الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
5. بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالنِّدَاءِ:
5. باب: اس بیان میں کہ اذان بلند آواز سے ہونی چاہیے۔
(5) Chapter. Raising the voice in pronouncing the Adhan.
حدیث نمبر: Q609
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال عمر بن عبد العزيز: اذن اذانا سمحا وإلا فاعتزلنا.وَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: أَذِّنْ أَذَانًا سَمْحًا وَإِلَّا فَاعْتَزِلْنَا.
‏‏‏‏ عمر بن عبدالعزیز خلیفہ نے (اپنے مؤذن سے) کہا کہ سیدھی سادھی اذان دیا کر، ورنہ ہم سے علیحدہ ہو جا۔

حدیث نمبر: 609
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الرحمن بن ابي صعصعة الانصاري، ثم المازني عن ابيه، انه اخبره، ان ابا سعيد الخدري، قال له:" إني اراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت في غنمك او باديتك فاذنت بالصلاة فارفع صوتك بالنداء، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة"، قال ابو سعيد: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَة الْأَنْصَارِيِّ، ثُمَّ الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ لَهُ:" إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الْغَنَمَ وَالْبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ بِالصَّلَاةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ لَا يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلَا إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ انصاری سے خبر دی، پھر عبدالرحمٰن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

Narrated `Abdur-Rahman: Abu Sa`id Al-Khudri told my father, "I see you liking sheep and the wilderness. So whenever you are with your sheep or in the wilderness and you want to pronounce Adhan for the prayer raise your voice in doing so, for whoever hears the Adhan, whether a human being, a jinn or any other creature, will be a witness for you on the Day of Resurrection." Abu Sa`id added, "I heard it (this narration) from Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 583


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 71  
´موذن کی فضیلت`
«. . . 392- وبه: عن أبيه أنه أخبره أن أبا سعيد الخدري قال له: إني أراك تحب الغنم والبادية، فإذا كنت فى غنمك أو باديتكم فأذنت بالصلاة فارفع صوتك، فإنه لا يسمع مدى صوت المؤذن جن ولا إنس ولا شيء إلا شهد له يوم القيامة. قال أبو سعيد الخدري: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم. . . .»
. . . عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ الانصاری المازنی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تم بکریوں اور جنگل کو پسند کرتے ہو، پس اگر تم اپنی بکریوں یا جنگل میں ہو پھر تم نماز کے لئے اذان کہو تو آواز بلند کرنا کیونکہ مؤذن کی آواز جہان تک پہنچتی ہے اسے جن، انسان یا جو چیز بھی سنے تو وہ قیامت کے دن اس کے لئے گواہی دے گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 71]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 609، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ مؤذن کے لئے یہ بڑی فضیلت ہے کہ قیامت کے دن اُس کی آواز سننے والی ہر چیز اس کے حق میں گواہی دے گی۔
➋ اگر ایک ہی حدیث صحیح و حسن سندوں کے ساتھ کسی صحابی سے مرفوعاً اور موقوفاً مروی ہو تو دونوں سندیں صحیح وحسن ہوتی ہیں۔
➌ اکیلے آدمی کے لئے بھی بہتر یہی ہے کہ اذان دے کر نماز پڑھے۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المؤذنون أطول الناس أعناقًا يوم القيامة۔» قیامت کے دن اذان دینے والوں کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی یعنی ان کی بہت زیادہ عزت ہو گی۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 387، دارالسلام: 852]
➎ مؤذن کی آواز جتنی بلند ہو گی اتنا ثواب زیادہ ہو گا۔
➏ مسجد میں بہترین قسم کا لاؤڈ سپیکر نصب کر کے اول وقت اذان دینی چاہئے۔
➐ سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دو وقتوں میں آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بہت کم دعا رد ہوتی ہے: نماز کے لئے اذان کے وقت اور اللہ کے راستے میں صف بندی کے وقت۔ [الموطأ 1/70 ح150، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 392   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 609  
609. حضرت عبداللہ بن عبدالرحمٰن ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا تھا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے تم جب اپنی بکریوں کے ہمراہ جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کو جو کوئی جن و انس یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔ حضڑت ابوسعید خدری ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:609]
حدیث حاشیہ:
حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز ؒ کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔
اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔
پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔
بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔
حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 609   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:609  
609. حضرت عبداللہ بن عبدالرحمٰن ؓ سے روایت ہے، ان سے حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا تھا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے تم جب اپنی بکریوں کے ہمراہ جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کو جو کوئی جن و انس یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔ حضڑت ابوسعید خدری ؓ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:609]
حدیث حاشیہ:
(1)
اذان بآواز بلند کہنا اپنے اندر بڑی فضیلت رکھتا ہے۔
یہ حکم جنگل کی اذان میں بھی وارد ہے۔
اگر وہاں انسان نہ ہوں، تب بھی وہاں جہاں تک آواز پہنچے گی اس کو سننے والے قیامت کے دن گواہی دیں گے، لیکن اس بلند آواز میں نغمہ سرائی کا پہلو بالکل نہیں ہونا چاہیے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اکیلا آدمی اذان دے سکتا ہے۔
سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص جنگل میں نماز پڑھے تو اس کے دائیں بائیں فرشتے کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو اس کے پیچھے پہاڑوں کے برابر کثیر تعداد میں فرشتے جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔
(موطأ إمام مالك، باب النداء في السفر، حدیث: 164) (2)
ایک حدیث میں ہے کہ نماز باجماعت کا ثواب پچیس گنا ہے اور اگر جنگل میں رکوع وسجود اچھی طرح کرکے پڑھے تو اسے پچاس گنا ثواب ملے گا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 560)
لیکن یہ اجرو ثواب کسی اتفاقی صورت کے لیے ہے۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بلا وجہ آبادی کی مساجد کو چھوڑ کر زیادہ ثواب لینے کی نیت سے کسی جنگل کا رخ کرے اور وہاں نمازیں شروع کردے۔
اگر ایسا کرنا صحیح ہوتا تو اسلاف سے ضرور منقول ہوتا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 609   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.