الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
22M. بَابُ: {وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا} فَسَمَّاهُمُ الْمُؤْمِنِينَ:
22M. باب: ”اور اگر ایمان والوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو“ ان کا نام مومن رکھا ہے۔
(22b ) Chapter. "And if two parties (or groups) from among the believers fall to fighting then make peace between them both …"
حدیث نمبر: 31
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا شعبة، عن واصل الاحدب، عن المعرور، قال: لقيت ابا ذر بالربذة وعليه حلة وعلى غلامه حلة، فسالته عن ذلك، فقال: إني ساببت رجلا فعيرته بامه، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم: يا ابا ذر،" اعيرته بامه، إنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم خولكم جعلهم الله تحت ايديكم، فمن كان اخوه تحت يده فليطعمه مما ياكل وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فاعينوهم".حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنْ الْمَعْرُورِ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ،" أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے اسے واصل احدب سے، انہوں نے معرور سے، کہا میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ (یاد رکھو) ماتحت لوگ تمہارے بھائی ہیں۔ اللہ نے (اپنی کسی مصلحت کی بنا پر) انہیں تمہارے قبضے میں دے رکھا ہے تو جس کے ماتحت اس کا کوئی بھائی ہو تو اس کو بھی وہی کھلائے جو آپ کھاتا ہے اور وہی کپڑا اسے پہنائے جو آپ پہنتا ہے اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔

Narrated Al-Ahnaf bin Qais: While I was going to help this man ('Ali Ibn Abi Talib), Abu Bakra met me and asked, "Where are you going?" I replied, "I am going to help that person." He said, "Go back for I have heard Allah's Apostle saying, 'When two Muslims fight (meet) each other with their swords, both the murderer as well as the murdered will go to the Hell-fire.' I said, 'O Allah's Apostle! It is all right for the murderer but what about the murdered one?' Allah's Apostle replied, "He surely had the intention to kill his companion."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 31

   صحيح البخاري31جندب بن عبد اللهمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
   صحيح البخاري2545جندب بن عبد اللهإخوانكم خولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم ما يغلبهم فأعينوهم
   صحيح مسلم4313جندب بن عبد اللهيا أبا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية قلت يا رسول الله من سب الرجال سبوا أباه وأمه قال يا أبا ذر إنك امرؤ فيك جاهلية هم إخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فأطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
   صحيح مسلم4315جندب بن عبد اللهإنك امرؤ فيك جاهلية إخوانكم وخولكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يديه فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم عليه
   جامع الترمذي1945جندب بن عبد اللهإخوانكم جعلهم الله فتية تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يده فليطعمه من طعامه وليلبسه من لباسه ولا يكلفه ما يغلبه فإن كلفه ما يغلبه فليعنه
   سنن أبي داود5157جندب بن عبد اللهإخوانكم فضلكم الله عليهم فمن لم يلائمكم فبيعوه ولا تعذبوا خلق الله
   سنن أبي داود5158جندب بن عبد اللهإخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فمن كان أخوه تحت يديه فليطعمه مما يأكل وليكسه مما يلبس ولا يكلفه ما يغلبه فإن كلفه ما يغلبه فليعنه
   سنن أبي داود5161جندب بن عبد اللهمن لاءمكم من مملوكيكم فأطعموه مما تأكلون واكسوه مما تلبسون ومن لم يلائمكم منهم فبيعوه ولا تعذبوا خلق الله
   سنن ابن ماجه3690جندب بن عبد اللهإخوانكم جعلهم الله تحت أيديكم فأطعموهم مما تأكلون وألبسوهم مما تلبسون ولا تكلفوهم ما يغلبهم فإن كلفتموهم فأعينوهم
   مسندالحميدي328جندب بن عبد اللهيخرج من ثقيف كذاب ومبير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 31  
´معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا`
«. . . قَالَ: لَقِيتُ أَبَا ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ وَعَلَى غُلَامِهِ حُلَّةٌ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: إِنِّي سَابَبْتُ رَجُلًا فَعَيَّرْتُهُ بِأُمِّهِ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ،" أَعَيَّرْتَهُ بِأُمِّهِ، إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ . . .»
. . . میں ابوذر سے ربذہ میں ملا وہ ایک جوڑا پہنے ہوئے تھے اور ان کا غلام بھی جوڑا پہنے ہوئے تھا۔ میں نے اس کا سبب دریافت کیا تو کہنے لگے کہ میں نے ایک شخص یعنی غلام کو برا بھلا کہا تھا اور اس کی ماں کی غیرت دلائی (یعنی گالی دی) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معلوم کر کے مجھ سے فرمایا اے ابوذر! تو نے اسے ماں کے نام سے غیرت دلائی، بیشک تجھ میں ابھی کچھ زمانہ جاہلیت کا اثر باقی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 31]

تشریح:
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔ ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔ بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔ جس شخص کو انہوں نے عار دلائی تھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے اور ان کو انہوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔ جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔ یہ سن کر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔ اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔ مٹی سے نہ اٹھوں گا۔

«حله» دو چادروں کو کہتے ہیں۔ جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔ ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ پس معتزلہ و خوارج کا مذہب باطل ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کر کرے تو اس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ حدود الٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشاد باری ہے: «وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ» [البقرة: 229] جو شخص حدود الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقیناً ظالم ہیں۔ شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ جس نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا اللہ نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرود قرار دیا۔ پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 31   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 31  
31. حضرت معرور بیان کرتے ہیں کہ میں ربذه (جگہ) میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملا، دیکھا تو انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو بایں طور گالی دی کہ اسے ماں کی عار دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: تو نے اسے اس کی ماں سے عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:31]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوذر غفاری ؓ قدیم الاسلام ہیں بہت ہی بڑے زاہد عابد تھے۔
ربذہ مدینہ سے تین منازل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے، وہاں ان کا قیام تھا۔
بخاری شریف میں ان سے چودہ احادیث مروی ہیں۔
جس شخص کو انھوں نے عاردلائی تھی وہ حضرت بلال ؓ تھے اور ان کو انھوں نے ان کی والدہ کے سیاہ فام ہونے کا طعنہ دیا تھا۔
جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ابوذر ابھی تم میں جاہلیت کا فخر باقی رہ گیا۔
یہ سن کر حضرت ابوذرؓ اپنے رخسار کے بل خاک پر لیٹ گئے۔
اور کہنے لگے کہ جب تک بلال میرے رخسار پر اپنا قدم نہ رکھیں گے۔
مٹی سے نہ اٹھوں گا۔
حلہ دو چادروں کو کہتے ہیں۔
جو ایک تہمد کی جگہ اور دوسری بالائی حصہ جسم پر استعمال ہو۔
حضرت امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ حضرت ابوذر ؓ کو آپ نے تنبیہ فرمائی لیکن ایمان سے خارج نہیں بتلایا۔
ثابت ہوا کہ معصیت بڑی ہو یا چھوٹی محض اس کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں ہوتا۔
پس معتزلہ وخوارج کا مذہب باطل ہے۔
ہاں اگر کوئی شخص معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے حلال جان کرکرے تواس کے کفر میں کوئی شک بھی نہیں ہے کیونکہ یہ حدودِالٰہی کا توڑنا ہے، جس کے لیے ارشادِ باری ہے:
﴿وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ﴾ (البقرة: 229)
جو شخص حدودِ الٰہی کو توڑے وہ لوگ یقیناً ظالم ہیں۔
شیطان کو اس ذیل میں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
جس نے خدا کی نافرمانی کی اور اس پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنے لگا خدا نے اسی کی وجہ سے اسے مردود و مطرود قرار دیا۔
پس گنہگاروں کے بارے میں اس فرق کا ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 31   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3690  
´غلاموں کے ساتھ احسان (اچھے برتاؤ) کرنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حقیقت میں لونڈی اور غلام) تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کیا ہے، اس لیے جو تم کھاتے ہو وہ انہیں بھی کھلاؤ، اور جو تم پہنتے ہو وہ انہیں بھی پہناؤ، اور انہیں ایسے کام کی تکلیف نہ دو جو ان کی قوت و طاقت سے باہر ہو، اور اگر کبھی ایسا کام ان پر ڈالو تو تم بھی اس میں شریک رہ کر ان کی مدد کرو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3690]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اسلام میں غلام بنانا ممنوع نہیں تاہم غلام کے حقوق اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ آزاد انسان کے بہت قریب ہو جاتا ہےاس کے علاوہ غلام کو آزاد کرنے کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔

(2)
بہت سی صورتوں میں غلام کوآزاد کرنا مسلمانوں کے لیے یا خود غلام کے لیے تکلیف یا نقصان کا باعث ہو سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذينَ يَبتَغونَ الكِتابَ مِمّا مَلَكَت أَيمانُكُم فَكاتِبوهُم إِن عَلِمتُم فيهِم خَيرً‌ا﴾  (النور، 24: 33)
اور تمہارے جو لونڈی غلام مکاتبت (آزادی کا معاہدہ)
کرنا چاہیں تو ان سے آزادی کا معاہدہ کر لو اگر تمہیں ان کے اندر بھلائی معلوم ہو۔
اس لیے غیر مسلم یا بری عادتوں میں مبتلا غلام کو آزاد کرنے کی بجائے غلام ہی رکھنے میں اس کا اور معاشرے کا فائدہ ہے۔

(3)
غلام کے انسانی حقوق کا خیال رکھنا مالک کا فرض ہے۔

(4)
غلام کے لیے مناسب غذا، مناسب لباس اور رہائش مہیا کرنا آقا کی ذمہ داری ہے، اس کے عوض وہ آقا کی خدمت کرے گا اور روز مرہ معاملات میں اس سے تعاون کرے گا۔

(5)
اگر غلام کے ذمے ایسا کام لگایا جائے جو وہ اکیلا انجام نہ دے سکتا ہو تو مالک کا فرض ہے کہ خود اس کے ساتھ مل کر کام کرے یا اسے مدد کار غلام نہیں تاہم وہ حالات کی وجہ سے مالک کی سختی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
ان کے حقوق غلاموں سے زیادہ ہیں۔
ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام لینا کم آرام کا موقع دینا ان کی عزت نفس مجروح کرنا اور تخواہ دینے میں بلاوجہ تاخیر کرنا یہ سب کام حرام ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3690   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5157  
´غلام اور لونڈی کے حقوق کا بیان۔`
معرور بن سوید کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر کو ربذہ (مدینہ کے قریب ایک گاؤں) میں دیکھا وہ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور ان کے غلام کے بھی (جسم پر) اسی جیسی چادر تھی، معرور بن سوید کہتے ہیں: تو لوگوں نے کہا: ابوذر! اگر تم وہ (چادر) لے لیتے جو غلام کے جسم پر ہے اور اپنی چادر سے ملا لیتے تو پورا جوڑا بن جاتا اور غلام کو اس چادر کے بدلے کوئی اور کپڑا پہننے کو دے دیتے (تو زیادہ اچھا ہوتا) اس پر ابوذر نے کہا: میں نے ایک شخص کو گالی دی تھی، اس کی ماں عجمی تھی، میں نے اس کی ماں کے غیر عربی ہونے کا اسے طعنہ دیا، اس نے میری شکایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5157]
فوائد ومسائل:

اس میں حضرت ابو ذر کی فضیلت کا بیان ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت کو ازحد پلے باندھ لیا تھا۔


کسی کو اس کے حسب نسب کا طعنہ دینا جاہلیت کی علامت ہے۔


جس مسلمان بھائی کے ساتھ نفسیاتی مناسبت نہ ہو تو اس کے ساتھ بلاوجہ الجھنا کسی طرح معقول نہیں، چاہیے کہ آدمی کسی اور سے معاملہ استوار کرلے۔


اللہ کی مخلوق انسان ہو یا حیوان اس کو بلاوجہ عذاب دینا ناجائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5157   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:31  
31. حضرت معرور بیان کرتے ہیں کہ میں ربذه (جگہ) میں حضرت ابوذر غفاری ؓ سے ملا، دیکھا تو انہوں نے اور ان کے غلام نے ایک جیسا جوڑا زیب تن کیا ہوا ہے۔ میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو بایں طور گالی دی کہ اسے ماں کی عار دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے (یہ سن کر) فرمایا: تو نے اسے اس کی ماں سے عار دلائی ہے؟ ابھی تک تجھ میں جاہلیت کا اثر باقی ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے تصرف میں رکھا ہے، چنانچہ جس شخص کا بھائی اس کے قبضے میں ہو، اسے چاہیئے کہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسے وہی لباس پہنچائے جو وہ خود پہنتا ہے۔ اور ان سے وہ کام نہ لو جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر ایسے کام کی انہیں زحمت دو تو خود بھی ان کا ہاتھ بٹاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:31]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف اتنا کہا تھا کہ اے سیاہ فام عورت کے بیٹے! حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عمررسیدگی کے باوجود اس کی سنگینی کا علم نہ تھا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطور تعجب فرمایا:
اے ابو ذر! عمر کے اس دور میں بھی تیرے اندر اس قسم کی جاہلانہ عادات باقی ہیں؟ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6050)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خصلت شرعاً کس قدر مذموم ہے۔
(فتح الباري: 1؍ 118)
ہمارےمعاشرے میں اس قسم کی بات گالی تو شمار ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف مذاق کی ایک قسم سمجھی جاتی ہے جبکہ شریعت نے اسے دور جاہلیت کی یادگارسے تعبیر فرمایا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد معاصی امور جاہلیت سے ہیں۔
کو ثابت کرنا ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنبیہ فرمائی کہ ابو ذر! تیرے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے لیکن اسے ایمان سے خارج نہیں بتلایا اور نہ اسے تجدید ایمان ہی کے لیے کہا۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں مساوات کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ماتحت لوگوں کے ساتھ مساوات کی تلقین کی گئی ہے، جس سے ماتحتوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کی فضیلت کا اثبات ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 31   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.