الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
The Book of Medicine
39. بَابُ النَّفْثِ فِي الرُّقْيَةِ:
39. باب: دعا پڑھ کر مریض پر پھونک مارنا اس طرح کہ منہ سے ذرا سا تھوک بھی نکلے۔
(39) Chapter. An-Nafth (blowing with a slight shower of saliva) while treating with a Ruqya.
حدیث نمبر: 5749
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد:" ان رهطا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم انطلقوا في سفرة سافروها حتى نزلوا بحي من احياء العرب، فاستضافوهم، فابوا ان يضيفوهم، فلدغ سيد ذلك الحي، فسعوا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فقال بعضهم: لو اتيتم هؤلاء الرهط الذين قد نزلوا بكم لعله ان يكون عند بعضهم شيء، فاتوهم، فقالوا: يا ايها الرهط إن سيدنا لدغ، فسعينا له بكل شيء لا ينفعه شيء، فهل عند احد منكم شيء، فقال بعضهم: نعم والله إني لراق، ولكن والله لقد استضفناكم فلم تضيفونا، فما انا براق لكم حتى تجعلوا لنا جعلا، فصالحوهم على قطيع من الغنم، فانطلق فجعل يتفل ويقرا الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، حتى لكانما نشط من عقال، فانطلق يمشي ما به قلبة، قال: فاوفوهم جعلهم الذي صالحوهم عليه، فقال بعضهم: اقسموا، فقال الذي رقى: لا تفعلوا حتى ناتي رسول الله صلى الله عليه وسلم فنذكر له الذي كان، فننظر ما يامرنا، فقدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكروا له، فقال: وما يدريك انها رقية اصبتم اقسموا واضربوا لي معكم بسهم".حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ:" أَنَّ رَهْطًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْطَلَقُوا فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ قَدْ نَزَلُوا بِكُمْ لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ، فَأَتَوْهُمْ، فَقَالُوا: يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ، فَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ شَيْءٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَرَاقٍ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ، فَانْطَلَقَ فَجَعَلَ يَتْفُلُ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، حَتَّى لَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ، فَانْطَلَقَ يَمْشِي مَا بِهِ قَلَبَةٌ، قَالَ: فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اقْسِمُوا، فَقَالَ الَّذِي رَقَى: لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ، فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ، فَقَالَ: وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر (جعفر) ان سے ابوالمتوکل علی بن داؤد نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ (300 نفر) ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے جسے انہیں طے کرنا تھا راستے میں انہوں نے عرب کے ایک قبیلہ میں پڑاؤ کیا اور چاہا کہ قبیلہ والے ان کی مہمانی کریں لیکن انہوں نے انکار کیا، پھر اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا اسے اچھا کرنے کی ہر طرح کی کوشش انہوں نے کر ڈالی لیکن کسی سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ آخر انہیں میں سے کسی نے کہا کہ یہ لوگ جنہوں نے تمہارے قبیلہ میں پڑاؤ کر رکھا ہے ان کے پاس بھی چلو، ممکن ہے ان میں سے کسی کے پاس کوئی منتر ہو۔ چنانچہ وہ صحابہ کے پاس آئے اور کہا لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے ہم نے ہر طرح کی بہت کوشش اس کے لیے کر ڈالی لیکن کسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیا تم لوگوں میں سے کسی کے پاس اس کے لیے منتر ہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب (ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ ہاں واللہ میں جھاڑنا جانتا ہوں لیکن ہم نے تم سے کہا تھا کہ ہماری مہمانی کرو (ہم مسافر ہیں) تو تم نے انکار کر دیا تھا اس لیے میں بھی اس وقت تک نہیں جھاڑوں گا جب تک تم میرے لیے اس کی مزدوری نہ ٹھہرا دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ بکریوں (30) پر معاملہ کر لیا۔ اب یہ صحابی روانہ ہوئے۔ یہ زمین پر تھوکتے جاتے اور «‏‏‏‏الحمد لله رب العالمين» ‏‏‏‏ پڑھتے جاتے اس کی برکت سے وہ ایسا ہو گیا جیسے اس کی رسی کھل گئی ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔ بیان کیا کہ پھر وعدہ کے مطابق قبیلہ والوں نے ان صحابی کی مزدوری (30 بکریاں) ادا کر دی بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو تقسیم کر لو لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں، پہلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں پوری صورت حال آپ کے سامنے بیان کر دیں پھر دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں۔ چنانچہ سب لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ اس سے دم کیا جا سکتا ہے؟ تم نے اچھا کیا جاؤ ان کو تقسیم کر لو اور میرا بھی اپنے ساتھ ایک حصہ لگاؤ۔

Narrated Abu Sa`id: A group of the companions of Allah's Apostle proceeded on a journey till they dismounted near one of the Arab tribes and requested them to entertain them as their guests, but they (the tribe people) refused to entertain them. Then the chief of that tribe was bitten by a snake (or stung by a scorpion) and he was given all sorts of treatment, but all in vain. Some of them said, "Will you go to the group (those travelers) who have dismounted near you and see if one of them has something useful?" They came to them and said, "O the group! Our leader has been bitten by a snake (or stung by a scorpion) and we have treated him with everything but nothing benefited him Has anyone of you anything useful?" One of them replied, "Yes, by Allah, I know how to treat with a Ruqya. But. by Allah, we wanted you to receive us as your guests but you refused. I will not treat your patient with a Ruqya till you fix for us something as wages." Consequently they agreed to give those travellers a flock of sheep. The man went with them (the people of the tribe) and started spitting (on the bite) and reciting Surat-al-Fatiha till the patient was healed and started walking as if he had not been sick. When the tribe people paid them their wages they had agreed upon, some of them (the Prophet's companions) said, "Distribute (the sheep)." But the one who treated with the Ruqya said, "Do not do that till we go to Allah's Apostle and mention to him what has happened, and see what he will order us." So they came to Allah's Apostle and mentioned the story to him and he said, "How do you know that Surat-al-Fatiha is a Ruqya? You have done the right thing. Divide (what you have got) and assign for me a share with you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 645


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5749  
5749. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ کرام ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ سفر کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے (راستے میں) عرب کے ایک قبیلے کے ہاں پڑاؤ کیا تو ان سے ضیافت طلب کی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اچانک اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ کھایا۔ انہوں نے اس (کی صحت یابی) کے لیے پوری کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر ان میں سے کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو تمہارے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز نہو چنانچہ صحابہ کرام‬ ؓ ک‬ے پاس آئے اور کہا: لوگو! ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے۔ ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن کسی چیز سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی چیز ہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک جانتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے ضیافت طلب کی تھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5749]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہواکہ ایسے مواقع پر قرآن مجید پڑھنے پڑھانے پر اپنے ایثار وقت کی مناسبت اجرت لی جا سکتی ہے۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ مشکوک امور کے لیے شریعت کی روشنی میں علماءسے تحقیق کر لینا ضروری ہے۔
آیت ﴿فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون﴾ (النحل: 43)
کا یہی مطلب ہے کہ جو بات نہ جانتے ہو اس کو جاننے والوں سے پوچھ لو جو لوگ اس آیت سے تقلید شخصی نکالتے ہیں وہ انتہائی جرات کرتے ہیں یہ آیت تقلید شخصی کو کاٹ کر ہر مسلمان کو تحقیق کا حکم دے رہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5749   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5749  
5749. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ کرام ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ سفر کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے (راستے میں) عرب کے ایک قبیلے کے ہاں پڑاؤ کیا تو ان سے ضیافت طلب کی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اچانک اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ کھایا۔ انہوں نے اس (کی صحت یابی) کے لیے پوری کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر ان میں سے کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو تمہارے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز نہو چنانچہ صحابہ کرام‬ ؓ ک‬ے پاس آئے اور کہا: لوگو! ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے۔ ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن کسی چیز سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی چیز ہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک جانتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے ضیافت طلب کی تھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5749]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ دم کرنے والا اپنا تھوک جمع کرتا رہا، پھر اس نے متاثرہ مقام پر لگا دیا۔
جب دم کرتے وقت تھوک لگانا جائز ہے تو ایسی پھونک مارنا جس میں لعاب دہن کی معمولی سی ملاوٹ ہو، بالاولیٰ جائز ہو گی۔
(2)
سورۂ فاتحہ کا نام شفا بھی ہے، ایسے موقع پر اسے مریض پر پڑھ کر اس انداز سے پھونک مرنا تیر بہدف اثر رکھتا ہے۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دم کرتے وقت ایسی پھونک مارتے جس میں لعاب کی معمولی سی ملاوٹ ہوتی تھی۔
(سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3528) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن پر وقت لگانے کی مناسب اجرت لینا جائز ہے، اسی طرح دم کرنے کی اجرت بھی طے کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے فارغ ہونا اور اسے ذریعۂ معاش قرار دے لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5749   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.