الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
The Book of Slaughtering and Hunting
5. بَابُ الْخَذْفِ وَالْبُنْدُقَةِ:
5. باب: انگلی سے چھوٹے چھوٹے سنگ ریزے اور غلے مارنا۔
(5) Chapter. Al-Khadhf (throwing stones with the middle finger and the thumb) and Al-Bunduqa (a ball of clay thrown through a hollow stick or the like).
حدیث نمبر: 5479
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا يوسف بن راشد، حدثنا وكيع، ويزيد بن هارون، واللفظ ليزيد، عن كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن بريدة، عن عبد الله بن مغفل انه راى رجلا يخذف، فقال له: لا تخذف فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الخذف، او كان يكره الخذف، وقال: إنه لا يصاد به صيد، ولا ينكى به عدو، ولكنها قد تكسر السن وتفقا العينن"، ثم رآه بعد ذلك يخذف، فقال له: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه نهى عن الخذف او كره الخذف، وانت تخذف، لا اكلمك كذا وكذا.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَاللَّفْظُ لِيَزِيدَ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: لَا تَخْذِفْ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْخَذْفِ، أَوْ كَانَ يَكْرَهُ الْخَذْفَ، وَقَالَ: إِنَّهُ لَا يُصَادُ بِهِ صَيْدٌ، وَلَا يُنْكَى بِهِ عَدُوٌّ، وَلَكِنَّهَا قَدْ تَكْسِرُ السِّنَّ وَتَفْقَأُ الْعَيْنَن"، ثُمَّ رَآهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَخْذِفُ، فَقَالَ لَهُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الْخَذْفِ أَوْ كَرِهَ الْخَذْفَ، وَأَنْتَ تَخْذِفُ، لَا أُكَلِّمُكَ كَذَا وَكَذَا.
ہم سے یوسف بن راشد نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع اور یزید بن ہارون نے بیان کیا اور الفاظ حدیث یزید کے ہیں، ان سے کہمس بن حسن نے، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کنکری پھینکتے دیکھا تو فرمایا کہ کنکری نہ پھینکو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا ہے یا (انہوں نے بیان کیا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنکری پھینکنے کو پسند نہیں کرتے تھے اور کہا کہ اس سے نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ دشمن کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے البتہ یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد بھی انہوں نے اس شخص کو کنکریاں پھینکتے دیکھا تو کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمہیں سنا رہا ہوں کہ آپ نے کنکری پھینکنے سے منع فرمایا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند کیا اور تم اب بھی پھینکے جا رہے ہو، میں تم سے اتنے دنوں تک کلام نہیں کروں گا۔

Narrated `Abdullah bin Maghaffal: that he saw a man throwing stones with two fingers (at something) and said to him, "Do not throw stones, for Allah's Apostle has forbidden throwing stones, or e used to dislike it." `Abdullah added: Throwing stones will neither hunt the game, nor kill (or hurt) an enemy, but it may break a tooth or gouge out an eye." Afterwards `Abdullah once again saw the man throwing stones. He said to him, "I tell you that Allah's Apostle has forbidden or disliked the throwing the stones (in such a way), yet you are throwing stones! I shall not talk to you for such-and-such a period."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 67, Number 388

   صحيح البخاري6220عبد الله بن مغفللا يقتل الصيد ولا ينكأ العدو وإنه يفقأ العين ويكسر السن
   صحيح البخاري5479عبد الله بن مغفلالخذف أو كان يكره الخذف وقال إنه لا يصاد به صيد ولا ينكى به عدو ولكنها قد تكسر السن وتفقأ العينن ثم رآه بعد ذلك يخذف فقال له أحدثك عن رسول الله أنه نهى عن الخذف أو كره الخذف وأنت تخذف لا أكلمك كذا وكذا
   صحيح البخاري4841عبد الله بن مغفلإني ممن شهد الشجرة نهى النبي عن الخذف
   صحيح مسلم5053عبد الله بن مغفلنهى عن الخذف وقال إنها لا تصيد صيدا ولا تنكأ عدوا ولكنها تكسر السن وتفقأ العين
   صحيح مسلم5050عبد الله بن مغفللا يصطاد به الصيد ولا ينكأ به العدو ولكنه يكسر السن ويفقأ العين
   صحيح مسلم5052عبد الله بن مغفلعن الخذف
   سنن أبي داود5270عبد الله بن مغفلعن الخذف قال إنه لا يصيد صيدا ولا ينكأ عدوا وإنما يفقأ العين ويكسر السن
   سنن النسائى الصغرى4819عبد الله بن مغفلينهى عن الخذف أو يكره الخذف
   سنن ابن ماجه3227عبد الله بن مغفلإنها لا تقتل الصيد ولا تنكي العدو ولكنها تفقأ العين وتكسر السن
   سنن ابن ماجه3226عبد الله بن مغفلإنها لا تصيد صيدا ولا تنكأ عدوا ولكنها تكسر السن وتفقأ العين
   سنن ابن ماجه17عبد الله بن مغفلإنها لا تصيد صيدا ولا تنكي عدوا وإنها تكسر السن وتفقأ العين
   المعجم الصغير للطبراني677عبد الله بن مغفلنهى عن الخذف
   المعجم الصغير للطبراني688عبد الله بن مغفلعن الخذف وقال إنه لا يصاد بها صيد ولا ينكأ بها عدوا ولكنها تفقأ العين وتكسر السن
   مسندالحميدي911عبد الله بن مغفلأحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عنها وتعود، لا أكلمك أبدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث17  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ان کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینکی، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے روکا ہے اور فرمایا ہے کہ: یہ کنکری نہ تو کوئی شکار کرتی ہے، اور نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے، البتہ یہ دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔‏‏‏‏ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا دوبارہ کنکریاں پھینکنے لگا تو انہوں نے کہا: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 17]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غلط اور نقصان دہ کام سے منع فرمایا ہے، اگرچہ بظاہر وہ معمولی ہو، کیونکہ بعض اوقات ایک کام بظاہر معمولی نظر آتا ہے، لیکن اس کا انجام معمولی نہیں ہوتا۔

(2)
کسی گناہ کے عام ہو جانے کی وجہ سے بھی ہم اسے معمولی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کے ہاں وہ بڑا گناہ ہوتا ہے، اس لیے صغیرہ گناہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔

(3)
ہر وہ کام جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو اور نقصان کا اندیشہ ہو، اس سے بچنا ہی چاہیے۔

(4)
گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو تنبیہ کرنے کے لیے اور اس کے گناہ سے نفرت کے اظہار کے لیے ملاقات ترک کر دینا جائز ہے، تاکہ وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے۔

(5)
ہر اس کام سے اجتناب ضروری ہے جس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5270  
´کنکریاں پھینکنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھیل کود اور ہنسی مذاق میں) ایک دوسرے کو کنکریاں مارنے سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: نہ تو یہ کسی شکار کا شکار کرتی ہے، نہ کسی دشمن کو گھائل کرتی ہے۔ یہ تو صرف آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5270]
فوائد ومسائل:

بے مقصد کام سے ہر مسلمان کو ہمیشہ رہنا چاہیے بالخصوص بچوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بلا مقصد بیٹھےکنکر، پتھر مارتے رہتے ہیں تو یہ ایک لغو اور مضر کام ہے نو خیزبچوں کو عمدہ طریقے سے سمجھاتے رہنا چاہیے تاکہ ا ن کی اٹھان خیر کے اعمال پر ہو۔

2: شکار ایک عمدہ مقصد ہے اور اسی طرح میدان جہاد میں کفار کو نشانہ بنانا بھی ایک فضیلت کا عمل ہے۔

3: نشانہ بازی کی مشق کے لئے اگر یہ کام کرنا ہو تو کسی ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں کسی کے لئے کو ئی ضررنہ ہو۔

4: اگر اس کارستانی میں کسی عاقل بالغ سے کسی کی آنکھ پھوٹ گئی یادانت ٹوٹ گیا، تو دیت لازم آئے گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5270   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5479  
5479. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو کنکری پھیکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس طرح کنکری مت پھینکو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کنکری پھیکنے سے منع فرمایا ہے یا اسے ناپسند فرمایا ہے، نیز فرمایا: اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں پھینک رہا ہے تو اسے کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ نے کنکری پھیکنےسے منع کیا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند فرمایا لیکن تو پھر کنکریاں پھینک رہا ہے، میں تیرے ساتھ اتنے دن تک بات نہیں کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5479]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ظاہر ہو گیا کہ حدیث پر چلنا اور حدیث کے سامنے اپنی رائے قیاس کو چھوڑنا ایمان کا تقاضا ہے اور یہی صراط مستقیم ہے اللہ اسی پر قائم و دائم رکھے اور اسی راہ حدیث پر موت نصیب کرے۔
آمین۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں۔
و في الحدیث جواز ھجر أن من خالف السنة و ترك کلامه ولا یدخل ذالك في النھي عن الھجر فوق ثلاث فإنه یتعلق بمن ھجر بحظ نفسه۔
یعنی اس سے ان لوگوں سے ترک سلام و کلام جائز ثابت ہوا جو سنت کی مخالفت کریں اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف نہ ہوگا جس میں تین دن سے زیادہ ترک کلام کی مخالفت آئی ہے۔
اس لیے کہ وہ اپنے نفس کے لیے ہے اور یہ محبت سنت نبوی فداہ روحی کے لیے سچ ہے یہی وہ صراط مستقیم ہے جس سے خدا ملے گا جیسا کہ علامہ طحطاوی نے مفصل بیان فرمایا ہے۔
فان قلت:
ماوقومک علی أنك علی صراط مستقیم و کل واحدمن ھٰذہ الفرق یدعي أنه علیه، قلت:
لیس ذالك بالإدعاء بل بالنّقل عن جھابذة الصحابة و علماء أھل الحدیث الذین جمعوا صحاح الأحادیث في أمور رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیه وسلم وأحواله وأقواله و حرکاته و سکناته و أحوال أصحابه و الذین اتبعوھم بإحسان، مثل الإمام البخاري و مسلم وغیر ھما من الثّقات المشھور ین الذین اتفق أھل المشرق و المغرب علی صحة مارووہ في کتبھم من أمور النبي صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم و أصحابه رضي اللہ تعالیٰ عنھم ثم بعد النقل ینظر إلی الذي تمسك بھدیھم و افتفٰی أثرھم واھتدی بسیرھم في الأصول و الفروع فیحکم بأنه من الذین ھم وھذا ھو الفارق بین الحق والباطل الممیز بین من ھو علیٰ الصراط المستقیم و بین من ھو علی السبیل الذي یمینه و شماله (طحطاوی حاشیہ در مختار مطبوعہ بولاق قاھرة، جلد: 4، کتاب الذبائح، ص: 135)
اگر تو کہے کہ تجھے اپنا صراط مستقیم پر ہونا کیسے معلوم ہو حالانکہ ان تمام فرقوں میں ہر ایک یہی دعویٰ کرتا ہے تو میں جواب دوںگا کہ یہ صرف دعویٰ کر لینے اور اپنے وہم و گمان کو سند بنا لینے سے ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ اس پر وہ ہے جو علم منقول حاصل کرے اس فن کے ماہر علمائے اہلحدیث سے جن بزرگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث جمع کیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے امور اور احوال اور حرکات و سکنات میں مروی ہیں اور جن بزرگوں نے صحابہ کرام انصار و مہاجرین کے حالات جمع کئے جنہوں نے ان کی احسان کے ساتھ پیروی کی جیسے حضرت امام بخاری و حضرت امام مسلم وغیرہ ہیں جو ثقہ لوگ تھے اور مشہور تھے، جن بزرگوں کی وارد کی ہوئی مرفوع و موقوف احادیث کی صحت پر کل علماء مشرق و مغرب متفق ہیں۔
اس نقل کے بعد دیکھا جائے گا کہ ان محدثین کرام کے طریقے کو مضبوط تھامنے والا اور ان کی پوری پوری اتباع کرنے والا اور تمام کلی و جزئی چھوٹے بڑے کاموں میں ان کی روش پر چلنے والا کون ہے۔
اب جو فرقہ اس طریقہ پر ہوگا (یعنی احادیث رسول پر بطریق صحابہ بلا قید مذہب عمل کرنے والا)
اس کی نسبت حکم کیا جائے گا کہ یہی جماعت وہ ہے جو صراط مستقیم پر ہے بس یہی وہ اصول ہے جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے اوریہی وہ کسوٹی ہے جو صراط مستقیم پر ہیں ان میں اوران میں جو اس کے دائیں بائیں ہیں، تمیز کر دیتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5479   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5479  
5479. سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو کنکری پھیکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اس طرح کنکری مت پھینکو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح کنکری پھیکنے سے منع فرمایا ہے یا اسے ناپسند فرمایا ہے، نیز فرمایا: اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کبھی کسی کا دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں پھینک رہا ہے تو اسے کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ نے کنکری پھیکنےسے منع کیا یا کنکری پھینکنے کو ناپسند فرمایا لیکن تو پھر کنکریاں پھینک رہا ہے، میں تیرے ساتھ اتنے دن تک بات نہیں کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5479]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے غلیل میں پتھر رکھ کر پھینکنے کا اثبات کیا ہے اور اس سے شکار کرنا ناجائز ٹھہرایا ہے کیونکہ غلیلہ اپنے بوجھ اور زور سے شکار کو مارتا ہے، وہ گوشت کو چیرتا نہیں ہے۔
(2)
دور حاضر کی ایجاد بندوق کے ذریعے سے شکار حلال ہے یا حرام؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔
اکثر علماء بندوق کے ذریعے سے کیے ہوئے شکار کو حرام کہتے ہیں لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بندوق سے کیا ہوا شکار حلال ہے کیونکہ اس کی گولی، لاٹھی یا چھڑی کی طرح جسم سے نہیں ٹکراتی بلکہ تیر یا کسی بھی تیز دھار آلے کی طرح جسم کو پھاڑ کر نکل جاتی ہے، اور اس کارتوس میں چھوٹے چھوٹے لوہے کے ٹکڑے ہوتے ہیں جو جسم کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔
جن روایات میں بندوق کے شکار کی ممانعت یا کراہت موجود ہے اس سے مراد موجودہ بندوق کی گولی نہیں بلکہ مٹی کی بنی ہوئی گولی ہے جسے غلیلہ کہا جاتا ہے۔
اس سے مارا ہوا شکار موقوذہ کے حکم میں ہے کیونکہ یہ جسم سے ٹکرا کر سخت چوٹ سے جانور کو مار دیتی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5479   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.