الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
13. بَابٌ في كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي الثِّيَابِ:
13. باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟
(13) Chapter. In how many (what sort of) clothes a woman should offer Salat (prayer).
حدیث نمبر: Q372
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال عكرمة: لو وارت جسدها في ثوب لاجزته.وَقَالَ عِكْرِمَةُ: لَوْ وَارَتْ جَسَدَهَا فِي ثَوْبٍ لَأَجَزْتُهُ.
‏‏‏‏ اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔

حدیث نمبر: 372
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة، ان عائشة، قالت:" لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الفجر فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات في مروطهن، ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن احد".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْفَجْرَ فَيَشْهَدُ مَعَهُ نِسَاءٌ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ فِي مُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ مَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں، پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں، اس وقت انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔

Narrated `Aisha: Allah's Apostle used to offer the Fajr prayer and some believing women covered with their veiling sheets used to attend the Fajr prayer with him and then they would return to their homes unrecognized .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 368

   صحيح البخاري867عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح البخاري872عائشة بنت عبد اللهيصلي الصبح بغلس فينصرفن نساء المؤمنين لا يعرفن من الغلس أو لا يعرف بعضهن بعضا
   صحيح البخاري372عائشة بنت عبد اللهيصلي الفجر فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات في مروطهن ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن أحد
   صحيح البخاري578عائشة بنت عبد اللهنساء المؤمنات يشهدن مع رسول الله صلاة الفجر متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة لا يعرفهن أحد من الغلس
   صحيح مسلم1459عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   صحيح مسلم1457عائشة بنت عبد اللهنساء المؤمنات كن يصلين الصبح مع النبي ثم يرجعن متلفعات بمروطهن لا يعرفهن أحد
   صحيح مسلم1458عائشة بنت عبد اللهنساء من المؤمنات يشهدن الفجر مع رسول الله متلفعات بمروطهن ثم ينقلبن إلى بيوتهن وما يعرفن من تغليس رسول الله بالصلاة
   جامع الترمذي153عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء
   سنن أبي داود423عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى546عائشة بنت عبد اللهليصلي الصبح فينصرف النساء متلفعات بمروطهن ما يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى1363عائشة بنت عبد اللهالنساء يصلين مع رسول الله الفجر فكان إذا سلم انصرفن متلفعات بمروطهن فلا يعرفن من الغلس
   سنن النسائى الصغرى547عائشة بنت عبد اللهيصلين مع رسول الله الصبح متلفعات بمروطهن فيرجعن فما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميدي174عائشة بنت عبد اللهكن نساء من المؤمنات يصلين مع النبي صلى الله عليه وسلم الصبح وهن متلفعات بمروطهن ثم يرجعن إلى أهليهن وما يعرفهن أحد من الغلس
   مسندالحميدي175عائشة بنت عبد اللهكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني، وإلا اضطجع حتى يقوم إلى الصلاة
   مسندالحميدي176عائشة بنت عبد الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 546  
´حضر (حالت اقامت) میں فجر اندھیرے میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھتے تھے (آپ کے ساتھ نماز پڑھ کر) عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی لوٹتی تھیں، تو وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 546]
546 ۔ اردو حاشیہ:
➊رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز عمومی طور پر اندھیرے میں شروع فرماتے اور اندھیرے ہی میں مکمل فرما لیتے، لہٰذا جب عورتیں پردے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی چال ڈھال کا اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ انہیں پہچانا جا سکے۔
➋عورتوں کی پہچان عموماً چال ڈھال سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ پردے میں رہتی ہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ چادروں کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں، غلط ہے۔ اگر یہ وجہ ہو تو پھر وہ دوپہر کو بھی نہ پہچانی جائیں کیونکہ چادر میں تو اس وقت بھی ہوں گی۔ دراصل وجہ اندھیرا ہی ہے، اس لیے بھی کہ اس روایت میں صراحتاً یہی علت بیان کی گئی ہے۔
➌عورتیں کسی بھی نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں۔ بعض حضرات کا رات اور دن کی نمازوں اور بوڑھی اور جوان عورت میں فرق کرنا بے دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 423  
´فجر کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز صبح (فجر) ادا فرماتے، پھر عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی واپس لوٹتیں تو اندھیرے کی وجہ سے وہ پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 423]
423۔ اردو حاشیہ:
➊ ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک اول وقت میں نماز ادا کرتے تھے کہ بعد از نماز بھی اندھیرا باقی ہوتا تھا اور دور سے معلوم نہ ہوتا تھا کہ کوئی عورت آ رہی ہے یا مرد؟ ورنہ پردہ دار خاتون کے پہچانے جانے کے کوئی معنی نہیں۔
➋ خلافت راشدہ کے دور میں بھی اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز غلس یعنی اندھیر ے میں پڑھا کرتے تھے۔
➌ عورتوں کو بھی نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہونے کی اجازت ہے اور وہ اندھیرے کے اوقات میں بھی نماز کے لیے آ سکتی ہیں مگر ان پر فرض ہے کہ شرعی آداب کے تحت اجازت لے کر آئیں، باپردہ ہو کر نکلیں، خوشبو لگا کر اور آواز دار زیور پہن کر نہ آئیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 423   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 372  
372. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھتے تو آپ کے ہمراہ کچھ خواتین اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں۔ پھر (فراغت کے بعد) وہ اپنے گھروں کو ایسے لوٹ جاتیں کہ انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:372]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر میں وہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتی تھیں۔
ثابت ہوا کہ ایک کپڑے سے اگر عورت اپنا سارا بدن چھپالے تونماز درست ہے۔
مقصود پردہ ہے وہ جس طور پر مکمل حاصل ہو صحیح ہے۔
کتنی ہی غریب عورتیں ہیں جن کوبہت مختصر کپڑے میسر ہوتے ہیں، اسلام میں ان سب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 372   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:372  
372. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھتے تو آپ کے ہمراہ کچھ خواتین اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں۔ پھر (فراغت کے بعد) وہ اپنے گھروں کو ایسے لوٹ جاتیں کہ انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:372]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ عورت اگر ایک ہی چادر میں اچھی طرح لپٹ کر نماز ادا کرے تو نماز درست ہے، کیونکہ اس حدیث میں صرف چادروں میں نماز پڑھنے کا ذکر ہے، ان کے ساتھ دوسرے کپڑوں کا ذکر نہیں ہوا ہے۔
چونکہ عورت کا پورا جسم چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ قابل ستر ہے، اس لیے عورتوں کے معاملے میں صحت نماز کا دارومدار کپڑوں کی گنتی پر نہیں بلکہ ستر پر ہے۔
اگر عورت سر سے پاؤں تک چادر لپیٹ لے تو نماز کے لیے کافی ہے۔
اگرچہ آئمہ کرام سے عورتوں کے لیے کپڑوں کی تعداد منقول ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے لیے نماز کی صحت کسی گنتی پر موقوف ہے۔
چونکہ عام حالات میں عورت کا جسم چھپانے کے لیے ایک سے زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے زیادہ کپڑوں کے استعمال کی ہدایت کی ہے، لیکن اگر ستر پوشی اور سارے جسم کو چھپانے کا مقصد ایک ہی کپڑے سے حاصل ہوجائے تو یہ بھی کافی ہے۔
چنانچہ امام ابن منذر ؒ نے جمہور کا قول کُرتے (قمیص)
اور دوپٹے میں وجوب صلاۃ کا نقل کر کے لکھا ہے کہ اس سے مراد بدن اور سر کا ضروری طور پر چھپانا ہے اگر ایک ہی کپڑا اتنا بڑا ہو جس سے سارا بدن اور اس کے باقی حصے سے سر بھی چھپ سکے تو نماز درست ہو جائے گی۔
اس کے بعد حضرت عطاء ؒ اور ابن سیرین ؒ کے اقوال جو عورت کی نماز کے لیے کپڑوں کی تعداد سے متعلق ہیں ان کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اقوال استحباب پر محمول ہیں۔
(فتح الباري: 625/1)

عورتیں جب نماز سے فراغت کے بعد گھروں کو جاتیں تو پتہ نہ چلتا کہ کون سی عورت ہے؟ البتہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ عورت ہے مرد نہیں۔
عدم معرفت کی وجہ رات کا اندھیرا ہوتا یا ان کا خود کو چھپانا اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی تھی۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 578)
علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھنے کی تھی، کبھی کبھار کسی ہنگامی صورت کے پیش نظر آپ نے صبح کی روشنی میں ادا کی ہے۔
نیز اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت مسلم خواتین رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتی تھیں۔
چنانچہ عورتوں کا مردوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔
(إعلام الحدیث: 355/1)

امام بخاری ؒ کے استدلال پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ عورتیں چادر کو برقع کے طور پر استعمال کرتی تھیں، یہ مطلب نہیں کہ اس کے علاوہ جسم پر کوئی کپڑا نہیں ہوتا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ استدلال کی بنیاد حدیث کا ظاہری مفہوم ہے۔
چونکہ دیگر کپڑوں کا ذکر نہیں، اس لیے احتمال ہے کہ کوئی اور کپڑا نہ ہو، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کی تصریح نہیں کی، لیکن ان کی عادت ہے کہ اپنے اختیارات (موقف)
کو عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں۔
جیسا کہ انھوں نے حضرت عکرمہ ؒ کے حوالے سے اسے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 625/1)
اس کے علاوہ یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی غربت کا دور تھا اس لیے حالات کے پیش نظر ہو سکتا ہے کہ عورتوں کے پاس صرف ایک ہی چادر ہو۔
نوٹ:
صبح کی نماز اسفار میں ہو یا اندھیرے میں؟ اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
اس حدیث پر فوائد لکھنے کے بعد راقم نے اپنے گھر اس کا تذکرہ کیا کہ عورت صرف ایک چادر میں بھی نماز پڑھ سکتی ہے۔
بشرطیکہ اس نے اس سے اپنے جسم کو لپیٹ رکھا ہو کیونکہ صحابہ کے دور میں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، لہٰذا ممکن ہے کہ حالات کے پیش نظر اس وقت ایک ہی چادر ہو۔
اس پر اہلیہ نے تعلیق لگائی کہ آپ کا یہ کہنا محل نظر ہے، کیونکہ جب پردے سے متعلق سورۃ النور کی آیات نازل ہوئیں تو سب سے پہلے مہاجرین سابقین کی خواتین نے ان پر عمل کیا وہ اس طرح کہ انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنائے اور ان سے اپنے سراور سینے کو ڈھانپ لیا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4758)
اگر ان کے پاس چادروں کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے تو چادروں کو پھاڑنے کے بعد وہ کیا پہنتی تھیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خواتین اسلام کے پاس صرف چادریں ہی نہ تھیں بلکہ ان کے علاوہ اور لباس بھی تھا جسے وہ زیب تن کرتی تھیں لیکن مسئلہ اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ کسی عورت کے پاس صرف ایک چادر ہواور اسے اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کر جسم کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہوتو اس مین نماز جائز ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے اسے اس وقت کی خواتین کے لیے دیگر کپڑوں کی عدم دستیابی سے معلق نہ کیا جائے۔
واللہ أعلم۔
اللہ تعالیٰ اہلیہ کو اجر عظیم عطا فرمائے کہ انھوں نے اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 372   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.