الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
119. بَابُ : اتِّخَاذِ الْخَادِمِ وَالْمَرْكَبِ
119. باب: نوکر اور سواری رکھنے کے حکم کا بیان۔
Chapter: Keeping Servants and Mounts
حدیث نمبر: 5374
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا محمد بن قدامة، عن جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن سمرة بن سهم رجل من قومه، قال: نزلت على ابي هاشم بن عتبة وهو طعين، فاتاه معاوية يعوده , فبكى ابو هاشم، فقال معاوية: ما يبكيك اوجع يشئزك , ام على الدنيا فقد ذهب صفوها؟ , قال: كل لا , ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلي عهدا، وددت اني كنت تبعته، قال:" إنه لعلك تدرك اموالا تقسم بين اقوام وإنما يكفيك من ذلك خادم ومركب في سبيل الله"، فادركت فجمعت.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ سَهْمٍ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: نَزَلْتُ عَلَى أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ طَعِينٌ، فَأَتَاهُ مُعَاوِيَةُ يَعُودُهُ , فَبَكَى أَبُو هَاشِمٍ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: مَا يُبْكِيكَ أَوَجَعٌ يُشْئِزُكَ , أَمْ عَلَى الدُّنْيَا فَقَدْ ذَهَبَ صَفْوُهَا؟ , قَالَ: كُلٌّ لَا , وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَبِعْتُهُ، قَالَ:" إِنَّهُ لَعَلَّكَ تُدْرِكُ أَمْوَالًا تُقْسَمُ بَيْنَ أَقْوَامٍ وَإِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ ذَلِكَ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، فَأَدْرَكْتُ فَجَمَعْتُ.
ابووائل سے روایت ہے کہ سمرہ بن سہم جو ابووائل کے قبیلے کے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے یہاں ٹھہرا، وہ طاعون میں مبتلا تھے، چنانچہ ان کی عیادت کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ آئے، تو ابوہاشم رونے لگے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا کسی تکلیف کی وجہ سے رو رہے ہو یا دنیا کے لیے؟ دنیا کی راحت تو اب گئی، انہوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، دراصل مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عہد یاد آ گیا جو آپ نے مجھ سے لیا تھا، میں چاہتا تھا کہ میں اس کی پیروی کروں، آپ نے فرمایا: تیرے سامنے ایسے اموال آئیں گے جو لوگوں کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے، لیکن تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک خادم اور اللہ کی راہ کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا پھر اسے جمع کیا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 19 (2327)، سنن ابن ماجہ/الزہد 1 (4103)، (تحفة الأشراف: 12178)، مسند احمد (3/443، 444، 5/290) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (2327) ابن ماجه (4103) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 363
   جامع الترمذي2327خالد بن عتبةيكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله
   سنن ابن ماجه4103خالد بن عتبةيكفيك من ذلك خادم ومركب في سبيل الله
   سنن النسائى الصغرى5374خالد بن عتبةيكفيك من ذلك خادم ومركب في سبيل الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5374  
´نوکر اور سواری رکھنے کے حکم کا بیان۔`
ابووائل سے روایت ہے کہ سمرہ بن سہم جو ابووائل کے قبیلے کے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے یہاں ٹھہرا، وہ طاعون میں مبتلا تھے، چنانچہ ان کی عیادت کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ آئے، تو ابوہاشم رونے لگے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا کسی تکلیف کی وجہ سے رو رہے ہو یا دنیا کے لیے؟ دنیا کی راحت تو اب گئی، انہوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، دراصل مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عہد یاد آ گیا جو آپ نے مج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5374]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ آدمی نوکر اور سواری رکھ سکتا ہے۔ یہ عیش عشرت یا عیاشی کے قبیل سے نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔
(2) یہ حدیث مبارکہ دنیا، اس کی رنگینیوں، نیز دنیا کی نعمتوں اور اس کا زیادہ مال و متاع جمع کرنے سے بے رغبتی پر دلالت کرتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک بندۂ مومن کی کوشش دنیا کمانے کی بجائے آخرت کمانے کی ہوتی ہے اور اس کی اصل ترجیح اس فانی دنیا کی نعمتوں کا حصول نہیں بلکہ ابدی و دائمی اور لازوال اخروی نعمتوں کا حصول ہی ہوتی ہے۔ حرام اور ناجائز کمائی کے ڈھیر جمع کرنے کی بجائے تھوڑی لیکن حلال اور پاکیزہ کمائی پر توجہ دینا ہی فرض ہے۔ اس کی واضح دلیل حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا انداز حیات ہے۔ اللّهُمَّ وَفقنا لما تحِبُّه و تر ضاه
(3) بہترین حصہ یعنی رسول اللہ ﷺ کی رفاقت یا جوانی والا۔
(4) مال یعنی غنیمتیں زیادہ ہوں گی۔
(5) جمع کرلیا یہ ان کی کسر نفسی تھی ورنہ انہوں نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ رضي الله عنه وأرضاه۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5374   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4103  
´دنیا سے بے رغبتی کا بیان۔`
سمرہ بن سہم کہتے ہیں کہ میں ابوہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، وہ برچھی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو آئے تو ابوہاشم رضی اللہ عنہ رونے لگے، معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ماموں جان! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا درد کی شدت سے رو رہے ہیں یا دنیا کی کسی اور وجہ سے؟ دنیا کا تو بہترین حصہ گزر چکا ہے، ابوہاشم رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان میں سے کسی بھی وجہ سے نہیں رو رہا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک نصیحت کی تھی، کاش! میں اس پر عمل کئے ہوتا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: شاید تم ایسا زمانہ پاؤ، جب ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4103]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیمار کی عیادت کرنا مسلمان کا مسلمان پر حق ہے۔

(2)
عیادت کے موقع پر مریض کی پریشانی معلوم کر کے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

(3)
ضرورت سے زیادہ مال ملے تو جمع کرنے کی بجائے دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔

(4)
اگر حلال طریقے سے مال جمع ہوجائے اور نیکی کی راہوں میں خرچ کرنے کے باوجود دولت باقی رہے تو یہ گناہ نہیں۔
لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے اپنے اعلیٰ مقام کے منافی سمجھ کر افسوس کرتے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4103   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.