الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
1. باب مَا جَاءَ فِي حُرْمَةِ مَكَّة
1. باب: مکہ کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 809
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي شريح العدوي، انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح سمعته اذناي ووعاه قلبي وابصرته عيناي حين تكلم به انه حمد الله واثنى عليه، ثم قال: " إن مكة حرمها الله ولم يحرمها الناس، ولا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك فيها دما او يعضد بها شجرة، فإن احد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، فقولوا له: إن الله اذن لرسوله صلى الله عليه وسلم ولم ياذن لك، وإنما اذن لي فيه ساعة من النهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس وليبلغ الشاهد الغائب ". فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو؟ قال: انا اعلم منك بذلك يا ابا شريح إن الحرم لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم ولا فارا بخربة. قال ابو عيسى: ويروى ولا فارا بخزية، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابي شريح حديث حسن صحيح، وابو شريح الخزاعي اسمه خويلد بن عمرو وهو العدوي وهو الكعبي، ومعنى قوله: ولا فارا بخربة يعني الجناية، يقول: من جنى جناية او اصاب دما ثم لجا إلى الحرم، فإنه يقام عليه الحد.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكَ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهِ سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ". فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ بِذَلِكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى وَلَا فَارًّا بِخِزْيَةٍ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ الْعَدَوِيُّ وَهُوَ الْكَعْبِيُّ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ، يَقُولُ: مَنْ جَنَى جِنَايَةً أَوْ أَصَابَ دَمًا ثُمَّ لَجَأَ إِلَى الْحَرَمِ، فَإِنَّهُ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں، ابوشریح سے پوچھا گیا: اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا؟ کہا: اس نے مجھ سے کہا: ابوشریح! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان (یعنی باغی) کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوشریح رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں،
۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے، ۵- اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 37 (104)، وجزاء الصید 8 (1832)، والمغازي 51 (4295)، صحیح مسلم/الحج 82 (1354)، سنن النسائی/الحج 111 (2879)، (تحفة الأشراف: 12057)، مسند احمد (4/31)، ویأتي عند المؤلف في الدیات (برقم: 1406)، و مسند احمد (6/385) من غیر ہذا الطریق (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ۵ھ یا ۶ھ میں ہوئی اور بعض نے ۹ھ یا ۱۰ھ کہا ہے، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔
۲؎: عمرو بن سعید: یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   صحيح البخاري4295خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري104خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري1832خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح مسلم3304خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   جامع الترمذي809خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   سنن النسائى الصغرى2879خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104  
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]

تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔

چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی  انا للہ وانا الیہ راجعون۔  حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809  
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ؁ یا 6ھ؁میں ہوئی اور بعض نے 9ھ؁ یا 10ھ؁کہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔

2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 809   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.