الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4311
حدیث حاشیہ:
1۔
اس ہجرت سے مراد خاص ہجرت ہے جو فتح مکہ سے پہلے تھی خواہ حبشہ کی طرف ہویا مدینہ طیبہ کی طرف، فتح مکہ کے بعد جب مکہ مکرمہ دارالاسلام بن گیا تو اب یہاں سے ہجرت کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
2۔
حدیث کے الفاظ اگرچہ عام ہیں لیکن اس سے خاص ہجرت مراد ہے۔
ہاں اگر کوئی ایسا دارالحرب ہے جس میں شعائر اسلام کی صحیح طور پر ادائیگی نہیں ہوتی بلکہ ان پر عمل کرنے سے روکا جاتا ہو تو اس وقت وہاں سے ہجرت کرنا ضروری ہوگا۔
اگر شعائر اسلام کماحقہ ادانہ ہوتے ہوں اور اہل اسلام کو مجبورنہ کیا جاتا ہو تو ایسے حالات میں ہجرت مستحب ہے۔
بہرحال مذکورہ احادیث میں ہجرت مکہ مراد ہے مطلق ہجرت کی نفی نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4311