الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
17. باب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الأَمَانَةِ
17. باب: امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2179
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن زيد بن وهب، عن حذيفة بن اليمان، حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين قد رايت احدهما، وانا انتظر الآخر، حدثنا: ان " الامانة نزلت في جذر قلوب الرجال، ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن، وعلموا من السنة "، ثم حدثنا عن رفع الامانة، فقال: " ينام الرجل النومة، فتقبض الامانة من قلبه فيظل اثرها مثل الوكت، ثم ينام نومة، فتقبض الامانة من قلبه، فيظل اثرها مثل اثر المجل كجمر دحرجته على رجلك، فنفطت، فتراه منتبرا وليس فيه شيء، ثم اخذ حصاة فدحرجها على رجله، قال: فيصبح الناس يتبايعون لا يكاد احدهم يؤدي الامانة حتى يقال: إن في بني فلان رجلا امينا، وحتى يقال للرجل: ما اجلده واظرفه واعقله، وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان، قال: ولقد اتى علي زمان، وما ابالي ايكم بايعت فيه لئن كان مسلما ليردنه علي دينه، ولئن كان يهوديا او نصرانيا ليردنه علي ساعيه، فاما اليوم فما كنت لابايع منكم إلا فلانا وفلانا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَيْنِ قَدْ رَأَيْتُ أَحَدَهُمَا، وَأَنَا أَنْتَظِرُ الْآخَرَ، حَدَّثَنَا: أَنَّ " الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِي جَذْرِ قُلُوبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْآنُ فَعَلِمُوا مِنَ الْقُرْآنِ، وَعَلِمُوا مِنَ السُّنَّةِ "، ثُمَّ حَدَّثَنَا عَنْ رَفْعِ الْأَمَانَةِ، فَقَالَ: " يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ نَوْمَةً، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْمَجْلِ كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلَى رِجْلِكَ، فَنَفَطَتْ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا وَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ، ثُمَّ أَخَذَ حَصَاةً فَدَحْرَجَهَا عَلَى رِجْلِهِ، قَالَ: فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُونَ لَا يَكَادُ أَحَدُهُمْ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ حَتَّى يُقَالَ: إِنَّ فِي بَنِي فُلَانٍ رَجُلًا أَمِينًا، وَحَتَّى يُقَالَ لِلرَّجُلِ: مَا أَجْلَدَهُ وَأَظْرَفَهُ وَأَعْقَلَهُ، وَمَا فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، قَالَ: وَلَقَدْ أَتَى عَلَيَّ زَمَانٌ، وَمَا أُبَالِي أَيُّكُمْ بَايَعْتُ فِيهِ لَئِنْ كَانَ مُسْلِمًا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ دِينُهُ، وَلَئِنْ كَانَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا لَيَرُدَّنَّهُ عَلَيَّ سَاعِيهِ، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَمَا كُنْتُ لِأُبَايِعَ مِنْكُمْ إِلَّا فُلَانًا وَفُلَانًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر جب دوسری بار سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا اثر کھال موٹا ہونے کی طرح رہ جائے گا ۳؎، جیسے تم اپنے پاؤں پر چنگاری پھیرو تو آبلہ (پھپھولا) پڑ جاتا ہے، تم اسے پھولا ہوا پاتے ہو حالانکہ اس میں کچھ نہیں ہوتا، پھر حذیفہ رضی الله عنہ ایک کنکری لے کر اپنے پاؤں پر پھیرنے لگے اور فرمایا: لوگ اس طرح ہو جائیں گے کہ خرید و فروخت کریں گے لیکن ان میں کوئی امانت دار نہ ہو گا، یہاں تک کہ کہا جائے گا: فلاں قبیلہ میں ایک امانت دار آدمی ہے، اور کسی آدمی کی تعریف میں یہ کہا جائے گا: کتنا مضبوط شخص ہے! کتنا ہوشیار اور عقلمند ہے! حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہ ہو گا، حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میرے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ خرید و فروخت میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا تھا، اگر میرا فریق مسلمان ہوتا تو اس کی دینداری میرا حق لوٹا دیتی اور اگر یہودی یا نصرانی ہوتا تو اس کا سردار میرا حق لوٹا دیتا، جہاں تک آج کی بات ہے تو میں تم میں سے صرف فلاں اور فلاں سے خرید و فروخت کرتا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 35 (6497)، والفتن 13 (7086)، والإعتصام 3 (7276)، صحیح مسلم/الإیمان 64 (143) (تحفة الأشراف: 3328) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کا ظہور ہو چکا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی، اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی تشریح و تفسیر خود قرآن سے اور پھر سنت و حدیث نبوی سے سمجھنی چاہیئے، اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہے رضی الله عنہم اجمعین چوتھے درجہ میں تابعین و تبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (۲۱۵۶) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔
۳؎: یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہو جاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہو گا، گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہٰ کے برابر رہ گئی تھی، کیونکہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   صحيح البخاري7086حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة فتقبض فيبقى فيها أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه ش
   صحيح البخاري7276حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت من السماء في جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فقرءوا القرآن وعلموا من السنة
   صحيح البخاري6497حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم علموا من القرآن ثم علموا من السنة وحدثنا عن رفعها قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر الوكت ثم ينام النومة فتقبض فيبقى أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منتبرا وليس فيه شيء فيصبح
   صحيح مسلم367حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ثم حدثنا عن رفع الأمانة قال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتر
   جامع الترمذي2179حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ثم نزل القرآن فعلموا من القرآن وعلموا من السنة ثم حدثنا عن رفع الأمانة فقال ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل الوكت ثم ينام نومة فتقبض الأمانة من قلبه فيظل أثرها مثل أثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفطت
   سنن ابن ماجه4053حذيفة بن حسيلالأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فعلمنا من القرآن وعلمنا من السنة ثم حدثنا عن رفعها فقال ينام الرجل النومة فترفع الأمانة من قلبه فيظل أثرها كأثر الكوكب وينام النومة فتنزع الأمانة من قلبه فيظل أثرها كأثر المجل كجمر دحرجته على رجلك فنفط فتراه منت
   مسندالحميدي451حذيفة بن حسيلأن الأمانة نزلت في جذر قلوب الرجال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6497  
´آخر زمانہ میں دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا`
«. . . قَالَ: يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ، فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ . . .»
. . . فرمایا کہ آدمی ایک نیند سوئے گا اور (اسی میں) امانت اس کے دل سے ختم ہو گی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6497]

لغوی توضیح:
«جَذْر» اصل۔
«الْوكْت» کالا نقطہ۔
«الْمَجْل» چھالا، جو ہاتھ وغیرہ پر زیادہ کام کی وجہ سے نکل آتا ہے۔
«نَفِطَ» بڑا ہونا، بلند ہونا۔
«مُنْتَبراً» پھولا ہوا، بلند۔

فہم الحديث:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی آج ہمیں من و عن مکمل نظر آتی ہے کہ ہر طرف بےایمانی اور بد دیانتی کا بازار گرم ہے، جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی عام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں امانت و دیانت بالکل ختم ہو چکی ہے بلکہ امانت دار آج بھی موجود ہیں مگر آٹے میں نمک کے برابر، اکثریت بےایمانوں کی ہی ہے۔ «العياذ بالله»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 87   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4053  
´امانت کے ختم ہو جانے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک تو میں نے دیکھ لی ۱؎ اور دوسری کا منتظر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان فرمایا: امانت آدمیوں کے دلوں کی جڑ میں اتری (پیدا ہوئی)، (طنافسی نے کہا: یعنی آدمیوں کے دلوں کے بیچ میں اتری) اور قرآن کریم نازل ہوا، تو ہم نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی ۲؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت کے اٹھ جانے کے متعلق ہم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی رات کو سوئے گا تو امانت اس کے دل سے اٹھا لی جائے گی، (اور جب وہ صبح ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4053]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دیانت داری مسلمان کے کردار کی ایک اہم صفت ہے۔

(2)
سوتے ہوئے دل سے دیانت داری کا وصف ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں یہ صفت بہت تیزی سے معدوم ہوتی چلی جائے گی حتی کہ جو شخص پہلے دیانت دار تھا ایک ہی وقت میں وہی بددیانت بن جائے گا۔

(3)
آبلےسے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آبلہ پھولا ہوا ہونے کی وجہ سے بظاہر اہمیت کا حامل نظر آتاہے۔
حالانکہ وہ اندر سے خالی ہوتا ہے۔
اسی طرح لوگ بظاہر نیک ہوں گے لیکن ان کے دل نیکی خالی ہوں گے۔

(4)
غیر اسلامی معاشرے میں دھوکا فریب ایک خوبی سمجھا جاتا اور اس کی تعریف کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کو ایسے نہیں ہونا چاہیے۔

(5)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب قابل اعتماد افراد بہت کم رہ گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4053   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2179  
´امانت کے اٹھا لیے جانے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، جن میں سے ایک کی حقیقت تو میں نے دیکھ لی ۱؎، اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: امانت لوگوں کے دلوں کے جڑ میں اتری پھر قرآن کریم اترا اور لوگوں نے قرآن سے اس کی اہمیت قرآن سے جانی اور سنت رسول سے اس کی اہمیت جانی ۲؎، پھر آپ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا: آدمی (رات کو) سوئے گا اور اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی (اور جب وہ صبح کو اٹھے گا) تو اس کا تھوڑا سا اثر ایک نقطہٰ کی طرح دل میں رہ جائے گا، پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2179]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا ظہور ہوچکا ہے اور قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس امانت سے متعلق لوگوں کے دلوں میں مزید پختگی پیدا ہوئی،
اور اس سے متعلق ایمانداری اور بڑھ گئی ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہواکہ قرآن کی تشریح وتفسیرخود قرآن سے اورپھرسنت وحدیث نبوی سے سمجھنی چاہئے،
اسی طرح قرآن کے سمجھنے میں تیسرا درجہ فہم صحابہ ہےچوتھے درجہ میں تابعین وتبع تابعین ہیں جیسا کہ پیچھے حدیث (2156) سے بھی اس کا معنی واضح ہوتا ہے۔

3؎:
یعنی جس طرح جسم پر نکلے ہوئے پھوڑے کی کھال اس کے اچھا ہونے کے وقت موٹی ہوجاتی ہے اسی طرح امانت کا حال ہوگا،
گویا اس امانت کا درجہ اس امانت سے کہیں کم تر ہے جو ایک نقطہ کے برابر رہ گئی تھی،
کیوں کہ یہاں صرف نشان باقی رہ گیا ہے
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2179   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.