قال نافع بن جبير: عن ابي هريرة , عانق النبي صلى الله عليه وسلم الحسن.قَالَ نَافِعُ بْنُ جُبَيْرٍ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَانَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ.
اور نافع بن جبیر نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگایا۔
حدثنا صدقة، حدثنا ابن عيينة، حدثنا ابو موسى، عن الحسن، سمع ابا بكرة، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة، ويقول:" ابني هذا سيد ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين".حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، عَنْ الْحَسَنِ، سَمِعَ أَبَا بَكْرَةَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ إِلَى جَنْبِهِ يَنْظُرُ إِلَى النَّاسِ مَرَّةً وَإِلَيْهِ مَرَّةً، وَيَقُولُ:" ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
ہم سے صدقہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا، ان سے حسن نے، انہوں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔
Narrated Abu Bakra: I heard the Prophet talking at the pulpit while Al-Hasan was sitting beside him, and he (i.e. the Prophet ) was once looking at the people and at another time Al-Hasan, and saying, "This son of mine is a Saiyid (i.e. chief) and perhaps Allah will bring about an agreement between two sects of the Muslims through him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 89
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3773
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان` ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کار نامہ ہے (جَزَاہُ اللہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3773
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4662
´فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔“ حماد کی روایت میں ہے: ”شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4662]
فوائد ومسائل: 1: حضرت علی رضی اللہ کے دور میں سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی بنا پر ہر مسلمان دو گرہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک طرف علی رضی اللہ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ اور دونوں ہی اپنی اپنی ترجیحات میں بر حق تھے، تاہم سیدنا علی رضی اللہ کا موقف اقرب الی الحق تھا۔
2: سیدنا حسن رضی اللہ نے اپنی خلافت سے دست بردارہو کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی وجہ سے ان کے شرف سیادت میں اور اضافہ ہو گیا۔ مگر کچھ لوگوں کو اب تک ان کا یہ عمل ناپسند ہے۔
3: رسول ؐ نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اپنی امت کے مسلمان قراردیا ہے اورکسی کو بھی گمراہ یا باطل نہیں فرمایا۔
4: صحابہ کرام یا پھر فقہا ءوائمہ کی اجتہادی غلطیوں کی اشاعت کرنا بہت بڑا اور برا فتنہ ہے، صرف خاص محدود علمی حلقہ میں ان کے مسائل کی علمی تفہیم جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4662
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3746
3746. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ جبکہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کو دیکھتے دوسری مرتبہ حضرت حسن ؓ کی طرف نظر کرکے فرماتے: ”میرا یہ بیٹا(سردار)ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے باعث مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3746]
حدیث حاشیہ: حضرت حسن ؓ کے متعلق پیش گوئی حضرت امیر معاویہ ؓ کے زمانہ میں پوری ہوئی جب کہ حضرت حسن ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی صلح سے جنگ کا ایک بڑا خطرہ ٹل گیا، اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کرلیتے ہیں مگر فتنہ فساد نہیں چاہتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3746
3746. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا۔ جبکہ حضرت حسن ؓ آپ کے پہلو میں تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کو دیکھتے دوسری مرتبہ حضرت حسن ؓ کی طرف نظر کرکے فرماتے: ”میرا یہ بیٹا(سردار)ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے باعث مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3746]
حدیث حاشیہ: حضرت حسن ؓ کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں پوری ہوئی۔ حضرت حسن ؓ کے ہمراہ تقریباً چالیس ہزار فدائی تھے۔ اسی طرح حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ بھی بہت بڑا لشکر تھا۔ حضرت حسن ؓ نے قلت یا ذلت کی وجہ سے نہیں بلکہ محض امت پر شفقت کرتے ہوئے ملک اور دنیا کو چھوڑدیا اور حکومت حضرت معاویہ ؓ کے حوالے کردی۔ اس صلح عظیم سے ایک جنگ عظیم کا خطرہ ٹل گیا۔ اللہ والوں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہ خود نقصان برداشت کر لیتے ہیں مگر فتنہ و فساد برپا نہیں کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3746