الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
87. سورة {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} :
87. باب: سورۃ الاعلی کی تفسیر۔
(87) SURAT AL-ALA (The Most High)
حدیث نمبر: Q4941
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال مجاهد: ذات الرجع: سحاب يرجع بالمطر، ذات الصدع: تتصدع بالنبات.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذَاتِ الرَّجْعِ: سَحَابٌ يَرْجِعُ بِالْمَطَرِ، ذَاتِ الصَّدْعِ: تَتَصَدَّعُ بِالنَّبَاتِ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «ذات الرجع‏»، «ابر» کی صفت ہے (تو «سماء» سے «ابر» مراد ہے) یعنی باربار برسنے والا۔ «ذات الصدع‏» باربار اگانے والی، پھوٹنے والی، یہ زمین کی صفت ہے۔

حدیث نمبر: 4941
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبدان، قال: اخبرني ابي، عن شعبة، عن ابي إسحاق، عن البراء رضي الله عنه، قال:" اول من قدم علينا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مصعب بن عمير وابن ام مكتوم، فجعلا يقرئاننا القرآن، ثم جاء عمار وبلال وسعد، ثم جاء عمر بن الخطاب في عشرين، ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم، فما رايت اهل المدينة، فرحوا بشيء فرحهم به حتى رايت الولائد والصبيان، يقولون: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاء، فما جاء حتى قرات سبح اسم ربك الاعلى سورة الاعلى آية 1 في سور مثلها".حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَجَعَلَا يُقْرِئَانِنَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَسَعْدٌ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَرِحُوا بِشَيْءٍ فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْوَلَائِدَ وَالصِّبْيَانَ، يَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ، فَمَا جَاءَ حَتَّى قَرَأْتُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1 فِي سُوَرٍ مِثْلِهَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مہاجر) صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما تھے۔ مدینہ پہنچ کر ان بزرگوں نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم آئے۔ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا، جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی «سبح اسم ربك الأعلى‏» اور اس جیسی اور سورتیں پڑھ لی تھیں۔

Narrated Al-Bara: The first of the companions of the Prophet who came to us (in Medina), were Mus`ab bin `Umar and Ibn Um Maktum, and they started teaching us the Qur'an. Then came `Ammar, Bilal and Sa`d. Afterwards `Umar bin Al-Kkattab came along with a batch of twenty (men): and after that the Prophet came. I never saw the people of Medina so pleased with anything as they were with his arrival, so that even the little boys and girls were saying, "This is Allah's Messenger who has come." He (the Prophet ) did not come (to Medina) till I had learnt Surat Al-Ala and also other similar Suras.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 465

   صحيح البخاري4941براء بن عازبأول من قدم علينا من أصحاب النبي مصعب بن عمير وابن أم مكتوم فجعلا يقرئاننا القرآن ثم جاء عمار وبلال وسعد ثم جاء عمر بن الخطاب في عشرين ثم جاء النبي فما رأيت أهل المدينة فرحوا بشيء فرحهم به حتى رأيت الولائد والصبيان يقولون هذا رسول الله قد جاء فما جاء حتى ق
   صحيح البخاري3925براء بن عازبأول من قدم علينا مصعب بن عمير وابن أم مكتوم وكانا يقرئان الناس فقدم بلال وسعد وعمار بن ياسر ثم قدم عمر بن الخطاب في عشرين من أصحاب النبي ثم قدم النبي فما رأيت أهل المدينة فرحوا بشيء فرحهم برسول الله حتى جعل الإماء يقلن قدم رسول الله فما قدم حتى قرأت سبح ا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4941  
4941. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے صحابہ کرام میں سب سے پہلے ہمارے پاس (مدینہ طیبہ میں) حضرت مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم ؓ تشریف لائے۔ ان بزرگوں نے مدینہ پہنچ کر ہمیں قرآن پڑھانا شروع کر دیا۔ اس کے بعد حضرت عمار، حضرت بلال اور حضرت سعد‬ ؓ ت‬شریف لائے۔ پھر حضرت عمر ؓ بیس صحابہ کرام کو اپنے ہمراہ لے کر آئے۔ آخر میں رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری ہوئی۔ میں نے کبھی اہل مدینہ کو اتنا خوش نہیں دیکھا جس قدر وہ آپ ﷺ کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے خوشی سے کہنے لگے تھے: یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں جو ہمارے ہاں تشریف لائے ہیں۔ میں نے آپ ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے ہی (سَبِّحِ ٱسْمَ رَبِّكَ ٱلْأَعْلَى) اور اس طرح کی دیگر سورتیں پڑھ لی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4941]
حدیث حاشیہ:

اس سورت کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے تسبیح کا حکم ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے۔
بلا شرکت غیرے مختار کل ہے کائنات کی تمام اشیاء پر اسے پورا پورا کنٹرول حاصل ہے، تسبیح کرنے سے مراد اللہ تعالیٰ کو مذکورہ صفات کے ساتھ یاد کرنا ہے۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس آیت کے مطابق تم سجدے میں (سبحان ربي الأعلی)
اور سورہ واقعہ کی آخری آیت کے مطابق رکوع میں (سبحان ربي العظيم)
پڑھا کرو۔
(مسند أحمد: 155/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4941   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.