الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
12. بَابُ ذِكْرِ الْجِنِّ وَثَوَابِهِمْ وَعِقَابِهِمْ:
12. باب: جنوں کا بیان اور ان کو ثواب اور عذاب کا ہونا۔
(12) Chapter. The mention of Jinn, their reward and retribution.
حدیث نمبر: Q3296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقوله يا معشر الجن والإنس الم ياتكم رسل منكم يقصون عليكم آياتي إلى قوله عما يعملون سورة الانعام آية 130، بخسا سورة الجن آية 13 نقصا، قال مجاهد وجعلوا بينه وبين الجنة نسبا سورة الصافات آية 158 قال كفار قريش الملائكة بنات الله وامهاتهن بنات سروات الجن قال الله ولقد علمت الجنة إنهم لمحضرون سورة الصافات آية 158 ستحضر للحساب جند محضرون سورة يس آية 75 عند الحساب.لِقَوْلِهِ يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي إِلَى قَوْلِهِ عَمَّا يَعْمَلُونَ سورة الأنعام آية 130، بَخْسًا سورة الجن آية 13 نَقْصًا، قَالَ مُجَاهِدٌ وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًا سورة الصافات آية 158 قَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ الْمَلَائِكَةُ بَنَاتُ اللَّهِ وَأُمَّهَاتُهُنَّ بَنَاتُ سَرَوَاتِ الْجِنِّ قَالَ اللَّهُ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ إِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ سورة الصافات آية 158 سَتُحْضَرُ لِلْحِسَابِ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ سورة يس آية 75 عِنْدَ الْحِسَابِ.
‏‏‏‏ کیوں کہ اللہ نے (سورۃ الانعام میں) فرمایا «يا معشر الجن والإنس ألم يأتكم رسل منكم يقصون عليكم آياتي‏» اے جنوں اور آدمیو! کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں سے رسول نہیں آئے؟ جو میری آیتیں تم کو سناتے رہے۔ آخر تک۔ (قرآن مجید میں سورۃ الجن میں) «بخسا» بمعنی نقصان کے ہے۔ مجاہد نے کہا سورۃ الصافات میں جو یہ ہے کہ کافروں نے پروردگار اور جنات میں ناتا ٹھہرایا ہے، قریش کہا کرتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں سردار جنوں کی بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، جن جانتے ہیں کہ ان کافروں کو حساب کتاب دینے کے لیے حاضر ہونا پڑے گا (سورۃ یسین میں جو یہ ہے) «جند محضرون» یعنی حساب کے وقت حاضر کئے جائیں گے۔

حدیث نمبر: 3296
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا قتيبة، عن مالك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي صعصعة الانصاري، عن ابيه، انه اخبره، ان ابا سعيد الخدري رضي الله عنه، قال له:" إني اراك تحب الغنم والبادية فإذا كنت في غنمك وباديتك فاذنت بالصلاة فارفع صوتك بالنداء، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن، ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة"، قال: ابو سعيد سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لَهُ:" إِنِّي أَرَاك تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ وَبَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ، وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ: أَبُو سَعِيدٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری نے اور انہیں ان کے والد نے خبر دی کہ ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تم کو جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے۔ اس لیے جب کبھی اپنی بکریوں کے ساتھ تم کسی بیابان میں موجود ہو اور (وقت ہونے پر) نماز کے لیے اذان دو تو اذان دیتے ہوئے اپنی آواز خوب بلند کرو، کیونکہ مؤذن کی آواز اذان کو جہاں تک بھی کوئی انسان، جن یا کوئی چیز بھی سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔

Narrated `Abdur-Rahman bin `Abdullah bin `Abdur-Rahman bin Abi Sasaa Ansari: That Abu Sa`id Al-Khudri said to his father. "I see you are fond of sheep and the desert, so when you want to pronounce the Adhan, raise your voice with it for whoever will hear the Adhan whether a human being, or a Jinn, or anything else, will bear witness, in favor on the Day of Resurrection." Abu Sa`id added, "I have heard this from Allah's Apostle ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 517

   صحيح البخاري7548سعد بن مالكلا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة
   صحيح البخاري3296سعد بن مالكلا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة
   سنن النسائى الصغرى645سعد بن مالكلا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة
   سنن ابن ماجه723سعد بن مالكلا يسمعه جن ولا إنس ولا شجر ولا حجر إلا شهد له
   مسندالحميدي749سعد بن مالكلا يسمعه إنس، ولا جن، ولا حجر، ولا شجر، ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 645  
´اذان میں آواز بلند کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن صعصعہ انصاری مازنی روایت کرتے ہیں کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور صحراء کو محبوب رکھتے ہو، تو جب تم اپنی بکریوں میں یا اپنے جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو اپنی آواز بلند کرو کیونکہ مؤذن کی آواز جو بھی جن و انس یا کوئی اور چیز ۱؎ سنے گی تو وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 645]
645 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا آدمی اکیلا ہو اور بستی سے باہر ہو، تب بھی اذان کہے کہ یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے، نیز ممکن ہے وہاں قریب کوئی اور چرواہا یا مسافر ہو تو وہ بھی مل جائے گا اور نماز باجماعت پڑھی جائے گی اور اگر وہاں کوئی بھی موجود نہ ہو تو اس کے پیچھے دیگر مخلوقات، یعنی فرشتے وغیرہ نماز ادا کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے، [فائده حديث: 668]
➋ اذان، تلبیہ اور تکبیر، یعنی جس میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان ہو، جس قدر بھی بلند آواز سے ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔ اذان تو ویسے بھی لوگوں کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے ہے، اس لیے ہر ممکن حد تک بلند آواز سے ہونی چاہیے تاکہ دور دور تک اطلاع ہو سکے، نیز قیامت کے دن تمام چیزیں اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیں گی، مؤذن کو اور کیا چاہیے!
➌ جن بھی بنی آدم کی آواز سنتے ہیں۔
➍ مخلوق بھی ایک دوسرے کے حق میں گواہی دے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 645   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث723  
´اذان کی فضیلت اور مؤذن کے ثواب کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابوصعصعہ (جو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے) کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: جب تم صحراء میں ہو تو اذان میں اپنی آواز بلند کرو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اذان کو جنات، انسان، درخت اور پتھر جو بھی سنیں گے وہ قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 723]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
جہاں انسان اکیلا ہو اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے ارادے سے اذان کہہ کر نماز پڑھے اس کا ثواب گزشتہ احادیث میں بیان ہوچکا ہے۔
ایسے موقع پر یہ خیال ہوسکتا ہے کہ اذان کی آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی انسان تو سننے والا موجود نہیں جو اذان سن کر نماز باجماعت میں شریک ہونے کے لیے آ جائے۔
لیکن زیر مطالعہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بھی اذان بلند آواز سے ہی کہنا مستحب ہے۔

(2)
بے جان چیزیں بھی ایک قسم کا شعور رکھتی ہیں۔
اگرچہ ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔

(3)
قیامت اور آخرت کے حالات اس دنیا کے قوانین سے مختلف ہیں۔
وہاں بے جان چیزیں بھی انسان کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دیں گی بلکہ خود انسان کے اعضاء بھی اس کے خلاف گواہ بن جائیں گے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎﴾ (النور: 24/24)
جس دن ان کے خلاف ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعما ل كي گواہی دینگے۔
اسی طرح مؤذن کے حق میں شجر وحجر گواہی دینگے۔

(4)
اللہ کے ہاں مؤذن کی شان بہت بلند ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اذان نماز باجماعت کا ذریعہ ہے یعنی بڑی نیکی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض چھوٹی نیکیوں کی قدر وقیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے، ان نیکیوں کو بھی معمولی سمجھ کر ان سے بے پروائی نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 723   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3296  
3296. حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3296]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہٰذا میں مؤذن کی اذان کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔
اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا اور یہ بھی کہ جن قیامت کے دن بعض انسانوں کے اعمال خیر مثل اذان پر اللہ کے ہاں اس بندے کے حق میں خیر کی گواہی دیں گے۔
جنوں کا ذکر آنے سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3296   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3296  
3296. حضرت عبداللہ بن عبدالرحمان بن ابو صعصعہ انصاری سے روایت ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓنے ان سےکہا: میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تمھیں جنگل میں رہ کر بکریاں چرانا بہت پسند ہے، اسلیے جب کبھی تم اپنی بکریوں کے ساتھ جنگل میں ہوا کرو تو نمازکے لیے اذان کہہ لیاکرو۔ اور اذان دیتے وقت اپنی آواز کو خوب بلندکیا کرو کیونکہ موذن کی آواز کو جو بھی انسان، جن یا اور کوئی چیز سنے گی تو قیامت کے دن اس کے لیے گواہی دے گی۔ حضرت ابو سعید ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3296]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں مؤذن کی آواز کو جنوں کے بھی سننے کا ذکر ہے۔
اس سے جنوں کا وجود ثابت ہوا۔
پھر اس حدیث میں ان کی گواہی کاذکر ہے اورگواہی اچھے عمل کی دی جاتی ہے۔
اورگواہی بھی وہ دیتا ہے جو قابل اعتماد ہو۔
اس سے ان کے اچھے ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ شیطان کے متعلق تو پہلے ذکر ہواہے کہ وہ اذان کی آواز سن کر پادتا ہوا بھاگ جاتاہے۔

بہرحال اس حدیث سے ان کے وجود اور ان کے اچھے ہونے کاذکر ملتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے کہ جنوں نے کہا:
﴿وَأَنَّا مِنَّا الصَّالِحُونَ وَمِنَّا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ كُنَّا طَرَائِقَ قِدَدًا﴾ ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور کچھ اس سے کم درجہ کے ہیں اور ہم مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
(الجن 14/72، 15)
اس آیت کریمہ سے بھی ان کے ثواب عقاب کا پتہ چلتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3296   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.