الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
14. بَابُ حَدِيثِ بَنِي النَّضِيرِ:
14. باب: بنو نضیر کے یہودیوں کے واقعہ کا بیان۔
(14) Chapter. The story of Bani An-Nadir.
حدیث نمبر: 4032
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني إسحاق، اخبرنا حبان، اخبرنا جويرية بن اسماء، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما: ان النبي صلى الله عليه وسلم حرق نخل بني النضير، قال:" ولها يقول حسان بن ثابت: وهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير قال: فاجابه ابو سفيان بن الحارث ادام الله ذلك من صنيع وحرق في نواحيها السعير ستعلم اينا منها بنزه وتعلم اي ارضينا تضير.حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ، أَخْبَرَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، قَالَ:" وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ: وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ قَالَ: فَأَجَابَهُ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ.
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبر دی، انہیں جویریہ بن اسماء نے، انہیں نافع نے، انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے باغات جلوا دیئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسی کے متعلق یہ شعر کہا تھا (ترجمہ) بنو لوی (قریش) کے سرداروں نے بڑی آسانی کے ساتھ برداشت کر لیا۔ مقام بویرہ میں اس آگ کو جو پھیل رہی تھی۔ بیان کیا کہ پھر اس کا جواب ابوسفیان بن حارث نے ان اشعار میں دیا۔ خدا کرے کہ مدینہ میں ہمیشہ یوں ہی آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کون اس مقام بویرہ سے دور ہے اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کی زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔

Narrated Ibn `Umar: The Prophet burnt the date-palm trees of Bani An-Nadir. Hassan bin Thabit said the following poetic Verses about this event:-- "the terrible burning of Al-Buwaira Has been received indifferently By the nobles of Bani Luai (The masters and nobles of Quraish)." Abu Sufyan bin Al-Harith (i.e. the Prophet's cousin who was still a disbeliever then) replied to Hassan, saying in poetic verses:-- "May Allah bless that burning And set all its (i.e. Medina's) Parts on burning fire. You will see who is far from it (i.e. Al-Buwaira) And which of our lands will be Harmed by it (i.e. the burning of Al- Buwaira).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 366

   صحيح البخاري4031عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فنزلت ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله
   صحيح البخاري4032عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير
   صحيح البخاري2326عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة
   صحيح البخاري3021عبد الله بن عمرحرق النبي نخل بني النضير
   صحيح البخاري4884عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين
   صحيح مسلم4554عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير
   صحيح مسلم4553عبد الله بن عمرقطع نخل بني النضير وحرق
   صحيح مسلم4552عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة
   جامع الترمذي1552عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين
   جامع الترمذي3302عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين
   سنن أبي داود2615عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها
   سنن ابن ماجه2844عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع وهي البويرة فأنزل الله ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة
   سنن ابن ماجه2845عبد الله بن عمرحرق نخل بني النضير وقطع
   بلوغ المرام1098عبد الله بن عمرحرق رسول الله نخل بني النضير وقطع
   مسندالحميدي702عبد الله بن عمرأن النبي صلى الله عليه وسلم قطع في أموال بني النضير وحرق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844  
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔

(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2844   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1098  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1098»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ناگزیر جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلانا یا کٹوانا جائز ہے۔
مگر عام حالات میں بلا ضرورت انھیں کاٹنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552  
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔

2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1552   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615  
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2615   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4032  
4032. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو آگ لگائی تو اس کے متعلق حسان بن ثابت ؓ نے کہا: بنو لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ کر جل رہا ہے۔ ابو سفیان بن حارث نے یہ جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کرے مدینہ میں یوں آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلدی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری کس زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4032]
حدیث حاشیہ:
بویرہ بنو نضیر کے باغ کو کہتے تھے جو مدینہ کے قریب واقع تھا۔
بنی لوی قریش کے لوگوں کو کہتے ہیں۔
ان میں اور بنی نضیر میں عہد و پیمان تھا۔
حضرت حسان ؓ کا مطلب قریش کی ہجو کرنا ہے ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے اور وہ قریش ان کی کچھ مدد نہ کر سکے۔
جوابی اشعار میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو بد دعا دی۔
یعنی خدا کرے تمہارے شہر میں ہمیشہ چاروں طرف آگ جلتی رہے۔
ابو سفیان کی بد دعا مردود ہو گئی اور الحمد للہ مدینہ منورہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے۔
مولانا وحید الزماں نے ان اشعار کا اردو ترجمہ یوں منظوم کیا ہے۔
حضرت حسان کے شعر کا ترجمہ:
بنی لوی کے شریفوں پہ ہوگیا آساں لگی ہو آگ بویرہ میں سب طرف ویراں ابو سفیان بن حارث کے اشعار کا، ترجمہ:
خدا کرے کہ ہمیشہ رہے وہاں یہ حال مدینہ کے چاروں طرف رہے آتش سوزاں یہ جان لو گے تم اب عنقریب کون ہم میں رہے گا بچا کس کا ملک اٹھا ئے گا نقصان یہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو اور ان کے شہر مدینہ کوبد دعا دی تھی جو مردود ہوگئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4032   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4032  
4032. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو آگ لگائی تو اس کے متعلق حسان بن ثابت ؓ نے کہا: بنو لؤی (قریش) کے سردار یہ بات معمولی سمجھ کر برداشت کر رہے تھے کہ بویرہ کا باغ پوری طرح آگ کی لپیٹ میں آ کر جل رہا ہے۔ ابو سفیان بن حارث نے یہ جواب دیتے ہوئے کہا: اللہ کرے مدینہ میں یوں آگ لگتی رہے اور اس کے اطراف میں یوں ہی شعلے اٹھتے رہیں۔ تمہیں جلدی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری کس زمین کو نقصان پہنچتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4032]
حدیث حاشیہ:

بنولؤی قریش کے لوگوں کوکہتے ہیں۔
ان میں اور بنونضیر میں عہد وپیمان تھا۔
حضرت حسان ؓ انھیں عاردلاتے ہیں اور ان کی ہجو کرتے ہیں کہ وہ بنونضیر کی کوئی مدد نہ کرسکے۔
ان کے دوستوں کے باغ جلتے رہے وہاں کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔
ابوسفیان بن حارث اس وقت مسلمان نہ تھے۔
ان کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آگ کا پھیلنا ہمیں کوئی نقصان نہیں دے گا۔
کیونکہ ہماری ارض مکہ تو بہت دور ہے، البتہ اس آگ کا پھیلاؤ تمھیں نقصان دے گا کہ تمہارے گھر ہی اس آگ میں جلیں گے۔
ہمارے گھروں تک یہ آگ نہیں پہنچے گی۔
ابوسفیان کی یہ بددعا مردود ہوگئی کیونکہ مدینہ طیبہ آج بھی جنت کی فضا رکھتا ہے۔

بہرحال بنوقینقاع کی جلاوطنی کے بعد بنونضیر کو بھی مدینہ سے رسواکرکے نکالاگیا۔
رہے بنوقریظہ توان کا جو حشر ہوا اس کی تفصیل سورہ احزاب (آیت: 26)
میں بیان ہوئی ہے، جس کی تشریح ہم آئندہ کریں گے۔
ان شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4032   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.