الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: بیعت کے احکام و مسائل
The Book of al-Bay'ah
31. بَابُ : النَّصِيحَةِ لِلإِمَامِ
31. باب: امام اور حاکم کے لیے خیر خواہی کا بیان۔
Chapter: Sincerity To The Imam
حدیث نمبر: 4202
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا سفيان، قال: سالت سهيل بن ابي صالح، قلت: حدثنا عمرو، عن القعقاع، عن ابيك، قال: انا سمعته من الذي حدث ابي، حدثه رجل من اهل الشام يقال له: عطاء بن يزيد، عن تميم الداري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما الدين النصيحة"، قالوا: لمن يا رسول الله؟، قال:" لله، ولكتابه، ولرسوله، ولائمة المسلمين , وعامتهم".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَأَلْتُ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ، قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِيكَ، قَالَ: أَنَا سَمِعْتُهُ مِنَ الَّذِي حَدَّثَ أَبِي، حَدَّثَهُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ: عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا الدِّينُ النَّصِيحَةُ"، قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ:" لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ , وَعَامَّتِهِمْ".
تمیم الداری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین نصیحت خیر خواہی کا نام ہے، آپ نے کہا: (نصیحت و خیر خواہی) کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عوام کے لیے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 23 (55)، سنن ابی داود/الأدب 67 (4944)، (تحفة الأشراف: 2053)، مسند احمد (4/102) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اللہ کے لیے خیر خواہی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اللہ کی وحدانیت کا قائل ہو اور اس کی ہر عبادت خالص اللہ کی رضا کے لیے ہو۔ کتاب اللہ (قرآن) کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لائے اور عمل کرے۔ رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ نبوت و رسالت محمدیہ کی تصدیق کرنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کا حکم دیں اسے بجا لائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے باز رہے، اور آپ کی تعلیمات کو عام کرے، مسلمانوں کے حاکموں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ حق بات میں ان کی تابعداری کی جائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر ان کے خلاف بغاوت کا راستہ نہ اپنایا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیا جائے، اور ان کے مصالح کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم196تميم بن أوسالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   سنن أبي داود4944تميم بن أوسالدين النصيحة لله وكتابه ورسوله وأئمة المؤمنين وعامتهم
   سنن النسائى الصغرى4202تميم بن أوسالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   سنن النسائى الصغرى4203تميم بن أوسالدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
   بلوغ المرام1326تميم بن أوس‏‏‏‏الدين النصيحة
   مسندالحميدي859تميم بن أوسالدين النصيحة، الدين النصيحة، الدين النصيحة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4202  
´امام اور حاکم کے لیے خیر خواہی کا بیان۔`
تمیم الداری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دین نصیحت خیر خواہی کا نام ہے، آپ نے کہا: (نصیحت و خیر خواہی) کس کے لیے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے اماموں کے لیے اور عوام کے لیے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4202]
اردو حاشہ:
دین اخلاص کا نام ہے۔ اخلاص نہ ہو تو شرک، نفاق، ریاکاری، دغا بازی اور دھوکا دہی جیسے قبیح اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اخلاص یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرے، اسی کو پکارے، اسی پر بھروسا کرے اور اسی سے ڈرے۔ کتاب سے اخلاص یہ ہے کہ اس پر عمل کرے اور اس کا احترام کرے۔ رسول اللہ ﷺ سے اخلاص یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کرے، ہر چیز سے بڑھ کر محبت رکھے، آپ کے فرمان پر مر مٹے۔ آپ کے مقابلے میں کسی کی پروا نہ کرے۔ حکام سے اخلاص یہ ہے کہ ان کی بیعت کر کے ان سے وفادار رہے اور حتیٰ الامکان شرعی حدود کے اندر ان کی اطاعت کرے۔ ان کے خلاف بغاوت نہ کرے۔ او عام مسلمانوں سے اخلاص یہ ہے کہ ان کا خیر خواہ رہے، ان کو دھوکا نہ دے، کسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4202   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1326  
´مکارم اخلاق (اچھے عمدہ اخلاق) کی ترغیب کا بیان`
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دین (دین اسلام) وعظ و نصیحت کا نام ہے۔ تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا۔ ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! یہ نصیحت کا حق کس کے لیے ہے؟ فرمایا اللہ کے لیے اس کی کتاب کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے۔ (مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1326»
تخریج:
«أخرجه مسلم، الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحة، حديث:55.»
تشریح:
1. اللہ کے لیے خیر خواہی کے معنی یہ ہیں کہ عقیدہ صحیح ہو کہ اس کے سوا اور کوئی مستحق عبادت نہیں ہے‘ نہ کوئی اس کے علاوہ معبود و مالک ہی ہے۔
اور اس کی عبادت میں بھی اخلاص ہو۔
2. اس کی کتاب کے لیے خیرخواہی سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب کی تصدیق کی جائے اور اس میں جو تعلیم ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
3. اس کے رسول کی خیر خواہی یہ ہے کہ آپ کی رسالت و نبوت کو بصدق قلب تسلیم کیا جائے اور آپ کے حکم کی بلا چون و چرا تعمیل کی جائے اور جس کام سے آپ نے روکا ہو اس سے رکا جائے۔
4. ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق کے معاملے میں ان کی بات مانی جائے اور تھوڑی بہت سختی کی بنا پر ان کے خلاف بغاوت اور خروج نہ کیا جائے۔
5. عام مسلمانوں کی خیر خواہی سے مراد یہ ہے کہ اچھے کاموں کی طرف ان کی راہنمائی کی جائے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابورقیہ ہے۔
نام تمیم بن اوس بن خارجہ داری ہے۔
۹ہجری میں اسلام قبول کیا۔
بیت المقدس میں سکونت اختیار کی۔
جساسہ کی اطلاع نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک انھوں نے پہنچائی تھی۔
ابن سیرین کا قول ہے کہ انھوں نے سارا قرآن حفظ کیا اور ایک رات میں سارا قرآن تلاوت کر لیتے تھے۔
اور ابونعیم کا قول ہے کہ تمیم وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے مساجد میں چراغ روشن کیا تھا۔
۴۰ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1326   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4944  
´نصیحت و خیر خواہی کا بیان۔`
تمیم داری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً دین خیر خواہی کا نام ہے، یقیناً، دین خیر خواہی کا نام ہے لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن کے لیے؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مومنوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے یا کہا مسلمانوں کے حاکموں کے لیے اور ان کے عام لوگوں کے لیے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4944]
فوائد ومسائل:
اللہ کے لیے نصیحت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبودیت میں سرشار رہے۔
اس کی توحید کا اقرار و اظہار کرے اور شرک سے بیزار اور دور رہے۔
رسول کے لیے نصیحت یہ ہے کہ اس کی رسالت کا اقرار و اظہار اور بے میل کی اطاعت کرے، بدعات سے بیزار اور دور رہے۔
کتاب اللہ کو اپنا دستورِ زندگی بنائے اور تمام مسائل اس کی روشنی میں سر انجام دینے کے لیے کو شاں رہے۔
حکام ِ وقت کے لیے نصیحت یہ ہے کہ خیر و خوبی کے کاموں میں ان کی اطاعت کرے اور ان کا معاون بنے۔
لوگوں کے اندر بلا وجہ ان کی مخالفت کے جذبات نہ اُبھارے اور عام مسلمانوں میں حسبِ مراتب دین ع دُنیا کے معاملات میں بھلائی سے پیش آئے یہی ان کے لیے نصیحت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4944   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.