الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
62. بَابُ الْهِجْرَةِ:
62. باب: ترک ملاقات کا بیان۔
(62) Chapter. Al-Hijra [(to desert or) cut one’s relation with another Muslim (i.e., not to speak to him on meeting him)].
حدیث نمبر: Q6073
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يحل لرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليالوَقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو تین رات سے زیادہ چھوڑے رکھے (اس میں ملاپ کرنے کی تاکید ہے)۔

حدیث نمبر: 6073
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني عوف بن مالك بن الطفيل هو ابن الحارث، وهو ابن اخي عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم لامها، ان عائشة، حدثت ان عبد الله بن الزبير، قال في بيع او عطاء اعطته عائشة:" والله لتنتهين عائشة او لاحجرن عليها، فقالت: اهو قال هذا؟ قالوا: نعم، قالت: هو لله علي نذر ان لا اكلم ابن الزبير ابدا، فاستشفع ابن الزبير إليها حين طالت الهجرة، فقالت: لا والله لا اشفع فيه ابدا ولا اتحنث إلى نذري، فلما طال ذلك على ابن الزبير كلم المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة، وقال لهما: انشدكما بالله لما ادخلتماني على عائشة، فإنها لا يحل لها ان تنذر قطيعتي، فاقبل به المسور، وعبد الرحمن مشتملين بارديتهما حتى استاذنا على عائشة، فقالا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته، اندخل؟ قالت عائشة: ادخلوا قالوا: كلنا قالت: نعم ادخلوا كلكم، ولا تعلم ان معهما ابن الزبير، فلما دخلوا دخل ابن الزبير الحجاب فاعتنق عائشة وطفق يناشدها ويبكي، وطفق المسور، وعبد الرحمن يناشدانها إلا ما كلمته وقبلت منه، ويقولان: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عما قد علمت من الهجرة فإنه لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، فلما اكثروا على عائشة من التذكرة والتحريج طفقت تذكرهما نذرها وتبكي وتقول: إني نذرت والنذر شديد، فلم يزالا بها حتى كلمت ابن الزبير واعتقت في نذرها ذلك اربعين رقبة، وكانت تذكر نذرها بعد ذلك فتبكي حتى تبل دموعها خمارها".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْفُ بْنُ مَالِكِ بْنِ الطُّفَيْلِ هُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُمِّهَا، أَنَّ عَائِشَةَ، حُدِّثَتْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ:" وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَهُوَ قَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ: هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ أَبَدًا، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ إِلَيْهَا حِينَ طَالَتِ الْهِجْرَةُ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ لَا أُشَفِّعُ فِيهِ أَبَدًا وَلَا أَتَحَنَّثُ إِلَى نَذْرِي، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، وَقَالَ لَهُمَا: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ لَمَّا أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ بِأَرْدِيَتِهِمَا حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَا: السَّلَامُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، أَنَدْخُلُ؟ قَالَتْ عَائِشَةُ: ادْخُلُوا قَالُوا: كُلُّنَا قَالَتْ: نَعَم ادْخُلُوا كُلُّكُمْ، وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحِجَابَ فَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا وَيَبْكِي، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِهَا إِلَّا مَا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولَانِ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَى عَائِشَةَ مِنَ التَّذْكِرَةِ وَالتَّحْرِيجِ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمَا نَذْرَهَا وَتَبْكِي وَتَقُولُ: إِنِّي نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، فَلَمْ يَزَالَا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ وَأَعْتَقَتْ فِي نَذْرِهَا ذَلِكَ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، وَكَانَتْ تَذْكُرُ نَذْرَهَا بَعْدَ ذَلِكَ فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے، کہا مجھ سے عوف بن مالک بن طفیل نے بیان کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے تھے، انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بھیجی یا خیرات کی تو عبداللہ بن زبیر جو ان کے بھانجے تھے کہنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایسے معاملوں سے باز رہنا چاہیئے نہیں تو اللہ کی قسم میں ان کے لیے حجر کا حکم جاری کر دوں گا۔ ام المؤمنین نے کہا کیا اس نے یہ الفاظ کہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جی ہاں۔ فرمایا پھر میں اللہ سے نذر کرتی ہوں کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے اب کبھی نہیں بولوں گی۔ اس کے بعد جب ان کے قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا۔ تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے ان سے سفارش کی گئی (کہ انہیں معاف فرما دیں) ام المؤمنین نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اس کے بارے میں کوئی سفارش نہیں مانوں گی اور اپنی نذر نہیں توڑوں گی۔ جب یہ قطعی تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گئی تو انہوں نے مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث رضی اللہ عنہم سے اس سلسلے میں بات کی وہ دونوں بنی زہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کسی طرح تم لوگ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں داخل کرا دو کیونکہ ان کے لیے یہ جائز نہیں کہ میرے ساتھ صلہ رحمی کو توڑنے کی قسم کھائیں چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن دونوں اپنی چادروں میں لپٹے ہوئے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو اس میں ساتھ لے کر آئے اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے اندر آنے کی اجازت چاہی اور عرض کی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا آ جاؤ۔ انہوں نے عرض کیا ہم سب؟ کہا ہاں، سب آ جاؤ۔ ام المؤمنین کو اس کا علم نہیں تھا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ان کے ساتھ ہیں۔ جب یہ اندر گئے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پردہ ہٹا کر اندر چلے گئے اور ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے لپٹ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے (کہ معاف کر دیں، یہ ام المؤمنین کے بھانجے تھے) مسور اور عبدالرحمٰن بھی ام المؤمنین کو اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بولیں اور انہیں معاف کر دیں ان حضرات نے یہ بھی عرض کیا کہ جیسا کہ تم کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلق توڑنے سے منع کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ والی حدیث یاد دلانے لگے اور یہ کہ اس میں نقصان ہے تو ام المؤمنین بھی انہیں یاد دلانے لگیں اور رونے لگیں اور فرمانے لگیں کہ میں نے تو قسم کھا لی ہے؟ اور قسم کا معاملہ سخت ہے لیکن یہ بزرگ لوگ برابر کوشش کرتے رہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کر لی اور اپنی قسم (توڑنے) کی وجہ سے چالیس غلام آزاد کئے۔ اس کے بعد جب بھی آپ یہ قسم یاد کرتیں تو رونے لگتیں اور آپ کا دوپٹہ آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔

Narrated `Aisha: (the wife of the Prophet) that she was told that `Abdullah bin Az-Zubair (on hearing that she was selling or giving something as a gift) said, "By Allah, if `Aisha does not give up this, I will declare her incompetent to dispose of her wealth." I said, "Did he (`Abdullah bin Az-Zubair) say so?" They (people) said, "Yes." `Aisha said, "I vow to Allah that I will never speak to Ibn Az-Zubair." When this desertion lasted long, `Abdullah bin Az-Zubair sought intercession with her, but she said, "By Allah, I will not accept the intercession of anyone for him, and will not commit a sin by breaking my vow." When this state of affairs was prolonged on Ibn Az-Zubair (he felt it hard on him), he said to Al- Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth, who were from the tribe of Bani Zahra, "I beseech you, by Allah, to let me enter upon `Aisha, for it is unlawful for her to vow to cut the relation with me." So Al-Miswar and `Abdur-Rahman, wrapping their sheets around themselves, asked `Aisha's permission saying, "Peace and Allah's Mercy and Blessings be upon you! Shall we come in?" `Aisha said, "Come in." They said, "All of us?" She said, "Yes, come in all of you," not knowing that Ibn Az- Zubair was also with them. So when they entered, Ibn Az-Zubair entered the screened place and got hold of `Aisha and started requesting her to excuse him, and wept. Al-Miswar and `Abdur Rahman also started requesting her to speak to him and to accept his repentance. They said (to her), "The Prophet forbade what you know of deserting (not speaking to your Muslim Brethren), for it is unlawful for any Muslim not to talk to his brother for more than three nights (days)." So when they increased their reminding her (of the superiority of having good relation with Kith and kin, and of excusing others' sins), and brought her down to a critical situation, she started reminding them, and wept, saying, "I have made a vow, and (the question of) vow is a difficult one." They (Al-Miswar and `Abdur-Rahman) persisted in their appeal till she spoke with `Abdullah bin Az- Zubair and she manumitted forty slaves as an expiation for her vow. Later on, whenever she remembered her vow, she used to weep so much that her veil used to become wet with her tears.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 98


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6073  
6073. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے بن طفیل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بیچی یا خیرات کی، انہیں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق کہا ہے: اللہ کی قسم! ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (خرید فروخت کرنے یا خیرات کرنے سے) اگر باز نہ آئیں تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا عبداللہ نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ میں ابن زبیر سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد جب قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں سفارش کرائی لیکن انہوں نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! میں اس کے متعلق کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور اپنی نذر ختم نہیں کروں گی جب عبداللہ بن ذبیر رضی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6073]
حدیث حاشیہ:
(حجر کے معنی یہ کہ حاکم کسی شخص کو کم عقل یا ناقابل سمجھ کر یہ حکم دے دے کہ اس کا کوئی تصرف بیع ہبہ وغیرہ نافذ نہ ہو گا)
اسی حدیث سے بہت سے مسائل کا ثبوت نکلتا ہے اور یہ بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات پردہ کے ساتھ غیر محرم مردوں سے بوقت ضرورت بات کر لیتی تھیں اور پردہ کے ساتھ ان لوگوں کو گھر میں بلا لیتی تھیں۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ دو بگڑے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لئے ہر مناسب تدبیر کرنے چاہئے اور یہ بھی کہ غلط قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑنا ہی ضروری ہے۔
وغیرہ وغیرہ "فھجرتھا منه کانت تأدیبا له وھذا من باب إباحة الھجران لمن عصی۔
میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ترک تعلق عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لئے تعلیم وتادیب کے لئے تھا اور عاصیوں سے ایسا ترک تعلق مباح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6073   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6073  
6073. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مادری بھتیجے بن طفیل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کوئی چیز بیچی یا خیرات کی، انہیں خبر پہنچی کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کے متعلق کہا ہے: اللہ کی قسم! ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (خرید فروخت کرنے یا خیرات کرنے سے) اگر باز نہ آئیں تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا عبداللہ نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ میں ابن زبیر سے کبھی بات نہیں کروں گی۔ اس کے بعد جب قطع تعلقی پر عرصہ گزر گیا تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے ہاں سفارش کرائی لیکن انہوں نے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! میں اس کے متعلق کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور اپنی نذر ختم نہیں کروں گی جب عبداللہ بن ذبیر رضی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6073]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو بیٹے کی حیثیت دی تھی اور وہ آپ کے حقیقی بھانجے بھی تھے۔
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے زیادہ محبت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے تھی اور وہ بھی تمام لوگوں سے بڑھ کر آپ سے حسن سلوک کرتے تھے۔
(2)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ اللہ تعالیٰ کے مال سے جو بھی ان کے ہاتھ آتا اسے فی سبیل اللہ خرچ کر دیتیں حتی کہ انھوں نے انفاق فی سبیل اللہ کے لیے مکہ مکرمہ میں ایک حویلی فروخت کر دی۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا افسوس ہوا تو انھوں نے کہہ دیا کہ اگر آپ نے اپنیدریا دلی پر نظر ثانی نہ کی تو میں ان کے تصرفات پر پابندی لگا دوں گا۔
بس اتنی بات پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ناراض ہوئیں اور بات چیت نہ کرنے کا عہد کر لیا۔
ایک مہربان ماں کے لیے اپنے بیٹے کو ادب سکھانے کی خاطر ایسا کرنا ضروری بھی تھا، لیکن یہ قطع تعلقی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو بہت گراں گزری۔
انھوں نے اپنی ماں کو راضی کرنے کے لیے بہت کوشش کی، مہاجرین کو درمیان میں لائے لیکن معاملہ جوں کا توں رہا، آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتے داروں کو درمیان میں لائے تو معاملہ حل ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بہت لحاظ رکھتی تھیں۔
ان حضرات کی وساطت سے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچ گئے۔
آخر کار فرمانبردار بیٹے نے اپنی ماں کو راضی کر ہی لیا۔
نذر کا کفارہ دینے کے لیے دس غلام بھیجے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں آزاد کر دیا۔
غلاموں کو آزاد کرتے کرتے ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کاش! میں کوئی کام کرنے کی نذر مان لیتی، جب نذر ختم ہوتی تو میں وہ کام کر کے فارغ ہو جاتی۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3505) (3)
بہرحال ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کے لیے ہر تدبیر بروئے کار لانی چاہیے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نا مناسب قسم کو کفارہ ادا کر کے توڑنا ضروری ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ترک تعلق حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی تعلیم وتأدیب کے لیے تھا اور خطا کار حضرات سے ایسا ترک تعلق جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوشل بائیکاٹ فرمایا تھا۔
(فتح الباري: 610/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6073   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.