الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
13. بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:
13. باب: نماز عصر کے وقت کا بیان۔
(13) Chapter. The time of the Asr prayer.
حدیث نمبر: 548
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، قال:" كنا نصلي العصر، ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فنجدهم يصلون العصر".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَخْرُجُ الْإِنْسَانُ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَنَجِدُهُمْ يُصَلُّونَ الْعَصْرَ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، وہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے اور اس کے بعد کوئی بنی عمرو بن عوف (قباء) کی مسجد میں جاتا تو ان کو وہاں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔

Narrated Anas bin Malik: We used to pray the `Asr prayer and after that if someone happened to go to the tribe of Bani `Amr bin `Auf, he would find them still praying the `Asr (prayer).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 523


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 83  
´نماز عصر کا وقت`
«. . . 122- وبه: عن أنس أنه قال: كنا نصلي العصر ثم يخرج الإنسان إلى بني عمرو بن عوف فيجدهم يصلون العصر. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عصر کی نماز پڑھتے پھر آدمی بنو عمرو بن عوف کی طرف جاتا تو انہیں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا تھا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 83]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 548، ومسلم 194/621، من حديث مالك به]

تفقه:
① یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے کہ شہر یا گاؤں کی تمام مسجدوں میں ایک ہی وقت نماز پڑھی جائے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ نماز اول وقت پڑھنی چاہئے لہٰذا بعض مسجدوں میں بالکل اول وقت اور بعض میں اس سے تھوڑی دیر بعد نماز ہوسکتی ہے بشرطیکہ سورج خوب بلند اور روشن ہو۔ جان بوجھ کر سورج کے زرد ہونے، غروب کے نزدیک پہنچنے اور مکروہ وقت میں عصر کی نماز پڑھنا غلط کام ہے جس کی ممانعت آئی ہے۔
② رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز بالکل اول وقت پڑھتے تھے۔
③ عصر کا اول وقت ایک مثل پر شروع ہوتا ہے اور دو مثل پر افضل وقت ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد مغرب تک کا وقت شرعی عذر پر محمول ہے مثلاً کوئی شخص بھول جائے یا سو جائے وغیرہ۔
④ ائمہ ثلاثہ (مالک، شافعی اور أحمد) اور قاضی ابویوسف ومحمد بن الحسن الشیبانی وغیرہم کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل پر داخل ہوجاتا ہے۔ دیکھئے [الاوسط لابن المنذر 2/329، والكواكب الدري 1/90 حاشيه] اور یہی صحیح ہے۔
⑤ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل (علیہ السلام) نے بیت اللہ کے قریب مجھے دو دفعہ نماز پڑھائی۔۔۔ پھر انہوں نے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا۔ [سنن الترمذي: 149، وقال: حديث حسن وصححه ابن خزيمه: 352، وابن حبان: 279، وابن الجارود: 149، والحاكم: 1/193، وغيرهم وحسنه النيموي التقليدي فى آثار السنن: 194]
⑥ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے کہ جب دو مثل ہوجائے تو عصر پڑھ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو مثل تک عصر کی (افضل) نماز پڑھ سکتے ہو۔ دیکھئے: [التعليق الممجد ص 41 حاشيه: 9] اور [الاوسط لابن المنذر 2/328 ح948 عن عمر رضى الله عنه وسنده صحيح]
⑦ نیز دیکھئے: [ح 132]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 122   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:548  
548. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم (رسول اللہ ﷺ کے ساتھ) نماز عصر پڑھ لیتے، فراغت کے بعد کوئی شخص قبیلہ عمرو بن عوف تک جاتا تو انہیں وہاں نماز عصر میں مصروف پاتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:548]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام نووی ؒ قبیلۂ عمرو بن عوف کی مدینے سے دوری اور نماز عصر کو دیر سے ادا کرنے کے متعلق فرماتے ہیں کے قبیلۂ عمرو بن عوف مدینہ طیبہ سے تقریباً دومیل کے فاصلے پرتھا۔
چونکہ وہ اپنے کاموں اور کھیتی باڑی میں مشغول رہتے تھے، اس لیے نماز عصر کو اوسط وقت میں پڑھا کرتے تھے۔
(فتح الباري: 38/2) (2)
یہ حدیث بھی نماز عصر کے اول وقت، یعنی ایک مثل سائے میں پڑھ لینے پر دلالت کرتی ہے، جیسا کہ امام نووی ؒ اس حدیث کے تحت بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث احناف کے خلاف حجت ہے جن کا موقف ہے کہ جب تک کسی چیز کا سایہ دومثل نہ ہو جائے، نماز عصر کاوقت شروع نہیں ہوتا۔
علامہ عینی ؒ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تمام احناف کا یہ موقف ہے۔
صرف اسد بن عمرو، امام ابو حنیفہ ؒ سے یہ موقف بیان کرنے میں منفرد ہے۔
اس کے علاوہ حضرت حسن ان سے روایت کرتے ہیں کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے پر شروع ہو جاتا ہے۔
یہی قول ابو یوسف، محمد اور زفر کا ہے۔
امام طحاوی ؒ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔
(عمدة الأحکام: 44/4)
لیکن عصر حاضر میں احناف کا عمل دومثل والے موقف پر ہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 548   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.