الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
The Book of Medicine
43. بَابُ الطِّيَرَةِ:
43. باب: بدشگونی لینے کا بیان۔
(43) Chapter. At-Tiyara (drawing an evil omen from birds, etc.)
حدیث نمبر: 5753
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا عثمان بن عمر، حدثنا يونس، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا عدوى، ولا طيرة، والشؤم في ثلاث: في المراة، والدار، والدابة".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَالشُّؤْمُ فِي ثَلَاثٍ: فِي الْمَرْأَةِ، وَالدَّارِ، وَالدَّابَّةِ".
مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، کہا کہ ہم سے یونس بن یزید ایلی نے، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امراض میں چھوت چھات کی اور بدشگونی کی کوئی اصل نہیں اور اگر نحوست ہوتی تو یہ صرف تین چیزوں میں ہوتی عورت میں، گھر میں اور گھوڑے میں۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: Allah's Apostle said, "There is neither 'Adha (no contagious disease is conveyed to others without Allah's permission) nor Tiyara, but an evil omen may be in three a woman, a house or an animal."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 71, Number 649

   صحيح البخاري5753عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة الشؤم في ثلاث في المرأة والدار والدابة
   صحيح البخاري5772عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة إنما الشؤم في ثلاث في الفرس والمرأة والدار
   صحيح البخاري2099عبد الله بن عمرلا عدوى
   صحيح مسلم5805عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة إنما الشؤم في ثلاثة المرأة والفرس والدار
   سنن ابن ماجه86عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة لا هامة أرأيت البعير يكون به الجرب فيجرب الإبل كلها قال ذلكم القدر فمن أجرب الأول
   سنن ابن ماجه3540عبد الله بن عمرلا عدوى لا طيرة لا هامة البعير يكون به الجرب فتجرب به الإبل قال ذلك القدر فمن أجرب الأول

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث86  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں چھوا چھوت کی بیماری، بدفالی اور الو سے بدشگونی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ایک دیہاتی شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اونٹ کو (کھجلی) ہوتی ہے، اور پھر اس سے تمام اونٹوں کو کھجلی ہو جاتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہی تقدیر ہے، اگر ایسا نہیں تو پہلے اونٹ کو کس نے اس میں مبتلا کیا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 86]
اردو حاشہ:
(1)
عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بیمار کے پاس کوئی تندرست آدمی اٹھتا بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے یا اس کا لباس استعمال کرتا ہے تو اسے بھی وہی بیماری لگ جاتی ہے جو مریض کو تھی۔
عرف عام میں ایسی بیماریوں کو متعدی بیماریاں کہا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بیماری اس طرح ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، البتہ ایسا ہو سکتا ہے کہ جس وجہ سے پہلے آدمی کے جسم میں مرض پیدا ہوا ہے، وہی وجہ کسی اور شخص میں بھی پائی جائے اور وہ بھی بیمار ہو جائے۔
جدید طب میں جراثیم کا نظریہ بہت مقبول ہے لیکن یہ جراثیم بھی بحکم الہی اثر انداز ہوتے ہیں، گویا دوسرے مریض کے بیمار ہونے کی اصل وجہ حکم باری تعالیٰ ہے نہ کہ مریض کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا۔
اس کے علاوہ ہومیو پیتھک نظریہ علاج جراثیم کو امراض کا سبب ہی تسلیم نہیں کرتا، اس لیے اس نظریے کے مطابق بھی مریض کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا ایک غلط تصور ہے۔

(2)
عرب لوگ پرندوںاور جنگلی جانوروں کے گزرنے سے شگون لیتے تھے۔
کوئی شخص کوئی کام کرنا چاہتا تو کسی بیٹھے ہوئے پرندے یا ہرن وغیرہ کو پتھر مار کر بھگاتا، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو سمجھا جاتا کہ کام صحیح ہو جائے گا، اگر بائیں طرف جاتا تو سمجھا جاتا کہ کامیابی نہیں ہو گی۔
اس طرح کے کام محض توہم پرستی کا مظہر ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آج کل بھی اس طرح کے توہمات پائے جاتے ہیں، مثلا:
کسی لنگڑے یا یک چشم انسان سے ملاقات ہو جائے تو اسے نحوست کا باعث قرار دینا۔
کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو سمجھنا کہ کام نہیں ہو گا یا کسی خاص عدد (مثلا تیرہ کا عدد)
یا کسی خاص دن (مثلا منگل)
یا کسی خاص مہینہ (مثلا ماہ صفر یا شوال)
کو نامبارک قرار دینا بھی اسی میں شامل ہے۔
کوئی نقش بنا کر اس کے خانوں میں انگلی رکھنا یا اس قسم کے فال ناموں سے قسمت معلوم کرنے کی کوشش کرنا سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

(3)
مشرکین عرب میں ایک غلط تصور یہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر متقول کا بدلہ نہ لیا جائے تو اس کی روح اُلو کی شکل اختیار کر کے بٹھکتی اور چیختی پھرتی ہے اور انتقام کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس غلط تصور کی وجہ سے ان لوگوں میں نسل در نسل انتقام اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا تھا، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، اسی طرح اُلو کو منحوس تصور کرنا غلط ہے۔
وہ بھی دوسری مخلوقات کی طرح اللہ کی ایک مخلوق ہے جس کا انسانوں کی قسمت سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 86   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5753  
5753. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسولل اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مرض متعدی نہیں اور بد شگونی کی بھی کوئی اصل نہیں، نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے: عورت میں گھر میں اور گھوڑے میں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5753]
حدیث حاشیہ:
بد شگونی کے لغو ہونے پر سب عقلاء کا اتفاق ہے مگر چھوت کے معاملہ میں بعض اطباء اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض امراض متعدی ہوتے ہیں مثلاً جذام اور طاعون وغیرہ۔
ہم کہتے ہیں کہ یہ تمہارا وہم ہے اگر وہ در حقیقت متعدی ہوتے تو ایک گھر کے یا ایک شہر کے سب لوگ مبتلا ہو جاتے مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ ایک گھر میں ہی کچھ لوگ بیمار ہوتے اور کچھ تندرست رہ جاتے ہیں جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5753   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5753  
5753. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسولل اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مرض متعدی نہیں اور بد شگونی کی بھی کوئی اصل نہیں، نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے: عورت میں گھر میں اور گھوڑے میں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5753]
حدیث حاشیہ:
(1)
بدشگونی کے لغو ہونے پر تمام عقلاء متفق ہیں۔
حدیث میں مذکور تین چیزوں کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بدشگونی اگر ہو بھی تو گھوڑے، عورت اور گھر میں ہو سکتی ہے۔
(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3921)
اس کا مطلب یہ ہے کہ بدشگونی اگر ہو تو بھی ان مذکورہ تین چیزوں میں ممکن ہے لیکن یہ کوئی یقینی نہیں۔
سواری، بیوی اور گھر اگر دین و دنیا میں مفید نہ ہوں تو ان کے بدل لینے میں کوئی حرج نہیں۔
سواری کی نحوست یہ ہے کہ وہ اڑیل ہو اور مقصد پورا کرنے کے قابل نہ ہو۔
بیوی کی نحوست یہ ہے کہ وہ ترش مزاج اور جھگڑالو ہو۔
اور گھر کی نحوست یہ ہے کہ وہ تنگ و تاریک ہو یا اس کے ہمسائے اچھے نہ ہوں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی بدشگونی کو شرک قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:
ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی وہم میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ توکل کی برکت سے اسے زائل کر دیتا ہے۔
(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3538)
بہرحال بدشگونی اور نحوست کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5753   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.