الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا رافع بن حدیج انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 413
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
413 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا محمد بن عجلان، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن رافع بن خديج ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: «اسفروا بصلاة الفجر فإن ذلك اعظم للاجر» او قال «لاجوركم» 413 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَسْفِرُوا بِصَلَاةِ الْفَجْرِ فَإِنَّ ذَلِكَ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ» أَوْ قَالَ «لِأُجُورِكُمْ»
413- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: فجر کی نماز روشن کرکے پڑھو، کیونکہ یہ زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تہارے لئے زیادہ اجر کا باعث ہے۔


تخریج الحدیث: «‏‏‏‏إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1489، 1490،1491، والنسائي فى «المجتبى» ، برقم: 547، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 1542،1543، وأبو داود فى «سننه» برقم: 424، والترمذي فى «جامعه» ‏‏‏‏ برقم: 154، والدارمي فى «مسنده» ، برقم: 1253، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 672، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2185، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 16061، والطيالسي فى «مسنده» ، برقم: 1001،1003»

   سنن النسائى الصغرى549رافع بن خديجأسفروا بالفجر
   جامع الترمذي154رافع بن خديجأسفروا بالفجر فإنه أعظم للأجر
   سنن أبي داود424رافع بن خديجأصبحوا بالصبح فإنه أعظم لأجوركم أو أعظم للأجر
   سنن ابن ماجه672رافع بن خديجأصبحوا بالصبح فإنه أعظم للأجر أو لأجركم
   بلوغ المرام134رافع بن خديجاصبحوا بالصبح فإنه اعظم لاجوركم
   مسندالحميدي413رافع بن خديجأسفروا بصلاة الفجر فإن ذلك أعظم للأجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:413  
413- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: فجر کی نماز روشن کرکے پڑھو، کیونکہ یہ زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تہارے لئے زیادہ اجر کا باعث ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:413]
فائدہ:
اس حدیث کا معنی ہے کہ نماز فجر پڑھنے میں جلدی نہ کرو بلکہ جب اس کا وقت ہو جائے تب ادا کی جائے۔ مولانا داود راز رحمہ اللہ لکھتے ہیں امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فورا بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کا فی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازختم ہو جایا کرتی تھی۔ لفظ «غسلس» کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اول وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تا کہ اس نماز کا بھی اول وقت غلس اور آخر وقت اسفار معلوم ہو جائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اند ھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔ جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔
«عـن ابــى مسـعـود الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلوة الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخرى فاسفربها ثم كانت صلوته بعد ذالك التخليس حتى مات ولم يعدالى ان يسفر» [رواه ابوداؤد ورجاله فى سنن ابي داؤد رجال الصحيح]
یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھائی اور پھر ایک مرتبہ اسفار (یعنی اجالے) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔
حدیث عائشہ کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
´´والحديث يدل على استحباب المبادرة بصلوة الفجر فى اول الوقت وقد اختلف العلماء فى ذلك فذهب العترة ومالك والشافعي و أحمد واسحاق وابوثور والاوزاعي وداؤد بن على و ابوجعفر الطبرى وهو المروى عن عمروبن عثمان وابن الزبير وانس وابى موسى وابى هريرة الى ان التغليس افضل وان الاسفار غير مندوب وحكى هذا القول الحازمي عن بقية الخلفاء الاربعة وابن مسعود وابي مسعود الانصاري واهل الحجاز واحتجوا بالاحاديث المذكورة فى هذا الباب وغيرها ولتصريح ابي مسعود فى الحديث بانها كانت صلوة النبى على التغليس حتى مات ولم يعد الى الاسفار`` [نيل، ج2، ص: 19]
خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اور خلفائے اربعہ اور اکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، أحمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اور دیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اور سارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: «عن مغيث بن سمى قال صليت مع عبدالله بن الزبير الصبح بغلس فلما سلم اقبلت على ابــن عــمــر فقلت ما هذه الصلوة قال هذه صلوتنا كانت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر فلما طعن عمر اسفربها عثمان» ‏‏‏‏ [و اسناده صحيح تحفة الاحوذى ج 1 ص: 144 66]
یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیرے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں سیدنا عبد اللہ بن عمر بن رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگر جب سیدنا عمر علی رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیا گیا تو احتیاطاً سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔
اس سے بھی ظاہر ہوا کہ نماز فجر کا بہترین وقت غلس یعنی اندھیرے ہی میں پڑھنا ہے۔ حنفیہ کے ہاں اس کے لیے اسفار یعنی اجالے میں پڑھنا بہتر مانا گیا ہے۔ مگر دلائل واضحہ کی بنا پر یہ خیال درست نہیں۔ حنفیہ کی دلیل رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول مذکور ہے کہ «اســفــروا بالفجر فانه اعظم للاجر» یعنی صبح کی نماز اجالے میں پڑھو اس کا ثواب زیادہ ہے۔
اس روایت کا یہ مطلب درست نہیں کہ سورج نکلنے کے قریب ہونے پر یہ نماز ادا کرو جیسا کہ آج کل حنفیہ کا عمل ہے۔ اس کا صحیح مطلب وہ ہے جو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ چنانچہ امام صاحب فرماتے ہیں:
´´وقال الشـافـعى واحـمـد و اسـحـاق مـعـنى الاسفار ان يضح الفجر فلايشك فيه ولم يروا ان معنى الاسفار تاخير الصلوۃ ``
یعنی امام شافعی رحمہ اللہ و أحمد و اسحاق فرماتے ہیں کہ یہاں اسفار کا مطلب یہ ہے کہ فجر خوب واضح ہو جائے کہ کسی کو شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے، اور یہ معنی نہیں کہ نماز کو تاخیر کر کے پڑھا جائے (جیسا کہ حنیفہ کا عام معمول ہے) بہت سے ائمہ دین نے اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ نماز فجر کو اندھیرے میں غلس میں شروع کیا جائے اور قرٱت اس قدر طویل پڑھی جائے کہ سلام پھیرنے کے وقت خوب اجالا ہو جائے۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید امام محد رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ [تفهيم البخاري پارو3 ص: 3]
سیدنا علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں بھی یہی تفصیل بیان کی ہے۔
یادر کھنے کی باتیں: یہ که یہ اختلاف مذکور محض اولیت و افضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہر شخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اور آخر وقت طلوع شمس ہے اور درمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام و خواص برادران پر جو پھر بھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتی کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اول وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناء پر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اور ایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔
خود اکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہا ہے۔ بہرحال دائل قومیہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پرلڑنا، جھگڑنا اور اسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عاملوں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اول وقت میں پڑھا کرو۔ [شرح صحيح بخاري از مولانا داود راز شرح حديث: 578]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 413   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.