الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
ابواب: قسم اور نذر کے احکام و مسائل
The Book of Oaths and Vows
38. بَابُ : هَلْ تَدْخُلُ الأَرَضُونَ فِي الْمَالِ إِذَا نَذَرَ
38. باب: مال کی نذر مانی جائے تو کیا زمین بھی اس میں شامل ہو گی؟
Chapter: Is Land Included If A Person Vows To Give Up Wealth?
حدیث نمبر: 3858
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع: عن ابن القاسم , قال: حدثني مالك , عن ثور بن زيد , عن ابي الغيث مولى ابن مطيع , عن ابي هريرة , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر , فلم نغنم إلا الاموال , والمتاع , والثياب , فاهدى رجل من بني الضبيب يقال له: رفاعة بن زيد لرسول الله صلى الله عليه وسلم غلاما اسود يقال له مدعم فوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى وادي القرى , حتى إذا كنا بوادي القرى بينا مدعم يحط رحل رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاءه سهم فاصابه فقتله , فقال الناس: هنيئا لك الجنة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلا والذي نفسي بيده , إن الشملة التي اخذها يوم خيبر , من المغانم , لتشتعل عليه نارا". فلما سمع الناس بذلك , جاء رجل بشراك , او بشراكين , إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" شراك او شراكان من نار".
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ , فَلَمْ نَغْنَمْ إِلَّا الْأَمْوَالَ , وَالْمَتَاعَ , وَالثِّيَابَ , فَأَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ يُقَالُ لَهُ: رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ فَوُجِّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى , حَتَّى إِذَا كُنَّا بِوَادِي الْقُرَى بَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَهُ سَهْمٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ , فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ , مِنَ الْمَغَانِمِ , لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا". فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ , جَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ , أَوْ بِشِرَاكَيْنِ , إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمیں مال ۱؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تیر آ کر اسے لگا اور اسے قتل کر ڈالا، لوگوں نے کہا کہ تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کملی جو اس نے غنیمت کے مال سے خیبر کے روز لے لی تھی (اور مال تقسیم نہ ہوا تھا) اس کے سر پر آگ بن کر دہک رہی ہے۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چمڑے کا ایک یا دو تسمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 38 (4234)، الأیمان 33 (6707)، صحیح مسلم/الإیمان 48 (115)، سنن ابی داود/الجہاد 143 (2711)، موطا امام مالک/الجہاد 13 (25)، (تحفة الأشراف: 12916) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اسی لفظ میں باب سے مطابقت ہے، کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اموال کے لفظ سے زمینیں (آراضی) مراد لی ہیں (خیبر میں زیادہ زمینیں مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف مال کی نذر مانے تو اس مال میں زمین بھی داخل گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري6707عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا شراك من نار أو شراكان من نار
   صحيح البخاري4234عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أصابها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا شراك أو شراكان من نار
   صحيح مسلم310عبد الرحمن بن صخرالشملة لتلتهب عليه نارا أخذها من الغنائم يوم خيبر لم تصبها المقاسم شراك من نار أو شراكان من نار
   سنن أبي داود2711عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا شراك من نار أو قال شراكان من نار
   سنن النسائى الصغرى3858عبد الرحمن بن صخرالشملة التي أخذها يوم خيبر من المغانم لتشتعل عليه نارا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم586عبد الرحمن بن صخرالشملة التى اخذ يوم خيبر من المغانم لم تصبها المقاسم لتشتعل عليه نارا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 586  
´چوری کرنا حرام ہے`
«. . . عن أبى هريرة قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر فلم نغنم ذهبا ولا ورقا إلا الأموال المتاع والثياب . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خیبر والے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے لئے) نکلے تو ہمیں مال غنیمت میں اموال (زمینیں)، اسباب اور کپڑوں کے سوا نہ سونا ملا اور نہ چاندی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 586]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6707، ومسلم 115، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ معلوم ہوا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے۔
➋ غزوہ خیبر سات (7) ہجری میں ہوا تھا۔
➌ بعض راویوں نے اس روایت میں غزوہ خیبر کے بجائے غزوہ حنین کا لفظ ذکر کیا ہے۔ واللہ اعلم
➍ چوری کرنا حرام ہے بالخصوص مال غنیمت میں سے چوری کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
➎ دلیل (قرآن و حدیث) کے بغیر کسی خاص شخص کے بارے میں جنتی ہونے کی گواہی دینا غلط ہے۔
➏ ضرورت کے وقت قسم کھانا جائز ہے بلکہ بغیر ضرورت کے بھی سچی قسم کھانا جائز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اپنی بات کی تاکید مقصود ہوتی ہے۔
➐ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ رشوت وغیرہ حرام امور کا شک و شبہ نہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 141   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4234  
´مال غنیمت میں خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے`
«. . . افْتَتَحْنَا خَيْبَرَ وَلَمْ نَغْنَمْ ذَهَبًا وَلَا فِضَّةً، إِنَّمَا غَنِمْنَا الْبَقَرَ وَالْإِبِلَ وَالْمَتَاعَ وَالْحَوَائِطَ، ثُمَّ انْصَرَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى وَمَعَهُ عَبْدٌ لَهُ يُقَالُ لَهُ: مِدْعَمٌ أَهْدَاهُ لَهُ أَحَدُ بَنِي الضِّبَابِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ سَهْمٌ عَائِرٌ حَتَّى أَصَابَ ذَلِكَ الْعَبْدَ، فَقَالَ النَّاسُ: هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَصَابَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ مِنَ الْمَغَانِمِ لَمْ تُصِبْهَا الْمَقَاسِمُ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا"، فَجَاءَ رَجُلٌ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِرَاكٍ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ فَقَالَ: هَذَا شَيْءٌ كُنْتُ أَصَبْتُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ . . .»
. . . جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے ‘ اونٹ ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ میں دیا تھا۔ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آ کر ان کے لگا۔ لوگوں نے کہا مبارک ہو: شہادت! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک دوسرے صحابی ایک یا دو تسمے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی جہنم کا تسمہ بنتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4234]

لغوی توضیح:
«الْحَوَئِط» جمع ہے «حَائِط» کی، معنی ہے باغات۔
«وَادِي الْقُري» مدینہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔
«سَهْمٌ عَائِرٌ» جس تیر کے مارنے والے کا پتہ نہ چلے۔
«شِرَاك» تسمہ۔

فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں خیانت حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ (مال غنیمت میں) خیانت نہ کرو کیونکہ خیانت خائن کے لیے دنیا و آخرت میں آگ اور عار ہے۔ [حسن صحيح: ابن ماجه: 2850، مسند احمد: 316/5، دارمي: 2487]
امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا ہے: خیانت حرام ہے خواہ چھوٹی ہو یا بڑی۔ [نيل الأوطار 60/5]
امام نووی رحمہ اللہ نے خیانت کے کبیرہ گناہ ہونے پر اجماع نقل فرمایا ہے۔ [شرح مسلم للنوي 456/6]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 74   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3858  
´مال کی نذر مانی جائے تو کیا زمین بھی اس میں شامل ہو گی؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمیں مال ۱؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3858]
اردو حاشہ:
(1) غزوۂ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کو غنیمت میں زمینں تو قطعاً ملی تھیں جبکہ اس حدیث میں زمین کا صراحتاً ذکر نہیں بلکہ لفظ اموال ذکر ہے۔ لازمی بات ہے کہ اموال سے مراد زمین ہی ہوگی اور یہی باب کا مقصود ہے کہ اگر مال کی نذر مانے تو زمین بھی اس میں داخل ہوگی۔ سابقہ روایات جن میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نذر کا ذکر ہے‘ وہ بھی اس مقصود پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان میں مال صدقہ کرنے ہی کی نذر تھی‘ بعد میں حضرت کعب نے خیبر کی زمین کو اس سے مستثنیٰ کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مال کی نذر میں زمین بھی شامل تھی۔
(2) جنت مبارک ہو بظاہر کیونکہ وہ سفر جہاد کے دوران میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت کرتے ہوئے کسی کافر کے تیر سے شہید ہوا تھا۔
(3) سبب بن سکتے ہیں اگر خیانت کے ساتھ حاصل کیے جائیں اور بیت المال میں جمع نہ کرائے جائیں‘ یعنی معمولی اشیاء میں خیانت عذاب کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3858   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2711  
´مال غنیمت میں چوری بڑا گناہ ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کے سال نکلے، تو ہمیں غنیمت میں نہ سونا ہاتھ آیا نہ چاندی، البتہ کپڑے اور مال و اسباب ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القری کی جانب چلے اور آپ کو ایک کالا غلام ہدیہ میں دیا گیا تھا جس کا نام مدعم تھا، جب لوگ وادی القری میں پہنچے تو مدعم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا، اتنے میں اس کو ایک تیر آ لگا اور وہ مر گیا، لوگوں نے کہا: اس کے لیے جنت کی مبارک بادی ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2711]
فوائد ومسائل:
ملی امانتوں کا معاملہ انتہائی سخت ہے۔
بلا اجازت امیر یا بلااستحقاق کوئی معمولی چیز بھی اٹھا لینا بہت بڑے عقاب کا باعث ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2711   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.