الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
33. بَابُ زِيَادَةِ الإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ:
33. باب: ایمان کی کمی اور زیادتی کے بیان میں۔
(33) Chapter. Faith increases and decreases.
حدیث نمبر: 45
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا الحسن بن الصباح، سمع جعفر بن عون، حدثنا ابو العميس، اخبرنا قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن عمر بن الخطاب،" ان رجلا من اليهود، قال له: يا امير المؤمنين، آية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا، قال: اي آية؟ قال: اليوم اكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا سورة المائدة آية 3، قال عمر: قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي صلى الله عليه وسلم وهو قائم بعرفة يوم جمعة".حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، سَمِعَ جَعْفَرَ بْنَ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ، أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْيَهُودِ، قَالَ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، آيَةٌ فِي كِتَابِكُمْ تَقْرَءُونَهَا لَوْ عَلَيْنَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ نَزَلَتْ لَاتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا، قَالَ: أَيُّ آيَةٍ؟ قَالَ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ".
ہم سے اس حدیث کو حسن بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے جعفر بن عون سے سنا، وہ ابوالعمیس سے بیان کرتے ہیں، انہیں قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب کے واسطے سے خبر دی۔ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس (کے نزول کے) دن کو یوم عید بنا لیتے۔ آپ نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے جواب دیا (سورۃ المائدہ کی یہ آیت کہ) آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو (خوب) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے۔

Narrated 'Umar bin Al-Khattab: Once a Jew said to me, "O the chief of believers! There is a verse in your Holy Book Which is read by all of you (Muslims), and had it been revealed to us, we would have taken that day (on which it was revealed as a day of celebration." 'Umar bin Al-Khattab asked, "Which is that verse?" The Jew replied, "This day I have perfected your religion For you, completed My favor upon you, And have chosen for you Islam as your religion." (5:3) 'Umar replied,"No doubt, we know when and where this verse was revealed to the Prophet. It was Friday and the Prophet was standing at 'Arafat (i.e. the Day of Hajj)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 44

   صحيح البخاري45طارق بن شهابآية في كتابكم تقرءونها لو علينا معشر اليهود نزلت لاتخذنا ذلك اليوم عيدا قال أي آية قال اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا قال عمر قد عرفنا ذلك اليوم والمكان الذي نزلت فيه على النبي وهو قائم بعرفة يوم جمعة
   صحيح البخاري4407طارق بن شهابأعلم أي مكان أنزلت أنزلت ورسول الله واقف بعرفة
   صحيح البخاري4606طارق بن شهابأعلم حيث أنزلت وأين أنزلت وأين رسول الله حين أنزلت يوم عرفة وإنا والله بعرفة
   صحيح مسلم7527طارق بن شهابنزلت على رسول الله بعرفات في يوم جمعة
   صحيح مسلم7526طارق بن شهابأنزلت بعرفة ورسول الله واقف بعرفة اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
   صحيح مسلم7526طارق بن شهابنزلت ليلة جمع ونحن مع رسول الله بعرفات
   سنن النسائى الصغرى3005طارق بن شهابعلمت اليوم الذي أنزلت فيه والليلة التي أنزلت ليلة الجمعة ونحن مع رسول الله بعرفات

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 41  
´قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کرنا منع ہے`
«. . . 502- مالك عن يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن عمه واسع ابن حبان عن ابن عمر أنه كان يقول: إن ناسا يقولون: إذا قعدت على حاجتك فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس. قال عبد الله بن عمر: لقد ارتقيت على ظهر بيت لنا، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبلا بيت المقدس لحاجته وقال: لعلك من الذين يصلون على أوراكهم فقلت: لا أدري والله، يعني الذى يسجد ولا يرتفع عن الأرض، يسجد وهو لاصق بالأرض. . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم قضائے حاجت کے لئے بیٹھو تو نہ قبلے کی طرف رخ کرو اور نہ بیت المقدس کی طرف۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تھا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کئے قضائے حاجت کر رہے تھے۔ پھر انہوں نے (واسع بن حبان رحمہ اللہ سے) فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں؟ (واسع بن حبان رحمہ اللہ نے کہا) میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا۔ (امام مالک نے فرمایا:) یعنی وہ شخص جو سجدہ کرتا ہے تو زمین سے بلند نہیں ہوتا بلکہ زمین سے چمٹے ہوئے سجدہ کرتا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 41]

تخریج:
[وأخرجه البخاري 145، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ اسی حدیث کی دوسری سند میں آیا ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «قاعدًا على لبنتين» یعنی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔۔۔ آپ دو اینٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري: 149]
معلوم ہوا کہ قضائے حاجت (پیشاب وغیرہ) بیٹھ کر کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بھی جائز ہے، بصورت دیگر ممنوع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ثلاث من الجفاء: أن یبول الرجل قائمًا۔۔۔» تین چیزیں ظلم میں سے ہیں: (اول) یہ کہ آدمی کھڑے ہوکر پیشاب کرے۔۔۔ [كشف الاستار عن زوائد البزار 1 / 266 ح547 وسنده حسن]
● سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب سے میں مسلمان ہوا ہوں میں نے کبھی کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔ [كشف الاستار 1 / 130 ح244 وسنده صحيح]
➋ اگر چھت پر چڑھنے سے پڑوسیوں کے ہاں پردہ مجروح نہ ہو اور ان کی ناراضی یا کسی شرعی مخالفت کا ڈر نہ ہو تو ان کی اجازت کے بغیر بھی اپنے گھر کی چھت پر چڑھا جاسکتا ہے ورنہ ایسا کام اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔
➌ سجدے کی حالت میں زمین سے چمٹنا جائز نہیں ہے۔
➍ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 124، النسائي 21/1 ح 20، من حديث ابن القاسم عن الإمام مالك به وللحديث طرق عند البخاري 144، و مسلم 624، وغيرهما]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 502   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 45  
´جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن`
«. . . قَالَ: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا سورة المائدة آية 3، قَالَ عُمَرُ: قَدْ عَرَفْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ وَالْمَكَانَ الَّذِي نَزَلَتْ فِيهِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ قَائِمٌ بِعَرَفَةَ يَوْمَ جُمُعَةٍ . . .»
. . . (سورۃ المائدہ کی یہ آیت کہ) آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام پسند کیا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور اس مقام کو (خوب) جانتے ہیں جب یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی (اس وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں جمعہ کے دن کھڑے ہوئے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 45]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحی ہے، اس لیے جس قدر خوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہو و لعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہر عید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔

آیت کریمہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ» [5-المائدة:3] میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہو چکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔ کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چار صدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی کہے گا۔ مگر صد افسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس قدر پختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آ رہا ہے۔ مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ «الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ» [5-المائدة:3] میں بتایا گیا ہے۔
تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے:
دین حق را چار مذہب ساختد
رخنہ در دین نبی اند اختد
یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چار مذہب بنا ڈالے، اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 45   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 45  
45. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک ایسی آیت ہے جسے تم پڑھتے رہتے ہو، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن ٹھہرا لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: وہ کون سی آیت ہے؟ یہودی بولا یہ آیت: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور دین اسلام کو تمہارے لیے پسند کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: ہم اس دن اور اس مقام کو جانتے ہیں جس میں یہ آیت نبی ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ آیت جمعے کے دن اتری جب آپ عرفات میں کھڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:45]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر ؓ کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ جمعہ کا دن اور عرفہ کا دن ہمارے ہاں عید ہی مانا جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس مبارک دن میں اس آیت کے نزول پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں، پھر عرفہ کے بعد والا دن عیدالاضحیٰ ہے، اس لیے جس قدرخوشی اور مسرت ہم کو ان دنوں میں ہوتی ہے اس کا تم لوگ اندازہ اس لیے نہیں کرسکتے کہ تمہارے ہاں عید کا دن کھیل تماشے اور لہوولعب کا دن مانا گیا ہے، اسلام میں ہرعید بہترین روحانی اور ایمانی پیغام لے کر آتی ہے۔
آیت کریمہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ (المائدة: 3)
میں دین کے اکمال کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کامل صرف وہی چیز ہے جس میں کوئی نقص باقی نہ رہ گیا ہو، پس اسلام آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں کامل مکمل ہوچکا جس میں کسی تقلیدی مذہب کا وجود نہ کسی خاص امام کے مطاع مطلق کا تصور تھا۔
کوئی تیجہ، فاتحہ، چہلم کے نام سے رسم نہ تھی۔
حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی نسبتوں سے کوئی آشنا نہ تھا کیونکہ یہ بزرگ عرصہ دراز کے بعد پیدا ہوئے اور تقلیدی مذاہب کا اسلام کی چارصدیوں تک پتہ نہ تھا، اب ان چیزوں کو دین میں داخل کرنا، کسی امام بزرگ کی تقلید مطلق واجب قرار دینا اور ان بزرگوں سے یہ تقلیدی نسبت اپنے لیے لازم سمجھ لینا یہ وہ امور ہیں جن کو ہر بابصیرت مسلمان دین میں اضافہ ہی کہے گا۔
مگرصد افسوس کہ امت مسلمہ کا ایک جم غفیر ان ایجادات پر اس قدر پختگی کے ساتھ اعتقاد رکھتا ہے کہ اس کے خلاف وہ ایک حرف سننے کے لیے تیار نہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان ایجادات نے مسلمانوں کو اس قدر فرقوں میں تقسیم کردیا ہے کہ اب ان کا مرکز واحد پر جمع ہونا تقریباً ناممکن نظر آرہا ہے۔
مسلک محدثین بحمدہ تعالیٰ اس جمود اور اس اندھی تقلید کے خلاف خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے جو آیت شریفہ ﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ﴾ (المائدة: 3)
میں بتایا گیا ہے۔
تقلیدی مذہب کے بارے میں کسی صاحب بصیرت نے خوب کہا ہے دین حق را چار مذہب ساختد رخنہ در دین نبی اند اختد یعنی لوگوں نے دین حق جو ایک تھا، اس کے چارمذہب بنا ڈالے، اس طرح نبی کریم ﷺ کے دین میں رخنہ ڈال دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 45   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:45  
45. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! تمہاری کتاب (قرآن) میں ایک ایسی آیت ہے جسے تم پڑھتے رہتے ہو، اگر وہ آیت ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن ٹھہرا لیتے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: وہ کون سی آیت ہے؟ یہودی بولا یہ آیت: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور دین اسلام کو تمہارے لیے پسند کر لیا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: ہم اس دن اور اس مقام کو جانتے ہیں جس میں یہ آیت نبی ﷺ پر نازل ہوئی۔ یہ آیت جمعے کے دن اتری جب آپ عرفات میں کھڑے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:45]
حدیث حاشیہ:

یہودی دراصل یہ کہنا چاہتا تھا کہ مسلمان اس آیت کی اہمیت سے نابلد ہیں۔
اگر ہم پر یہ آیت نازل ہوتی تو ہم مارے خوشی کے اس کے یوم نزول کو عید کے طور پر مناتے اور ہرسال اس دن خوشی کا اظہار کرتے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کامطلب یہ ہے کہ تمہاری عید توخود ساختہ ہوتی لیکن ہمارے نزدیک تو اس کا نزول ہی عید کے دن ہوا اور ایسی جگہ پر نزول ہوا جو بہت تاریخی اور انتہائی تقدیس کا حامل ہے۔
یعنی جمعے کا دن، ذوالحجہ کی نویں تاریخ اور میدان عرفات، اب فیصلہ کیا جائے کہ کون سی خوشی، درحقیقت خوشی کہلانے کا حق رکھتی ہے؟ ایک وہ خوشی ہے جسےخود انسان مقرر کرتا ہے اور ایک وہ جس کی تعیین اللہ کی طرف سے ہو، جبکہ اصل خوشی تو وہی ہے جو اللہ کی مقررکردہ ہو۔
طبرانی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ اس طرح منقول ہیں کہ یہ آیت جمعے اور عرفے کے دن نازل ہوئی اور یہ دونوں دن ہمارے لیے عید کی حیثیت رکھتے ہیں۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 460/1۔
حدیث: 834 وفتح الباري 142/1)

غرض یہ دونوں عیدیں وقتی نہیں بلکہ دائمی ہیں۔

آیت کریمہ میں دین کے متعلق لفظ اکمال استعمال ہوا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دین کمال کو قبول کرتا ہے اور جوچیز کمال کو قبول کرتی ہے وہ نقصان کو بھی قبول کرسکتی ہے۔
اس سے دین میں کمی بیشی کا اثبات ہوا، یعنی عمل کے اعتبار سے، نہ کہ انسانوں کو دین میں کمی بیشی کا اختیار ہے جیسے اہل بدعت کا شیوہ ہے۔
وہ اپنی طرف سے دین میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ جس دین کو اللہ نے مکمل کردیا، اس میں اضافے کی گنجائش کس طرح ہوسکتی ہے یا اس کا مجاز کون ہو سکتا ہے؟ ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکمال سے پہلے کمی کا تصور لازم آتا ہے تو کیا شروع میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا ایمان اوردین کامل نہیں تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کمی صرف مومن بہ (امورایمان)
کے اعتبار سے ہے ورنہ جس زمانے میں اسلام کے جتنے احکام نازل شدہ تھے ان کو ماننا ہی کامل ایمان تھا۔
شریعت کے دور اول اور دور کمال کا اعتبار کر کے کسی کے دین کو ناقص نہیں کہا جاسکتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ساختہ عیدوں کی بھی تردید کرتے ہیں کہ ہم ایسے نہیں ہیں کہ اپنی طرف سے جو دن چاہیں عید کے لیے مقرر کرلیں بلکہ ہم تو اس سلسلے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے محتاج ہیں۔
ہمارے نزدیک جمعہ تو عید المومنین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطورعید مقررکیا ہے نہ کہ ہم نے اپنی طرف سے یوم عید قراردیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 45   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.