الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
5. باب مَا جَاءَ فِي الإِسْفَارِ بِالْفَجْرِ
5. باب: فجر اجالا ہو جانے پر پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 154
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هناد، حدثنا عبدة هو ابن سليمان، عن محمد بن إسحاق، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن رافع بن خديج، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اسفروا بالفجر، فإنه اعظم للاجر ". قال: وقد روى شعبة , والثوري هذا الحديث، عن محمد بن إسحاق، قال: ورواه محمد بن عجلان ايضا، عن عاصم بن عمر بن قتادة، قال: وفي الباب عن ابي برزة الاسلمي , وجابر , وبلال. قال ابو عيسى: حديث رافع بن خديج حسن صحيح، وقد راى غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين الإسفار بصلاة الفجر، وبه يقول سفيان الثوري، وقال الشافعي , واحمد , وإسحاق معنى الإسفار: ان يضح الفجر فلا يشك فيه، ولم يروا ان معنى الإسفار تاخير الصلاة.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ، فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ ". قَالَ: وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ , وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ , وَجَابِرٍ , وَبِلَالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق مَعْنَى الْإِسْفَارِ: أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَكَّ فِيهِ، وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَى الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: فجر خوب اجالا کر کے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوبرزہ اسلمی، جابر اور بلال رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے نماز فجر اجالا ہونے پر پڑھنے کی ہے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ «اسفار» اجالا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فجر واضح ہو جائے اور اس کے طلوع میں کوئی شک نہ رہے، «اسفار» کا یہ مطلب نہیں کہ نماز تاخیر (دیر) سے ادا کی جائے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 8 (424)، سنن النسائی/المواقیت 27 (549)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 2 (672)، (تحفة الأشراف: 3582)، مسند احمد (3/460) و (4/140)، سنن الدارمی/الصلاة 21 (1253) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نیز صحابہ و تابعین و سلف صالحین کے تعامل کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔ باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جو بہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی نماز منہ اندھیرے اول وقت میں شروع کرو، اور تطویل قرأت کے ساتھ اجالا کر لو، دونوں طرح کی احادیث پر عمل ہو جائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الأحوذی جلد اول ص ۱۴۵، طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان، پاکستان)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (672)
   سنن النسائى الصغرى549رافع بن خديجأسفروا بالفجر
   جامع الترمذي154رافع بن خديجأسفروا بالفجر فإنه أعظم للأجر
   سنن أبي داود424رافع بن خديجأصبحوا بالصبح فإنه أعظم لأجوركم أو أعظم للأجر
   سنن ابن ماجه672رافع بن خديجأصبحوا بالصبح فإنه أعظم للأجر أو لأجركم
   بلوغ المرام134رافع بن خديجاصبحوا بالصبح فإنه اعظم لاجوركم
   مسندالحميدي413رافع بن خديجأسفروا بصلاة الفجر فإن ذلك أعظم للأجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 134  
´نماز فجر میں قرأت لمبی کی جائے`
«. . . وعن رافع بن خديج رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اصبحوا بالصبح فإنه اعظم لاجوركم . . .»
. . . سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز فجر صبح کے خوب واضح ہونے پر پڑھا کرو۔ یہ تمہارے اجر میں اضافہ کا موجب ہو گی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 134]

لغوی تشریح:
«أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ» اور ایک دوسری روایت میں «أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ» کے الفاظ ہیں۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نماز فجر اس وقت پڑھو جب صبح خوب روشن اور واضح ہو جائے۔ مگر اس معنی کے اعتبار سے یہ حدیث غلس والی حدیث کے معارض ہو جاتی ہے، اس لیے اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ نماز کا آغاز تاریکی اور اندھیرے میں کیا جائے اور قرأت لمبی کی جائے حتی کہ صبح خوب روشن اور واضح ہو جائے، اس طرح دونوں روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ حافظ ابن قیم اور علامہ طحاوی رحمہما اللہ نے اسی کو ترجیح دی ہے مگر امام احمد اور امام شافعی رحمہما اللہ وغیرہ نے اسفار کا مفہوم یہ بتلایا ہے کہ فجر واضح ہونے میں کوئی شک نہ رہے۔ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ طلوع فجر کے تیقن کے بغیر فجر کی نماز پڑھنا صحیح نہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ احناف نے اس حدیث کو مدار استدلال بنا کر اسفاء کو افضل قرار دیا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی عمل، خلفائے راشدین، جمہور صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے عمل کی بنا پر یہ استدلال وزنی نہیں رہتا۔
➋ ابوداود میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک بار نماز فجر غلس (تاریکی) میں پڑھی اور ایک بار اسفار میں بھی پڑھی۔ بعد ازاں وفات تک ہمیشہ غلس ہی میں پڑھتے رہے۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب فى المواقيت، حديث: 394]
➌ اس حدیث سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ صبح واضح اور صاف طور پر معلوم ہونے لگے۔ کسی قسم کا شک باقی نہ رہے جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا ہے۔ یا پھر مراد لمبی قرأت کر کے روشن کرنا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 134   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 424  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح طلوع ہونے پر (ہی) صبح کی نماز پڑھا کرو۔ بلاشبہ یہ تمہارے لیے بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 424]
424۔ اردو حاشیہ:
کچھ لوگ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ سفیدی اور روشنی ہونے پر فجر کی نماز پڑھا کرو۔ مگر یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خیرالقرون میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول ثابت ہے کہ وہ سب فجر کی نماز «غلس» یعنی صبح کے اندھیرے ہی میں پڑھتے تھے۔ حضرت عمر، حضرت علی، اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم پر صبح کے اندھیرے ہی میں قاتلانہ حملے ہوئے تھے۔ نیز لغوی طور پر «أصبح الرجل» کا معنی ہے «دخل الصبح» یعنی صبح کے وقت میں داخل ہوا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس ارشاد کا پس منظر یہ ہے کہ شاید کچھ لوگ بہت زیادہ جلدی کرتے ہوئے قبل از وقت نماز پڑھ لیتے تھے، تو اس حکم سے ان کی اصلاح فرمائی گئی۔ اور اس مفہوم کی دوسری روایت «اسفروا بالصبح» بالمعنی روایت ہوئی ہے۔ اور ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ یہ ارشاد چاندنی راتوں سے متعلق ہے کیونکہ ان راتوں میں صبح صادق کے نمایاں ہونے میں قدرے اشتباہ سا ہوتا ہے۔ اور علامہ طحاوی رحمہ اللہ نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد ہے فجر کی نماز میں قرأت اتنی طویل کرو کہ فضا سفید ہو جائے۔ بہرحال افضل یہی ہے کہ فجر صادق کے بعد جلد ہی اسے ادا کیا جائے۔ اور اس کے بعد اس کا وقت طلوع آفتاب سے پہلے تک رہتا ہے۔ [عون المعبود۔ خطابي]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 424   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث672  
´نماز فجر کا وقت۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح کو اچھی طرح روشن کر لیا کرو، اس میں تم کو زیادہ ثواب ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 672]
اردو حاشہ:
 صبح کو روشن کرو کا یہ مطلب لینا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب خوب روشنی پھیل جائے (جیسا کہ احناف کے ہاں معمول ہے)
غلط ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ (غلس)
اندھیرے میں، اول وقت میں فجر کی نماز پڑھتے رہے۔
اس لیے اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فجر کی نماز اس وقت ادا کی جائے جب صبح صادق طلوع ہوجانے کا یقین ہوجائے۔
صبح کاذب میں ادا نہ کی جائے یا پھر یہ مطلب ہے کہ قرات طویل کرو تاکہ نماز سے فارغ ہوتو صبح روشنی ہوچکی ہو کیونکہ گزشتہ احادیث سے اوّل وقت پڑھنے کی فضیلت ظاہر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 672   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 154  
´فجر اجالا ہو جانے پر پڑھنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے سنا: فجر خوب اجالا کر کے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 154]
اردو حاشہ:
1؎:
نبی اکرم ﷺ نیز صحابہ و تابعین و سلف صالحین کے تعامل کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔
باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جو بہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی نماز منہ اندھیرے اوّل وقت میں شروع کرو،
اور تطویل قرأت کے ساتھ اُجالا کرلو،
دونوں طرح کی احادیث پر عمل ہو جائے گا۔
(مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الأحوذی جلداوّل ص145،
طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان،
پاکستان)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 154   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.