الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
115. بَابُ كُنْيَةِ الْمُشْرِكِ:
115. باب: مشرک کی کنیت کا بیان۔
(115) Chapter. The Kunyah of Al-Mushrik.
حدیث نمبر: 6208
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، حدثنا عبد الملك، عن عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن عباس بن عبد المطلب، قال: يا رسول الله، هل نفعت ابا طالب بشيء؟ فإنه كان يحوطك ويغضب لك، قال:" نعم، هو في ضحضاح من نار، لولا انا لكان في الدرك الاسفل من النار".حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ؟ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، قَالَ:" نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ، لَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن حارث بن نوفل نے اور ان سے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے جناب ابوطالب کو ان کی وفات کے بعد کوئی فائدہ پہنچایا، وہ آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے لوگوں پر غصہ ہوا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ دوزخ میں اس جگہ پر ہیں جہاں ٹخنوں تک آگ ہے اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نیچے کے طبقے میں رہتے۔

Narrated `Abdullah bin Al-Harith bin Naufal: `Abbas bin `Abdul Muttalib said, "O Allah's Apostle! Did you benefit Abu Talib with anything as he used to protect and take care of you, and used to become angry for you?" The Prophet said, "Yes, he is in a shallow place of Fire. But for me he would have been in the lowest part of the Fire."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 227

   صحيح البخاري6208عباس بن عبد المطلبهو في ضحضاح من نار لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
   صحيح البخاري6572عباس بن عبد المطلبهل نفعت أبا طالب بشيء
   صحيح البخاري3883عباس بن عبد المطلبهو في ضحضاح من نار ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
   صحيح مسلم510عباس بن عبد المطلبهو في ضحضاح من نار ولولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار
   صحيح مسلم511عباس بن عبد المطلبوجدته في غمرات من النار فأخرجته إلى ضحضاح
   مسندالحميدي465عباس بن عبد المطلبنعم وجدته في غمرات من النار فأخرجته إلى ضحضاح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3883  
´ ابوطالب کا واقعہ `
«. . . حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّكَ فَإِنَّهُ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، قَالَ: " هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ , وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرَكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ " . . . .»
. . . عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا آپ اپنے چچا (ابوطالب) کے کیا کام آئے کہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غصہ ہوتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسی وجہ سے) وہ صرف ٹخنوں تک جہنم میں ہیں اگر میں ان کی سفارش نہ کرتا تو وہ دوزخ کی تہ میں بالکل نیچے ہوتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/بَابُ قِصَّةُ أَبِي طَالِبٍ: 3883]

تخريج الحديث:
[125۔ البخاري فى: 63 كتاب مناقب الانصار: 40 باب قصة ابي طالب 3883، مسلم 209]
لغوی توضیح:
«يَحُوْطُكَ» وہ آپ کو بچایا کرتے تھے۔
«الضَّحْضَاح» جو پانی زمین پر بہہ کر ٹخنوں تک پہنچ جائے، یہاں اس مقدار کو «استعارةً» آگ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
«الدَّرْك» طبقہ۔
«الْاَسْفَل» سب سے نچلا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 125   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6208  
6208. حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچایا کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتا تھا اور آپ کی خاطر لوگوں سے ناراض ہوتا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں میری وجہ سے وہ اس جگہ میں ہے جہاں ٹخنوں تک آگ ہے۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقے میں ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6208]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''امید ہے کہ اسے میری سفارش کی وجہ سے جہنم میں ایسی جگہ پر رکھا جائے جہاں اس کے ٹخنوں تک آگ ہو گی جس سے اس کے دماغ کا مغز جوش مارے گا۔
'' (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6564) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان دونوں حدیثوں سے ثابت کیا ہے کہ مشرکین و کفار کو ان کی کنیت سے یاد کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں عبداللہ بن ابی کی کنیت ابو حباب اور دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کی کنیت ابو طالب ذکر ہوئی ہے۔
ان کی شہرت اسی کنیت سے تھی، اس لیے انہیں نام کے بجائے کنیت سے یاد کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ابو لہب کو اس کی کنیت سے ذکر کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا۔
(اللھب: 111: 1)
وہ ابو لہب کی کنیت سے مشہور تھا، اس لیے اس کا ذکر کر دیا گیا۔
ایسا کرنا ان کے احترام یا وقار کی وجہ سے نہیں بلکہ شہرت کی وجہ سے ہے۔
(3)
واضح رہے کہ ابو طالب کا نام عبد مناف اور ابو لہب کا نام عبدالعزیٰ تھا۔
(فتح الباري: 726/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6208   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.