الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
41. بَابُ : بَيْعِ التَّمْرِ بِالتَّمْرِ مُتَفَاضِلاً
41. باب: کھجور کے بدلے کھجور کمی زیادتی کے ساتھ بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Dates for Dates Of Different Quality
حدیث نمبر: 4557
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن سلمة , والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له , عن ابن القاسم , قال: حدثني مالك , عن عبد المجيد بن سهيل , عن سعيد بن المسيب , عن ابي سعيد الخدري , وعن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر , فجاء بتمر جنيب , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكل تمر خيبر هكذا؟" , قال: لا , والله يا رسول الله إنا لناخذ الصاع من هذا بصاعين , والصاعين بالثلاث , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تفعل , بع الجمع بالدراهم , ثم ابتع بالدراهم جنيبا".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ , قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ , عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ , فَجَاءَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا؟" , قَالَ: لَا , وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِصَاعَيْنِ , وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَفْعَلْ , بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ , ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا".
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ «جنیب» (نامی عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ وہ بولا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع یا تین صاع کے بدلے دو صاع لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، گھٹیا اور ردی کھجوروں کو درہم (پیسوں) سے بیچ دو، پھر درہم سے «جنیب» خرید لو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/لبیوع 89 (2201، 2202)، الوکالة 3 (2302، 2303)، المغازي 39 (42، 4244)، الاعتصام 20(7350-7351)، صحیح مسلم/المساقاة 18 (البیوع 39) (1593)، (تحفة الأشراف: 4044)، موطا امام مالک /البیوع 12 (21)، مسند احمد (3/45، 47)، سنن الدارمی/البیوع 40 (4245) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہی معاملہ ہر طرح کے پھلوں اور غلوں میں کرنا چاہیئے، اگر کسی کو گھٹیا اور ردی قسم کے بدلے اچھے قسم کا پھل یا غلہ چاہیئے تو وہ قیمت سے خریدے، بدلے میں نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري4245استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب فقال رسول الله أكل تمر خيبر هكذا فقال لا والله يا رسول الله إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين والصاعين بالثلاثة فقال لا تفعل بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
   صحيح البخاري2202بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
   صحيح البخاري7351لا تفعلوا ولكن مثلا بمثل أو بيعوا هذا واشتروا بثمنه من هذا وكذلك الميزان
   صحيح مسلم4081أكل تمر خيبر هكذا قال لا والله يا رسول الله إنا لنشتري الصاع بالصاعين من الجمع فقال رسول الله لا تفعلوا ولكن مثلا بمثل أو بيعوا هذا واشتروا بثمنه من هذا وكذلك الميزان
   سنن النسائى الصغرى4557بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
   صحيح البخاري2201بع الجمع بالدراهم ثم ابتع بالدراهم جنيبا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم513لا تفعل، بع الجمع بالدراهيم، ثم ابتع بالدراهيم جنيبا
   بلوغ المرام700لا تفعل،‏‏‏‏ بع الجمع بالدراهم،‏‏‏‏ ثم ابتع بالدراهم جنيبا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 513  
´ایک ہی جنس میں کم یا زیادہ لینا سود ہے`
«. . . 394- مالك عن عبد المجيد بن سهيل عن ابن المسيب عن أبى سعيد الخدري وعن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر فجاءه بتمر جنيب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكل تمر خيبر هكذا؟ فقال: لا والله، إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تفعل، بع الجمع بالدراهيم، ثم ابتع بالدراهيم جنيبا. . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو خیبر (کے علاقے) پر عامل یعنی امیر بنایا تو وہ اعلیٰ قسم کی کھجوریں لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم دو صاع کھجوریں دے کر اس قسم کی کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین ساع دے کر دو ساع لیتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، عام کھجوروں کو درہموں (رقم) کے بدلے میں بیچ دو پھر رقم سے اعلی قسم کی کھجوریں خرید لو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 513]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2201، 2202، ومسلم 95/1592، من حديث مالك به * وفي حديث يحيى بن يحيى: بِالدَّرَاهِمِ]

تفقه:
➊ اگر جنس ایک ہی ہو تو تجارت میں ایک جنس دے کر اس کے بدلے میں وہی جنس کم یا زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 394   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4557  
´کھجور کے بدلے کھجور کمی زیادتی کے ساتھ بیچنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا عامل بنایا، وہ «جنیب» (نامی عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟ وہ بولا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم یہ کھجور دو صاع کے بدلے ایک صاع یا تین صاع کے بدلے دو صاع لیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، گھٹیا اور ردی کھجوروں کو درہم (پیسوں) سے بیچ دو، [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4557]
اردو حاشہ:
(1) کھجور کے عوض کھجور کا کمی بیشی کے ساتھ سودا کرنا، حرام ہے خواہ کھجور کی ایک قسم کتنی ہی عمدہ و اعلیٰ اور دوسری کتنی ہی ردی ہو۔
(2) یہ حدیث صراحتاََ دلالت کرتی ہے کہ سودی کاروبار کرنا قطعاََ حرام ہے ایسا کیا ہوا سودا صحیح نہیں ہو گا۔
(3) بعض معاملات میں حرام کام کامرتکب اس وقت تک معذور سمجھائے گا جب تک اسے اس کام کی حرمت کا علم نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ عذر بالجہل مطلقاََ قابل قبول نہیں، تاہم بعض معاملات، جن کا شریعت مطہرہ اور عرفِ عام لحاظ رکھیں، ان میں ایسا عذر قابل قبول ہو گا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے خود ساختہ صوفیوں کے اس خشک زہد کا رد ہوتا ہے جو اچھی اشیاء کے استعمال سے گریز کرتے اور اپنے باطل زعم میں اسے تقویٰ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کرکے اسے نفس کشی کا نام دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا عابد و زاہد بھلا کون ہو سکتا ہے؟ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے استعمال کے لیے، ردی کھجور کے عوض اچھی اور عمدہ کھجور پسند کی ہے اور اسے خریدا ہے۔
(5) امام اور دینی و مذہبی ذمہ دار شخص کو خصوصی طور پر دین کے معاملات کو اہمیت دینی چاہیے۔ جن لوگوں کو ان کا علم نہ ہو انھیں تعلیم دینی چاہیے اور انھیں نا جائز و حرام امور سے متنبہ کر کے جائز و مباح اور حلال امور کی طرف ان کی راہنمائی کونی چاہیے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی کی رہنمائی فرماتے ہوئے اسے حرام کام سے ہٹا کر حلال کی طرف راستہ دکھایا۔
(6) یہ حدیث ربوا بالفضل کی حرمت کی صریح دلیل ہے۔
(7) شکوک و شبہات میں مبتلا شخص کی تلاش حق میں اس وقت تک مدد کرنی چاہیے جب تک کہ اس کے لیے حق واضح نہ ہو جائے۔
(8) جنیب اعلیٰ قسم کی کھجور تھی اور جمع ردی کھجور جس میں گٹھلی نہیں ہوتی تھی۔ یا جمع سے مراد ملی جلی کھجوریں ہیں۔ کوئی کسی قسم کی کوئی کسی قسم کی جیسا کہ صدقہ و عشر میں عام ہوتا ہے۔ چونکہ خیبر میں بھی ہر قسم کی کھجوروں سے حصہ وصول کیا گیا تھا، لہٰذا وہ ملی جلی تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4557   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.