الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
39. بَابُ: {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} :
39. باب: حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ بچہ جنیں۔
(39) Chapter. “For those who are pregnant (whether they are divorced or their husbands are dead) their Idda (period) is until they laydown their burdens.” (V.65:4)
حدیث نمبر: 5320
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن المسور بن مخرمة،" ان سبيعة الاسلمية نفست بعد وفاة زوجها بليال، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم، فاستاذنته ان تنكح، فاذن لها، فنكحت".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ،" أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْهُ أَنْ تَنْكِحَ، فَأَذِنَ لَهَا، فَنَكَحَتْ".
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے مسور بن مخرمہ نے کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد چند دنوں تک حالت نفاس میں رہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر انہوں نے نکاح کی اجازت مانگی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور انہوں نے نکاح کیا۔

Narrated Al-Miswer bin Makhrama: Subai'a Al-Aslamiya gave birth to a child a few days after the death of her husband. She came to the Prophet and asked permission to remarry, and the Prophet gave her permission, and she got married.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 241

   صحيح البخاري5320مسور بن مخرمةأذن لها فنكحت
   سنن النسائى الصغرى3536مسور بن مخرمةأذن لها فنكحت
   سنن النسائى الصغرى3537مسور بن مخرمةتنكح إذا تعلت من نفاسها
   سنن ابن ماجه2029مسور بن مخرمةأمر سبيعة أن تنكح إذا تعلت من نفاسها
   بلوغ المرام945مسور بن مخرمةفاستاذنته ان تنكح فاذن لها فنكحت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 380  
´حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے`
«. . . 474- مالك حدثني هشام بن عروة عن أبيه عن المسور بن مخرمة أن سبيعة الأسلمية نفست بعد وفاة زوجها بليال، فجاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنته أن تنكح، فأذن لها، فنكحت. . . .»
. . . سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ سبیعہ الاسلمیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے خاوند کی وفات کے کچھ دنوں بعد بچہ پیدا ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوسری شادی کی اجازت لینے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چنانچہ انہوں نے نکا ح کر لیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 380]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5320، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حاملہ عورت کی عدت اس کے بچے کی پیدائش سے ختم ہو جاتی ہے۔
➋ نیز دیکھئے: [الموطأ: 396، و النسائي 192٬191/6ح 3540]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 474   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 945  
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کی اجازت دے دی اور اس نے نکاح کر لیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی اصل بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس روز بعد بچے کو جنم دیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 945»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ ، حديث:5320، ومسلم، الطلاق، باب انقضاء عدة المتوفي عنها وغيرها بوضع الحمل، حديث:1485، وانظر، حديث:1484.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس عورت کا شوہر وفات پا جائے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے‘ یعنی اس کی عدت بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے‘ خواہ وہ مدت چار ماہ دس دن سے کم ہو یا زیادہ، جیسا کہ حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات سے تقریباً چالیس روز بعد جب بچہ جنم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نئے نکاح کی اجازت دے دی تھی۔
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
ان کی بنیادی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ﴾ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔
اس آیت میں جس طرح حاملہ مطلقہ کی عدت بیان ہوئی ہے اسی طرح بیوہ حاملہ عورت کی عدت بھی بیان ہوئی ہے جیسا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صراحت ملتی ہے جسے امام عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں اور ضیاء نے المختارہ میں بیان کیا ہے۔
وضاحت: «حضرت سُبَیْعَہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ (تصغیر کے ساتھ) بنت حارث اسلمیہ۔
بنو اسلم کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے اسلمیہ کہلاتی ہیں۔
مشہور و معروف صحابیہ ہیں۔
ابن سعد کے بقول یہ مہاجرات میں سے ہیں۔
یہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے عقد نکاح میں تھیں‘ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں وفات پا گئے تھے‘ پھر انھوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے نکاح کر لیا۔
اور بعض نے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے معروف صحابی ابوسنابل رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تھا۔
«امام زہری رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب قریشی زہری۔
بہت بڑے امام تھے۔
حجاز و شام کے عالم تھے۔
چوتھے طبقے کے سرکردہ علمائے کرام میں سے تھے۔
ان کی جلالت شان اور اتقان پر سب متفق ہیں۔
امام لیث کا قول ہے: میں نے ابن شہاب جیسا جامع الصفات عالم کبھی نہیں دیکھا۔
اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابن شہاب بہت سخی انسان تھے‘ انسانوں میں ان کی نظیر و مثال نہیں ملتی۔
۱۲۴ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 945   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5320  
5320. سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ن‬ے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنم دیا۔ پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اس نکاح کی اجازت دے دی پھر اس نے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5320]
حدیث حاشیہ:
قرء حیض اور طہر دونوں معنوں میں آتا ہے۔
اسی لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ''ثلاثة قروء'' سے تین حیض مراد رکھے ہیں اور شافعی نے تین طہر۔
مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے اس لیے کہ طلاق طہر میں مشروع ہے حیض میں نہیں اب اگر کسی نے ایک طہر ميں طلاق دی تو یا تو یہ طہر عدت میں شمار ہوگا۔
شافعیہ کہتے ہیں تب تو عدت تین طہر سے کم ٹھہرے گی۔
اگر محسوب نہ ہوگا تو عدت تین طہر سے زائد ہو جائے گی۔
شافعیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ دو طہر اور تیسرے طہر کے ایک حصے کو تین طہر کہہ سکتے ہیں جیسے فرمایا ﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ﴾ (البقرة: 197)
حالانکہ حقیقت میں حج کے دو مہینے دس دن ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5320   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5320  
5320. سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ن‬ے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنم دیا۔ پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اس نکاح کی اجازت دے دی پھر اس نے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5320]
حدیث حاشیہ:
(1)
آیت کریمہ میں حاملہ کی عدت بیان ہوئی ہے کہ اگر اسے طلاق مل جائے تو وضع حمل کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
اگر اس خاوند فوت ہو گیا ہو اور وہ حمل سے ہو تو بھی اس کی عدت وضع ہی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ اگر کوئی عورت شوہر کی وفات کے وقت حمل سے ہو تو وہ لمبی مدت بطور عدت گزارے گی، لیکن باقی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۂ طلاق جس میں حاملہ عورت کی عدت بیان ہوئی ہے، وہ سورۂ بقرہ کے بعد نازل ہوئی تھی جس میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۂ بقرہ کی آیت: 234 کو بطور دلیل پیش کرتے تھے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو اسے آخری مدت پوری کرنی چاہیے۔
حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:
کیا اللہ تعالیٰ نے"آخر أجلين'' کہا ہے۔
اگر خاوند کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن گزر جائیں اور اس نے بچہ جنم نہ دیا ہو تو کیا نکاح کر سکتی ہے؟ یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام سے کہا:
جاؤ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ کو آؤ۔
بہرحال حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، خواہ اس کا خاوند فوت ہوا ہو یا اسے طلاق ملی ہو۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 573/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5320   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.