Narrated Maimuna: The Prophet took the bath of Janaba. (sexual relation or wet dream). He first cleaned his private parts with his hand, and then rubbed it (that hand) on the wall (earth) and washed it. Then he performed ablution like that for the prayer, and after the bath he washed his feet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 260
● صحيح البخاري | 259 | عبد الله بن عباس | أفرغ بيمينه على يساره فغسلهما ثم غسل فرجه ثم قال بيده الأرض فمسحها بالتراب ثم غسلها ثم تمضمض واستنشق ثم غسل وجهه وأفاض على رأسه ثم تنحى فغسل قدميه ثم أتي بمنديل فلم ينفض بها |
● صحيح البخاري | 249 | عبد الله بن عباس | توضأ رسول الله وضوءه للصلاة غير رجليه وغسل فرجه وما أصابه من الأذى ثم أفاض عليه الماء ثم نحى رجليه فغسلهما هذه غسله من الجنابة |
● صحيح البخاري | 257 | عبد الله بن عباس | غسل يديه مرتين أو ثلاثا ثم أفرغ على شماله فغسل مذاكيره ثم مسح يده بالأرض ثم مضمض واستنشق وغسل وجهه ويديه ثم أفاض على جسده ثم تحول من مكانه فغسل قدميه |
● صحيح البخاري | 260 | عبد الله بن عباس | اغتسل من الجنابة فغسل فرجه بيده ثم دلك بها الحائط ثم غسلها ثم توضأ وضوءه للصلاة فلما فرغ من غسله غسل رجليه |
● صحيح البخاري | 266 | عبد الله بن عباس | صب على يده فغسلها مرة أو مرتين ثم أفرغ بيمينه على شماله فغسل فرجه ثم دلك يده بالأرض أو بالحائط ثم تمضمض واستنشق وغسل وجهه ويديه وغسل رأسه ثم صب على جسده ثم تنحى فغسل قدميه فناولته خرقة فقال بيده هكذا ولم يردها |
● صحيح البخاري | 274 | عبد الله بن عباس | أكفأ بيمينه على شماله مرتين أو ثلاثا ثم غسل فرجه |
● صحيح البخاري | 276 | عبد الله بن عباس | وصب على يديه فغسلهما ثم صب بيمينه على شماله فغسل فرجه فضرب بيده الأرض فمسحها ثم غسلها فمضمض واستنشق وغسل وجهه وذراعيه ثم صب على رأسه وأفاض على جسده ثم تنحى فغسل قدميه فناولته ثوبا فلم يأخذه فانطلق وهو ينفض يديه |
● صحيح البخاري | 281 | عبد الله بن عباس | غسل يديه ثم صب بيمينه على شماله فغسل فرجه وما أصابه ثم مسح بيده على الحائط أو الأرض ثم توضأ وضوءه للصلاة غير رجليه ثم أفاض على جسده الماء ثم تنحى فغسل قدميه |
● صحيح البخاري | 265 | عبد الله بن عباس | أفرغ على يديه فغسلهما مرتين مرتين أو ثلاثا ثم أفرغ بيمينه على شماله فغسل مذاكيره ثم دلك يده بالأرض ثم مضمض واستنشق ثم غسل وجهه ويديه وغسل رأسه ثلاثا ثم أفرغ على جسده ثم تنحى من مقامه فغسل قدميه |
● صحيح مسلم | 722 | عبد الله بن عباس | غسله من الجنابة فغسل كفيه مرتين أو ثلاثا ثم أدخل يده في الإناء ثم أفرغ به على فرجه وغسله بشماله ثم ضرب بشماله الأرض فدلكها دلكا شديدا ثم توضأ وضوءه للصلاة ثم أفرغ على رأسه ثلاث حفنات ملء كفه ثم غسل سائر جسده ثم تنحى عن مقامه ذلك فغسل رجليه ثم أتيته بالمند |
● جامع الترمذي | 103 | عبد الله بن عباس | اغتسل من الجنابة فأكفأ الإناء بشماله على يمينه فغسل كفيه ثم أدخل يده في الإناء فأفاض على فرجه ثم دلك بيده الحائط أو الأرض ثم مضمض واستنشق وغسل وجهه وذراعيه ثم أفاض على رأسه ثلاثا ثم أفاض على سائر جسده ثم تنحى فغسل رجليه |
● سنن أبي داود | 245 | عبد الله بن عباس | أكفأ الإناء على يده اليمنى فغسلها مرتين أو ثلاثا ثم صب على فرجه فغسل فرجه بشماله ثم ضرب بيده الأرض فغسلها ثم تمضمض واستنشق وغسل وجهه ويديه ثم صب على رأسه وجسده ثم تنحى ناحية فغسل رجليه فناولته المنديل فلم يأخذه وجعل ينفض الماء عن جسده |
● سنن أبي داود | 246 | عبد الله بن عباس | إذا اغتسل من الجنابة يفرغ بيده اليمنى على يده اليسرى سبع مرار ثم يغسل فرجه ثم يتوضأ وضوءه للصلاة ثم يفيض على جلده الماء ثم يقول هكذا كان رسول الله |
● سنن النسائى الصغرى | 428 | عبد الله بن عباس | اغتسل النبي من الجنابة فغسل فرج |
● سنن النسائى الصغرى | 418 | عبد الله بن عباس | توضأ رسول الله وضوءه للصلاة غير رجليه وغسل فرجه وما أصابه ثم أفاض عليه الماء ثم نحى رجليه فغسلهما قالت هذه غسلة للجنابة |
● سنن النسائى الصغرى | 254 | عبد الله بن عباس | غسل كفيه مرتين أو ثلاثا ثم أدخل بيمينه في الإناء فأفرغ بها على فرجه ثم غسله بشماله ثم ضرب بشماله الأرض فدلكها دلكا شديدا ثم توضأ وضوءه للصلاة ثم أفرغ على رأسه ثلاث حثيات ملء كفه ثم غسل سائر جسده ثم تنحى عن مقامه فغسل رجليه قالت ثم أتيته بالمنديل فرده |
● سنن النسائى الصغرى | 419 | عبد الله بن عباس | إذا اغتسل من الجنابة يبدأ فيغسل يديه ثم يفرغ بيمينه على شماله فيغسل فرجه ثم يضرب بيده على الأرض ثم يمسحها ثم يغسلها ثم يتوضأ وضوءه للصلاة ثم يفرغ على رأسه وعلى سائر جسده ثم يتنحى فيغسل رجليه |
● سنن ابن ماجه | 573 | عبد الله بن عباس | وضعت للنبي غسلا فاغتسل من الجنابة فأكفأ الإناء بشماله على يمينه فغسل كفيه ثلاثا ثم أفاض على فرجه ثم دلك يده فى الأرض ثم مضمض واستنشق وغسل وجهه ثلاثا وذراعيه ثلاثا ثم أفاض الماء على سائر جسده ثم تنحى فغسل رجليه |
● سنن ابن ماجه | 467 | عبد الله بن عباس | أتيت رسول الله بثوب حين اغتسل من الجنابة فرده وجعل ينفض الماء |
● مسندالحميدي | 318 | عبد الله بن عباس | اغتسل من الجنابة فغسل فرجه بيده ثم دلك بها الحايط ثم غسلها ثم توضأ وضوءه للصلاة، فلما فرغ من غسله غسل رجليه |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 260
´ گندگی پاک کرنے کے بعد ہاتھ مٹی سے ملنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ دَلَكَ بِهَا الْحَائِطَ، ثُمَّ غَسَلَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ غَسَلَ رِجْلَيْهِ " . . . .»
”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کیا تو پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا۔ پھر ہاتھ کو دیوار پر رگڑ کر دھویا۔ پھر نماز کی طرح وضو کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غسل سے فارغ ہو گئے تو دونوں پاؤں دھوئے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَسْحِ الْيَدِ بِالتُّرَابِ لِيَكُونَ أَنْقَى:: 260]
تشریح:
پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے، مگر یہاں دوسری سند سے مروی ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ ایک ہی حدیث کو کئی بار مختلف مسائل نکالنے کے لیے بیان کرتے ہیں مگر جدا جدا اسنادوں سے تاکہ تکرار بے فائدہ نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 260
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 274
´جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا`
«. . . وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوِ الْحَائِطِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 274]
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا۔ کیوں کہ ابتداء ہی میں وضو کیا جاتا ہے جب آخری مرتبہ جسم پر پانی ڈال دیا جائے تو دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں جیسا کہ حدیث کے متن میں واضح ہے کہ آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیر دھوئے اور اس کے بعد دوبارہ وضو نہیں کیا۔
شاہ صاحب فرماتے ہیں:
«فرض المصنف ان اعادة غسل سائر اعضاء الوضؤ غير لازم والاستدلال بظاهر الحديث» [شرح تراجم ابواب البخاري: ص 112]
”امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ غسل کے بعد تمام اعضاء وضوء تو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے اور مصنف رحمہ اللہ نے حدیث کے ظاہر سے استدلال فرمایا۔“
ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”کلی اور ناک میں پانی ڈالتے وقت اگر غسل اور وضو کی نیت ہے تو دوبارہ اعضاء کو دھونے پر اختیار ہے، یعنی غسل میں کیا گیا وضو کافی ہو گا۔ جب کہ اس نے دونوں کی نیت کی ہے۔“ [المغني۔ ج1۔ ص289]
ہاں البتہ اتنا یاد رکھنا چاہئیے کہ غسل کے دوران شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضو کا اعادہ ضروری ہو گا۔
ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يجب الوضوء إذا مس فرجه فى الغسل»
”جب شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضوء لازم ہو جاتا ہے۔“ [عارضة الاجوزي، ج1، ص163]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 141
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 245
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان `
«. . . حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ بِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ . . .»
”. . . ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا، تاکہ آپ غسل کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا اور اسے دوبار یا تین بار دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا، پھر کچھ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، میں نے بدن پونچھنے کے لیے رومال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا، اور پانی اپنے بدن سے جھاڑنے لگے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 245]
فوائد و مسائل:
➊ غسل جنابت ہو یا عام غسل، مسنون طریقہ یہی ہے جو ان احادیث میں آیا ہے کہ پہلے استنجا اور زیریں جسم دھویا جائے، بعد ازاں وضو کر کے باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ اس وضو میں سر پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت سے پہلے والے وضو میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ملتا، صرف تین مرتبہ سر پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ اسی لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے ”غسل جنابت سے پہلے وضو میں سر کے مسح کا چھوڑ دینا۔“ اس باب کے تحت حدیث میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ ”یہاں تک کہ جب آپ سر پر پہنچے، تو اس کا مسح نہیں کیا، بلکہ اس پر پانی بہایا۔“ [سنن نسائي حديث: 422]
➋ مختلف احادیث میں وضو کا انداز مختلف نقل ہوا ہے۔ بعض میں پاؤں دھونے کے موقع کا بالکل ذکر نہیں ہے۔ بعض میں صراحت ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد دھوئے اور بعض میں دو دفعہ کا ذکر ہے۔ پہلی دفعہ میں وضو کے ساتھ اور دوسری دفعہ فراغت کے بعد اور ظاہر ہے کہ سب ہی صورتیں جائز ہیں۔
➌ غسل کے بعد تولیہ کا استعمال مباح ہے، نہ کرے تو سنت رسول پر عمل کے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 245
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 418
´پانی بہانے سے پہلے جنبی کا اپنے اوپر لگی ہوئی گندگی دور کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، البتہ اپنے دونوں پاؤں نہیں دھوئے، اور (وضو سے پہلے) آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی گندگی دھوئی، پھر اپنے جسم پر پانی بہایا، پھر اپنے دونوں پاؤں کو ہٹایا اور انہیں دھویا، یہی (آپ کے) غسل جنابت کا طریقہ تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 418]
418۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں استنجا کرنے سے پہلے وضو کرنے کا بیان ہے۔ یہ بیان میں سہو ہے۔ اگلی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے گندگی صاف کی جائے، یعنی استنجا کیا جائے، اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ صرف سر کا مسح نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے تین چلو پانی سر میں ڈالا جائے گا اور پاؤں بھی غسل کرنے کے بعد آخر میں دھوئے جائیں گے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ شروع میں بھی دھوئے جاسکتے ہیں جبکہ بعد میں پاؤں کے آلودہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث 254 اور اس کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 418
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 419
´شرمگاہ دھونے کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر زمین پر اپنا ہاتھ مارتے، پھر اسے ملتے، پھر دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنے سر اور باقی جسم پر پانی ڈالتے، پھر وہاں سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ اگرچہ استنجا کرنے سے شرم گاہ کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی صاف ہو جاتا ہے مگر چونکہ ہاتھ افضل جزو ہے۔ نماز، قرأت قرآن اور کھانے پکانے وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اس کی خصوصی صفائی کرنی چاہیے، یعنی اسے مٹی یا صابن وغیرہ سے مل کر اچھی طرح دھویا جائے۔
➋ مٹی نجاست کی بو اور چکناہٹ وغیرہ کو ختم کرتی ہے، اس لیے استنجا کے بعد ہاتھ کو مٹی سے ملنا چاہیے۔ آج کل صابن یہی کام کر سکتا ہے۔ مزید دیکھیے حدیث254 اور اس کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 419
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 428
´غسل میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابت کا غسل کیا، تو آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا، اور زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ رگڑا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر اور پورے جسم پر پانی بہایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 428]
428۔ اردو حاشیہ: غسل جنابت میں شرط یہ ہے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، خواہ پانی جسم پر ایک دفعہ ڈالا جائے یا زیادہ دفعہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 428
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 254
´غسل کی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 254]
254۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔
➌ غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہو گا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔
➍ رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔
➎ جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھو لے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔
➏ شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 254
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث467
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کر چکے تو میں آپ کے پاس ایک کپڑا لائی، آپ نے اسے واپس لوٹا دیا اور (بدن سے) پانی جھاڑنے لگے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 467]
اردو حاشہ:
نبیﷺ نے کپڑا اس لیے واپس کردیا کہ اسے ضروری نہ سمجھ لیا جائے تاکہ اس سے امت کے لیے مشکل نہ پیدا ہو، پھر کسی موقع پر ایک آدمی کے لیے بدن پونچھنے کے لیے الگ کپڑا موجود نہ ہوتو وہ حرج محسوس کرے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 467
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:260
260. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت میمونہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بایں طور غسل جنابت کیا کہ پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا، پھر ہاتھ کو دیوار سے رگڑا اور اسے دھویا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا۔ اور جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:260]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح دھونے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔
حالانکہ یہ بات پہلے باب میں معلوم ہو چکی تھی۔
یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب میں ہاتھ کو مٹی پر رگڑنے اور یہاں دیوار پر مارنے کا ذکر ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔
(عمدة القاري: 27/3)
اس کے علاوہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف شیوخ کے استنباط و استخراج کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مثلاً:
عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے مسح الید بالتراب ثابت کرنے کے لیے حدیث میمونہ کو بیان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امام بخاری ؒ کے استاد عمر بن حفص بن غیاث نے اس حدیث سے مضمضة اور استنشاق کا استخراج کیا تھا۔
لہٰذا دونوں روایات کو ایک دوسرے سے قوت و تائید بھی حاصل ہوگئی۔
(شرح الکرماني: 123/1)
2۔
مام بخاری ؒ کے علاوہ امام ابو داؤد ؒ نے بھی حدیث میمونہ پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
"استنجاء سے فراغت کے بعد آدمی کا اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑنے کا بیان" فرق صرف اتنا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اسے کتاب الغسل میں بیان کیا ہے، جبکہ امام ابو داود ؒ نے کتاب الطهارة میں ذکر کیا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عناوین کی دو قسمیں ہیں:
* عنوان ایک دعوی کی قبیل سے ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث اس دعوی کی دلیل ہوتی ہے. صحیح بخاری کے بیشتر عنوان اسی قسم سے متعلق ہیں۔
* عنوان بعد میں آنے والی حدیث کی شرح اور وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔
مذکورہ عنوان اسی قسم سے ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استنجے سے فراغت كے بعد اپنے ہاتھ کو دیوار پر رگڑا۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کردی کہ ہاتھ کو دیوار پر رگڑنے سے مقصود صفائی کا حصول تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس مقام پر ایک اختلاف کی طرف اشارہ کر کے اپنا رجحان بیان کررہے ہیں، اختلاف یہ ہے کہ ہاتھ کو زمین پر رگڑنے سے مقصود حصول نظافت ہے يا حصول طہارت؟ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے نظریاتی اختلاف پر ہے، وہ اس طرح کہ بعض حضرات کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد جس بد بو کو دور کرنے کے لیے ہاتھوں کو زمین پر رگڑ اجاتا ہے، وہ درحقیقت نجاست کے ان اجزاء کو دور کرنے کے لیے ہے جو نظر نہیں آتے، لیکن ہاتھ میں تحلیل ہو جاتے ہیں، یہ حضرات اپنے اس موقف کی تائید میں کہتے ہیں کہ خروج ریح سے وضو اسی لیے ٹوٹتا ہے کہ نجاست کے اجزا ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے خروج سے طہارت ساقط ہو جاتی ہے، ان کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا ضروری ہے تاکہ نجس اجزا سے طہارت ہو جائے، جبکہ دوسرے حضرات کا موقف ہے کہ ہوا میں نجاست کے اجزا نہیں ہوتے بلکہ ان کے قریب سے ہوا کے گزرنے کی بنا پر اس میں بوکی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ان ہوائی کیفیات کا زائل کرنا ضروری نہیں، بلکہ حصول نظافت کے لیے یہ عمل کیا جا تا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر گیلے کپڑے پر بدبو دار ہوا گزر ے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہوتا، اگر اس ہوا میں نجاست آلود اجزاء ہوتے تو اس گندی ہوا کے گزرنے سے کپڑا پلید ہونا چاہیے تھا۔
باقی رہا خروج ریح سے نقض طہارت کا مسئلہ تو یہ شریعت کے ایک منصوص حکم کی وجہ سے ہے۔
وہ اس لیے نہیں کہ نجاست کے اجزاء اس ہوا میں شامل ہو گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی ہوا ناقض وضو ہے، خواہ اس سے بدبو آئے یا نہ آئے، اس لیے ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس اختلاف پر تنبیہ فرمائی ہواور اس امر کو ترجیح دی ہو کہ ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھونا طہارت کے لیے نہیں بلکہ نظافت کے لیے ہے، تاکہ ازالہ عین نجاست کے بعد جو بدبو کے اثرات باقی رہ گئے ہیں انھیں بھی دور کردیا جائے، کیونکہ ان کی موجود گی باقی اعضائے جسم دھونے کے لیے نفرت کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 483/1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کیا تو اپنی شرمگاہ کو دھویا (فغسل فرجه)
کی ”فا“ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں ”فا“ تعقیب کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے لیے ہے، کیونکہ استنجا غسل سے فراغت کے بعد نہیں ہوا۔
(عمدة القاري: 27/3)
دراصل یہ”فا“ عاطفہ ہے جو بیان ترتیب کے لیے استعمال ہوئی ہے اور حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا تو اپنے غسل کی ترتیب اس طرح فرمائی کہ پہلے غسل فرج کیا، پھر ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھویا، پھر وضو فرمایا، بعد ازیں غسل فرما کر اپنے پاؤں وہاں سے الگ ہو کردھوئے۔
(شرح الکرماني: 123/1)
علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے کہ ”فا“ تفصیل کے لیے ہے، کیونکہ غسل کے اجمال کو اس”فا“ کے بعد تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہمیشہ تفصیل اجمال کے بعد ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 260