الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انصار کے مناقب
The Merits of Al-Ansar
53. بَابُ إِسْلاَمُ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
53. باب: سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ۔
(53) Chapter. The conversion of Salman Al-Farisi to Islam.
حدیث نمبر: 3948
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثني الحسن بن مدرك , حدثنا يحيى بن حماد , اخبرنا ابو عوانة , عن عاصم الاحول , عن ابي عثمان , عن سلمان , قال:" فترة بين عيسى ومحمد صلى الله عليهما وسلم ست مائة سنة".حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ , أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ , عَنْ سَلْمَانَ , قَالَ:" فَتْرَةٌ بَيْنَ عِيسَى وَمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ سِتُّ مِائَةَ سَنَةٍ".
مجھ سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوعوانہ نے خبر دی، انہیں عاصم احول نے، انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں «فترة» کا زمانہ (یعنی جس میں کوئی پیغمبر نہیں آیا) چھ سو برس کا وقفہ گزرا ہے۔

Narrated Salman: The interval between Jesus and Muhammad was six hundred years.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 58, Number 284

   صحيح البخاري3948سلمان بن الإسلامفترة بين عيسى ومحمد ست مائة سنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3948  
3948. حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان زمانہ فترت چھ سو سال ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3948]
حدیث حاشیہ:
حضرت سلمان فارسی ؓ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی۔
ان کو خود رسول کریم ﷺ نے آزاد کرایا تھا۔
فارس کے شہر رام ہرمزکے رہنے والے تھے، دین حق کی طلب میں انہوں نے ترک وطن کیا اور پہلے عیسائی ہوئے۔
ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر قوم عرب نے ان کوگرفتار کر کے یہودیوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا یہاں تک کہ یہ مدینہ پہنچ گئے اور پہلی ہی صحبت میں دولت ایمان سے ما لا مال ہو گئے پھر انہوں نے اپنے یہودی مالک سے مکاتبت کرلی جس کی رقم آنحضرت ﷺ نے ادا فرمائی۔
مدینہ آنے تک یہ دس جگہ غلام بنا کر فروخت کئے گئے تھے۔
آنحضرت ﷺ ان سے بہت خوش تھے۔
آپ نے فرمایا کہ سلمان ہمارے اہل بیت سے ہیں، جنت ان کے قدموں کی منتظر ہے۔
اڑھائی سو سال کی عمر طویل پائی۔
اپنے ہاتھ سے روزی کماتے اور صدقہ خیرات بھی کرتے۔
35ھ میں شہر مدائن میں ان کا انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ (آمین)
حضرت سلمان فارسی ؓ کے مزید حالات:
آپ علاقہ اصفہان کے ایک دیہات کے ایک دیہاتی کسان کے اکلوتے فرزند تھے۔
باپ وفور محبت میں لڑکیوں کی طرح گھر ہی میں بند رکھتا تھا۔
آتش کدہ کی دیکھ بھال سپرد تھی۔
مجوسیت کے بڑے پختہ کار پجاری سے یکایک پختہ کار عیسائی بن گئے۔
اس طرح کہ ایک روز اتفاقاً کھیت کو گئے، اثنائے راہ میں عیسائیوں کو نماز پڑھتے دیکھ کر اس طرز عبادت پر والہانہ فریفتہ ہو گئے۔
باپ نے مقید کر دیا مگر آپ کسی طرح بھاگ کر عیسائیوں کے ساتھ شام کے ایک بشب کی خدمت میں پہنچ گئے جو بہت بد اخلاق تھا اور صدقہ کا تمام روپیہ لے کر خود رکھ لیتا تھا۔
زندگی میں تو کچھ کہہ نہ سکے جب وہ مرا اور عیسائی اسے شان و شوکت کے ساتھ دفن کر نے پر تیار ہوئے تو آپ نے اس کا سارا پول کھول کر رکھ دیا اور تصدیق کے طور پر سات مٹکے سونے چاندی سے لبریز دکھا دیئے اور سزا کے طور پر اس کی لاش صلیب پر آویزاں کردی گئی۔
دوسرا بشپ بہت متقی و عابد بھی تھا اور آپ سے محبت بھی رکھتا تھا مگر اسے جلد پیام موت آگیا۔
آپ کے استفسار پر فرمایا اب تو میرے علم میں کوئی عیسائی نہیں۔
جو تھے، مرچکے دین میں بہت کچھ تحریف ہوچکی، البتہ موصل میں ایک شخص ہے، اس کے پاس چلے جاؤ۔
اس کے پاس پہنچ کر کچھ ہی مدت رہنے پائے تھے کہ اس کا بھی وقت آگیا اور وہ نصیبا میں ایک پادری کا پتہ بتا گیا، یہ سب سے زیادہ عابد وزاہد تھا۔
عموریہ میں ایک شخص کا پتہ دے کر یہ بھی راہی ملک بقا ہوا لیکن جب اسقف عموریہ بھی جلد ہی بستر مرگ پردراز ہوا تو آپ افسردہ ہوئے۔
اسقف نے کہا بیٹا اب تو دنیا میں مجھے کوئی ایسا نظر نہیں آتا کہ میں تجھے جس کے پاس جانے کا مشورہ دوں۔
عنقریب ریگستان عرب سے پیغمبر آخر الزماں پیدا ہونے والے ہیں، جن کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی اور صدقہ اپنے اوپر حرام سمجھیں گے۔
آخر ی وصیت یہی ہے کہ ممکن ہوتو ان سے ضرور ملنا، ایک عرصہ تک آپ عموریہ میں ہی رہے، بکریاں چراتے پالتے اور اسی پر اپنا گزارہ کرتے رہے۔
ایک روز عرب تاجروں کے ایک قافلہ کو ادھر سے گزرتا دیکھ کر ان سے کہا کہ اگر تم مجھے عرب پہنچا دو تو میں اس کے صلہ میں اپنی سب بکریاں تمہاری نذر کردوں گا۔
انہوں نے وادی القریٰ پہنچتے ہی آپ کو غلام بناکر فروخت کردیا لیکن اس غلامی پر جو کسی کے آستان نازک تک رسائی کا ذریعہ بن جائے تو ہزاروں آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔
الغرض حضور ﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3948   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3948  
3948. حضرت سلمان ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد ﷺ کے درمیان زمانہ فترت چھ سو سال ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3948]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث کا مرکزی عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ مختلف آقاؤں کے غلام رہنے اور اپنے وطن مالوف سے ہجرت کرنے کے بعد مسلمان ہوئے۔
وہ فارس کے شہر رام ہرمز کے رہنے والے تھے۔
دین حق کی طلب میں انھوں نے وطن چھوڑا۔
پہلے عیسائی ہوئے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا، پھر قوم عرب نے انھیں گرفتار کرکے یہودیوں کے ہاں فروخت کردیا یہاں تک کہ وہ مدینہ طیبہ پہنچ گئے۔
رسول اللہ ﷺ سے پہلی مجلس میں دولتِ ایمان سے مالا مال ہوئے۔
انھوں نے اپنے یہودی آقا سے مکاتبت کی جس کی رقم خود رسول اللہ ﷺ نے ادا فرمائی۔
رسول اللہ ﷺ ان سے بہت خوش تھے۔
حضرت علی ؓ نے ان کے بارے میں فرمایا:
سلما ن فارسی ہمارے اہل بیت سے ہیں۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 148/12، و سلسلة الأحادیث الضعیفة: 179/8، رقم 3704)
انھوں نے بہت طویل عمر پائی۔
36ہجری کو مدائن میں فوت ہوئے۔

"فترت" کے معنی انقطاع ہیں۔
اصطلاحی طور پر اس سے وہ مدت مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول نہ آیا ہو۔
صحیح احادیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ اور حضرت عیسیٰ ؑ کا درمیانی عرصہ زمانہ فترت کہلاتا ہے جو بقول حضرت سلمان فارسی ؓ چھ سو سال ہے۔
عرب کے ہاں یہ طریقہ رائج ہے کہ کسر کو حذف کرکے پورا عدد ذکر کردیتے ہیں، جیسا کہ اس مقام پ ایسا ہوا ہے کیونکہ زمانہ فترت پانچ سوسال سے زیادہ اور چھ سوسال سےکم ہے۔
عرب میں کسر کوپورا کرنے یااسےحذف کردینے کا طریقہ جاری وساری ہے۔

حافظ ا بن حجر ؒ نے ان احادیث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؓ غلامی کی لمبی زندگی گزارنے کے بعد اور وطن سے ہجرت کرکے لمبی مدت تک حق کی تلاش میں رہے۔
بالآخر انھوں نے اس گوہر نایاب کوپالیا اور اسلام کی دولت سے شرف یاب ہوئے۔
رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3948   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.