الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
95. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ
95. باب: مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کر سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 128
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا زهير بن محمد، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، عن عمه عمران بن طلحة، عن امه حمنة بنت جحش، قالت: كنت استحاض حيضة كثيرة شديدة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم استفتيه واخبره، فوجدته في بيت اختي زينب بنت جحش، فقلت: يا رسول الله إني استحاض حيضة كثيرة شديدة فما تامرني فيها قد منعتني الصيام والصلاة , قال: " انعت لك الكرسف فإنه يذهب الدم " , قالت: هو اكثر من ذلك، قال: " فتلجمي " , قالت: هو اكثر من ذلك، قال: " فاتخذي ثوبا " , قالت: هو اكثر من ذلك إنما اثج ثجا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " سآمرك بامرين ايهما صنعت اجزا عنك، فإن قويت عليهما فانت اعلم " , فقال: " إنما هي ركضة من الشيطان، فتحيضي ستة ايام او سبعة ايام في علم الله، ثم اغتسلي، فإذا رايت انك قد طهرت واستنقات، فصلي اربعا وعشرين ليلة او ثلاثا وعشرين ليلة وايامها وصومي وصلي، فإن ذلك يجزئك، وكذلك فافعلي كما تحيض النساء وكما يطهرن لميقات حيضهن وطهرهن، فإن قويت على ان تؤخري الظهر وتعجلي العصر، ثم تغتسلين حين تطهرين وتصلين الظهر والعصر جميعا، ثم تؤخرين المغرب وتعجلين العشاء، ثم تغتسلين وتجمعين بين الصلاتين، فافعلي وتغتسلين مع الصبح وتصلين، وكذلك فافعلي وصومي إن قويت على ذلك " , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وهو اعجب الامرين إلي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، ورواه عبيد الله بن عمرو الرقي , وابن جريج , وشريك، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، عن عمه عمران، عن امه حمنة، إلا ان ابن جريج يقول: عمر بن طلحة والصحيح: عمران بن طلحة، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: هو حديث حسن صحيح، وهكذا قال احمد بن حنبل: هو حديث حسن صحيح، وقال احمد , وإسحاق في المستحاضة: إذا كانت تعرف حيضها بإقبال الدم وإدباره، وإقباله ان يكون اسود، وإدباره ان يتغير إلى الصفرة، فالحكم لها على حديث فاطمة بنت ابي حبيش، وإن كانت المستحاضة لها ايام معروفة قبل ان تستحاض، فإنها تدع الصلاة ايام اقرائها، ثم تغتسل وتتوضا لكل صلاة وتصلي، وإذا استمر بها الدم ولم يكن لها ايام معروفة ولم تعرف الحيض بإقبال الدم وإدباره، فالحكم لها على حديث حمنة بنت جحش , وكذلك قال ابو عبيد، وقال الشافعي: المستحاضة إذا استمر بها الدم في اول ما رات فدامت على ذلك، فإنها تدع الصلاة ما بينها وبين خمسة عشر يوما، فإذا طهرت في خمسة عشر يوما او قبل ذلك، فإنها ايام حيض، فإذا رات الدم اكثر من خمسة عشر يوما، فإنها تقضي صلاة اربعة عشر يوما، ثم تدع الصلاة بعد ذلك، اقل ما تحيض النساء وهو يوم وليلة. قال ابو عيسى: واختلف اهل العلم في اقل الحيض واكثره، فقال بعض اهل العلم: اقل الحيض ثلاثة واكثره عشرة، وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة، وبه ياخذ ابن المبارك، وروي عنه خلاف هذا , وقال بعض اهل العلم منهم عطاء بن ابي رباح: اقل الحيض يوم وليلة، واكثره خمسة عشر يوما، وهو قول مالك، والاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وابي عبيد.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلَاةَ , قَالَ: " أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَتَلَجَّمِي " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَاتَّخِذِي ثَوْبًا " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ أَيَّهُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ " , فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ، فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، فَافْعَلِي وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَى ذَلِكَ " , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَهُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ , وَابْنُ جُرَيْجٍ , وَشَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ، إِلَّا أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ طَلْحَةَ وَالصَّحِيحُ: عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَهَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، وَإِقْبَالُهُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ، وَإِدْبَارُهُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَى الصُّفْرَةِ، فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، وَإِنْ كَانَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَتُصَلِّي، وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفْ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ , وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِذَا طَهُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ حَيْضٍ، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِنَّهَا تَقْضِي صَلَاةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ثُمَّ تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَهُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِهِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلَاثَةٌ وَأَكْثَرُهُ عَشَرَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَرُوِيَ عَنْهُ خِلَافُ هَذَا , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَأَكْثَرُهُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَأَبِي عُبَيْدٍ.
حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی تھی، میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اور آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی ہوں، اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس نے تو مجھے صوم و صلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہا ہوں اس سے خون بند ہو جائے گا، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا) آپ نے فرمایا: تو لنگوٹ باندھ لیا کرو، کہا: خون اس سے بھی زیادہ آ رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو، کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں تجھے دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے کافی ہو گا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو، آپ نے فرمایا: یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کر لے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہو گئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں، اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے پاک صاف ہو جا اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اگر تم قادر ہو تو اس طرح کرو اور روزے رکھو، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اور جانے کو جانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تو اس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے (حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کرے گی اور ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ اور جب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کا حکم حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۴؎ اسی طرح ابو عبید نے کہا ہے۔ شافعی کہتے ہیں: جب مستحاضہ کو پہلی بار جب اس نے خون دیکھا تبھی سے برابر خون جاری رہے تو وہ خون شروع ہونے سے لے کر پندرہ دن تک نماز چھوڑے رہے گی، پھر اگر وہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہو جاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے، تو وہ چودہ دن کی نماز قضاء کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی نماز چھوڑ دے گی،
۴- حیض کی کم سے کم مدت اور سب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 110 (287)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 115 (622)، (تحفة الأشراف: 15821)، مسند احمد (6/439)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (812) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: ان دونوں باتوں سے مراد: یا تو ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا یا ہر نماز کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بار نہانا۔
۲؎: یعنی روزانہ تین بار نہانا ایک بار ظہر اور عصر کے لیے، دوسری مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرے فجر کے لیے۔
۳؎: یعنی حیض کے اختتام پر مستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے گی۔
۴؎: یعنی ہر روز تین مرتبہ غسل کرے گی، پہلے غسل سے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھے گی اور دوسرے غسل سے مغرب اور عشاء کی اور تیسرے غسل سے فجر کی۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (627)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / د 287، جه 622، 627
   جامع الترمذي128حمنة بنت جحشأنعت لك الكرسف فإنه يذهب الدم قالت هو أكثر من ذلك قال فتلجمي قالت هو أكثر من ذلك قال فاتخذي ثوبا قالت هو أكثر من ذلك إنما أثج ثجا فقال النبي سآمرك بأمرين أيهما صنعت أجزأ عنك فإن قويت عليهما فأنت أعلم فقال إنما هي ركضة من ا
   سنن أبي داود287حمنة بنت جحشسآمرك بأمرين أيهما فعلت أجزأ عنك من الآخر وإن قويت عليهما فأنت أعلم قال لها إنما هذه ركضة من ركضات الشيطان فتحيضي ستة أيام أو سبعة أيام في علم الله ثم اغتسلي حتى إذا رأيت أنك قد طهرت واستنقأت فصلي ثلاثا وعشرين ليلة أو أربعا وعشرين ليلة وأيامها وصومي فإن
   سنن ابن ماجه627حمنة بنت جحشتلجمي وتحيضي في كل شهر في علم الله ستة أيام أو سبعة أيام ثم اغتسلي غسلا فصلي وصومي ثلاثة وعشرين أو أربعة وعشرين وأخري الظهر وقدمي العصر واغتسلي لهما غسلا وأخري المغرب وعجلي العشاء واغتسلي لهما غسلا وهذا أحب الأمرين إلي
   سنن ابن ماجه622حمنة بنت جحشأنعت لك الكرسف فإنه يذهب الدم
   بلوغ المرام119حمنة بنت جحشإنما هي ركضة من الشيطان فتحيضي ستة ايام او سبعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 119  
´استحاضہ کا حکم`
«. . . قال: ‏‏‏‏إنما هي ركضة من الشيطان فتحيضي ستة ايام او سبعة ايام ثم اغتسلي فإذا استنقات فصلي اربعة وعشرين او ثلاثة وعشرين وصومي وصلي . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو شیطان کی چوک (مار) ہے۔ لہٰذا تو چھ یا سات روز ایام شمار کر کے پھر نہا لے، جب تو اچھی طرح پاک و صاف ہو جائے تو پھر چوبیس یا تئیس روز نماز پڑھ اور روزہ بھی رکھ . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 119]

لغوی تشریح:
«أَسْتَفْتِيهِ» میں نے آپ سے فتویٰ پوچھا۔
«رَكْضَةٌ» چوک مارنا وغیرہ۔
«فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ» یہ اس بات کا اعلان ہے کہ کچھ عورتوں کو حیض چھ روز آتا ہے اور کچھ کو سات روز۔ اس سلسلے میں عورت کو اپنی ہم عمر اور ہم مزاج عورتوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
«فَإِذَا اسْتَنْقَأْتِ» جب تو پاک صاف ہو جائے۔
«صُومِي وَ صَلِّي» روزہ رکھ اور نماز پڑھ، فرضی ہو یا نفلی، جو جی میں آئے۔
«وَهُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ الأمرين» سے مراد ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا اور دن رات میں تین مرتبہ نہانا اور غسل کرنا ہے، یعنی میرے نزدیک پسندیدہ عمل شب و روز میں تین مرتبہ غسل کرنا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو دن رات میں تین مرتبہ غسل کرنے کا حکم دیا، ایک ظہر اور عصر کے لیے، دوسرا مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرا نماز فجر کے لیے۔
➋ اس سے پہلی حدیث میں فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو ہر نماز کے لیے وضو کا حکم دیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ استحاضے کے مرض میں مبتلا عورت پر غسل واجب نہیں ہے، البتہ ہر نماز کے لیے ازسر نو وضو ضرور فرض ہے۔ غسل بس مستحب ہے، وہ بھی صحت اور موسم اگر ساتھ دیں ورنہ چنداں ضرورت نہیں۔

راویٔ حدیث: (سیدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا) دونوں اسموں کے پہلے حرف پر فتحہ اور دوسرا ساکن ہے۔ یہ ام المؤمنین سیدنا زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھیں۔ پہلے یہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ غزوہ احد میں سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو یہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں آ گئیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 119   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 287  
´جب مستحاضہ کو حیض آ جائے تو وہ نماز چھوڑ دے۔`
حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے استحاضہ کا خون کثرت سے آتا تھا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ سے مسئلہ پوچھنے، اور آپ کو اس کی خبر دینے آئی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے گھر پایا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بہت زیادہ خون آتا ہے، اس سلسلے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ اس نے مجھے نماز اور روزے سے روک دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں (شرمگاہ پر) روئی رکھنے کا مشورہ دیتا ہوں، کیونکہ اس سے خون بند ہو جائے گا، حمنہ نے کہا: وہ اس سے بھی زیادہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لنگوٹ باندھ کر اس کے نیچے کپڑا رکھ لو، انہوں نے کہا: وہ اس سے بھی زیادہ ہے، بہت تیزی سے نکلتا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں، ان دونوں میں سے جس کو بھی تم اختیار کر لو وہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اگر تمہارے اندر دونوں پر عمل کرنے کی طاقت ہو تو تم اسے زیادہ جانتی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ تو شیطان کی لات ہے، لہٰذا تم (ہر ماہ) اپنے آپ کو چھ یا سات دن تک حائضہ سمجھو، پھر غسل کرو، اور جب تم اپنے آپ کو پاک و صاف سمجھ لو تو تیئس یا چوبیس روز نماز ادا کرو اور روزے رکھو، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور جس طرح عورتیں حیض و طہر کے اوقات میں کرتی ہیں اسی طرح ہر ماہ تم بھی کر لیا کرو، اور اگر تم ظہر کی نماز مؤخر کرنے اور عصر کی نماز جلدی پڑھنے پر قادر ہو تو غسل کر کے ظہر اور عصر کو جمع کر لو اور مغرب کو مؤخر کرو، اور عشاء میں جلدی کرو اور غسل کر کے دونوں نماز کو ایک ساتھ ادا کرو، اور ایک نماز فجر کے لیے غسل کر لیا کرو، تو اسی طرح کرو، اور روزہ رکھو، اگر تم اس پر قادر ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں باتوں میں سے یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عمرو بن ثابت نے ابن عقیل سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ حمنہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ دوسری بات مجھے زیادہ پسند ہے، انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ حمنہ رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمرو بن ثابت رافضی برا آدمی ہے، لیکن حدیث میں صدوق ہے- اور ثابت بن مقدام ثقہ آدمی ہیں- ۱؎، اس کا ذکر انہوں نے یحییٰ بن معین کے واسطے سے کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا: ابن عقیل کی حدیث کے بارے میں میرے دل میں بے اطمینانی ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 287]
287۔ اردو حاشیہ:
سنن ابی داود حدیث [286، 287] بھی سنداًً ضعیف ہیں۔ علامہ شوکانی السیل الجرار (ج: 1، ص: 149) میں کہتے ہیں: استحاضہ کے لیے غسل کے مسئلہ میں کئی احادیث آئی ہیں اور ا کثر سنن ابی داؤد میں ہیں، مگر حفاظ محدثین کی ایک جماعت نے انہیں بصراحت ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ اگر بربنائے قاعدہ احادیث بعض بعض کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہیں۔ انہیں صحیح بھی تسلیم کیا جائے تو صحیحین وغیرہ میں وارد صحیح ترین اور قوی ترین احادیث کا مقابلے میں ان کو پیش نہیں کیا جا سکتا۔ صحیحین کی روایات میں حیض کے ختم ہونے پر صرف ایک غسل کا حکم دیا ہے اور ضروری ہے کہ اس قسم کے پر مشقت حکم کے لیے ایسی دلیل ہو جو چمکتے سورج کی مانند رو شن ہو، کجا یہ کہ ضعیف اور ناقابل حجت روایات سے ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ (مترجم عرض کرتا ہے کہ استحباب و فضیلت میں تو شبہ نہیں ہے جیسے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے عمل سے ثابت ہے۔ مزید اگلے باب کی احادیث ملاحظہ ہوں۔)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 287   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث622  
´مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔`
ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے بہت لمبا استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سے متعلق بتانے اور فتوی پوچھنے کے لیے آئی، میں نے آپ کو اپنی بہن زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پایا، میں نے عرض کیا: اے رسول اللہ! مجھے آپ سے ایک کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خاتون! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا: مجھے ایک لمبے عرصہ تک خون آتا رہتا ہے جو نماز اور روزہ میں رکاوٹ کا سبب ہے، آپ اس سلسلے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 622]
اردو حاشہ:
روئی تجویز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ خون کی جگہ روئی رکھ کر اوپر سے کپڑا باندھ لے تاکہ خون اسی روئی میں جذب ہوتا رہے۔
اور دوسرے کپڑے بار بار خراب نہ ہوں اورتو اطمینان سے نماز وغیرہ ادا کرلے یہ حدیث اور آگے آنے والی حدیث 625 معناً صحیح ہیں کیونکہ دونوں صحیح روایات کے معنی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 622   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 128  
´مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کر سکتی ہے۔`
حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی تھی، میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اور آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی ہوں، اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس نے تو مجھے صوم و صلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہا ہوں اس سے خون بند ہو جائے گا، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 128]
اردو حاشہ:
1؎:
ان دونوں باتو ں سے مراد:
یا تو ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا یا ہر نماز کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بار نہانا۔

2؎:
یعنی روزانہ تین بار نہانا ایک بار ظہر اور عصر کے لیے،
دوسری مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرے فجرکے لیے۔

3؎:
یعنی حیض کے اختتام پر مستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہر نماز کے لیے وضوکرتی رہے گی۔

4؎:
یعنی ہر روز تین مرتبہ غسل کرے گی،
پہلے غسل سے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھے گی اور دوسرے غسل سے مغرب اور عشاء کی اور تیسرے غسل سے فجر کی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 128   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.