مہر بنا دیا تھا۔ اس ضمیر کے ساتھ اس روایت کے معنیٰ بالکل صحیح ہوجاتے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تفریق کرانے کی معقول وجہ بھی سامنے آجاتی ہے کہ یہ نکاح ممنوعہ شغار کا مصداق تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حکم تفریق بھی اس امر کا قرینہ ہے کہ یہاں ضمیر مفعول اول محذوف ہے اور روایت کے الفاظ [جَعَلاَہُ ] ہی ہیں‘ نہ کہ [جَعَلا ]  (ضمیرمفعول کے بغیر) کیونکہ حق مہر کی ادائیگی کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اس نکاح کو باطل قراردینا ناقابل فہم ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3339   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1883  
´نکاح شغار کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی سے کہے: آپ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے اس شرط پر کر دیں کہ میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تجھ سے کر دوں گا، اور ان دونوں کے درمیان کوئی مہر نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1883]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح شغار یا متبادل شادیوں سے مراد وہی صورت ہے جو پنجاب میں وٹہ سٹہ کے نام سے معروف ہے۔
اس کی تفسیر روایت میں ذکر ہو چکی ہے۔

(2)
نکاح شغار میں یہ خرابی ہے کہ اگر ایک طرف میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کا بدلہ چکانے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ دونوں میں سے اگر ایک مرد کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو دوسرا بھی اپنی بے قصور بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔

(3)
جاہلیت میں نکاح شغار میں حق مہر کا تعین نہیں کیا جاتا تھا۔
نہ مہر مثل ہی ادا کیا جاتا تھا۔
گویا عورت کا عورت سے تبادلہ ہوتا تھا۔
آج کل اگرچہ حق مہر مقرر کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خرابی بددستور رہتی ہے کہ ایک مرد کی زیادتی کا بدلہ اس کی بیٹی پر زیادتی کر کے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے اس صورت سے بھی اجتناب ہی کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1883   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2074  
´نکاح شغار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے: میں نے نافع سے پوچھا: شغار ۱؎ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2074]
فوائد ومسائل:
دورجاہلیت میں یہ نکاح شغار کے نام سے رائج تھا، اس صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بہن، بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا،علیحدہ سے مہر ادا نہ کیا جاتا۔
گویا یہ نکاح ایسا تھا کہ جیسا کہ آج کل بٹے یا ادلے بدلے (بٹاسٹا) کے طور پر بعض جگہ نکاح کیے جاتے ہیں ایسا نکاح جس میں مہر نہ ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے اگر ہر لڑکی کا حق مہر الگ سے مقرر کیا گیا ہو تو نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر بدلے کی یہ شرط اور اس طرح کے نکاح بالعموم خاندانوں میں فساد کا ذریعہ بنتے ہیں اس لیے کچھ علما متشدد ہیں اور کہتے ہیں کہ خواہ حق مہر بھی کر لیا گیا ہو تو ناجائز ہے مگر یہ فتوی محل نظر ہے۔
درج ذیل حدیث کے واقعہ میں آرہا ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس اورعبدالرحمن بن حکم نے اس قسم کا نکاح (شغار) کیا اور اس نکاح ہی کو حق مہر قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ نے ان میں تفریق کروا دی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2074   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.