الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
41. بَابُ هَلْ يُصَلِّي الإِمَامُ بِمَنْ حَضَرَ وَهَلْ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَطَرِ:
41. باب: جو لوگ (بارش یا اور کسی آفت میں) مسجد میں آ جائیں تو کیا امام ان کے ساتھ نماز پڑھ لے اور برسات میں جمعہ کے دن خطبہ پڑھے یا نہیں؟
(41) Chapter. Can the Imam offer the Salat (prayer) with only those who are present (for the prayer)? And can he deliver a Khutba (religious talk) on Friday if it is raining?
حدیث نمبر: 668
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال: حدثنا حماد بن زيد، قال: حدثنا عبد الحميد صاحب الزيادي، قال: سمعت عبد الله بن الحارث، قال:" خطبنا ابن عباس في يوم ذي ردغ، فامر المؤذن لما بلغ حي على الصلاة، قال: قل الصلاة في الرحال، فنظر بعضهم إلى بعض فكانهم انكروا، فقال: كانكم انكرتم هذا، إن هذا فعله من هو خير مني يعني النبي صلى الله عليه وسلم، إنها عزمة وإني كرهت ان احرجكم"، وعن حماد، عن عاصم، عن عبد الله بن الحارث، عن ابن عباس نحوه، غير انه قال: كرهت ان اؤثمكم، فتجيئون تدوسون الطين إلى ركبكم.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ، قَالَ:" خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ ذِي رَدْغٍ، فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ لَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: قُلِ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ، فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَكَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا، فَقَالَ: كَأَنَّكُمْ أَنْكَرْتُمْ هَذَا، إِنَّ هَذَا فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّهَا عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ"، وَعَنْ حَمَّادٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: كَرِهْتُ أَنْ أُؤَثِّمَكُمْ، فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إِلَى رُكَبِكُمْ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصریٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ «حى على الصلاة‏» پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو «الصلاة في الرحال» کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو (حیرت کی وجہ سے) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انہوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بیشک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ «حى على الصلاة‏» کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انہوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو۔

Narrated `Abdullah bin Al-Harith: Ibn `Abbas addressed us on a (rainy and) muddy day and when the Mu'adh-dhin said, "Come for the prayer" Ibn `Abbas ordered him to say, "Pray in your homes." The people began to look at one another with surprise as if they did not like it. Ibn `Abbas said, "It seems that you thought ill of it but no doubt it was done by one who was better than I (i.e. the Prophet). It (the prayer) is a strict order and I disliked to bring you out." Ibn `Abbas narrated the same as above but he said, "I did not like you to make you sinful (in refraining from coming to the mosque) and to come (to the mosque) covered with mud up to the knees."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 637

   صحيح البخاري668عبد الله بن عباسالصلاة في الرحال
   صحيح البخاري901عبد الله بن عباسصلوا في بيوتكم
   صحيح مسلم1604عبد الله بن عباسصلوا في بيوتكم
   سنن أبي داود1066عبد الله بن عباسصلوا في بيوتكم
   سنن ابن ماجه938عبد الله بن عباسصلوا في رحالكم
   سنن ابن ماجه939عبد الله بن عباسليصلوا في بيوتهم
   المعجم الصغير للطبراني157عبد الله بن عباس صلوا فى رحالكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1066  
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
محمد بن سیرین کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا: جب تم «أشهد أن محمدا رسول الله» کہنا تو اس کے بعد «حي على الصلاة» نہ کہنا بلکہ اس کی جگہ «صلوا في بيوتكم» لوگو! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو کہنا، لوگوں نے اسے برا جانا تو انہوں نے کہا: ایسا اس ذات نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے)، بیشک جمعہ واجب ہے، لیکن مجھے یہ بات گوارہ نہ ہوئی کہ میں تم کو کیچڑ اور پانی میں (جمعہ کے لیے) آنے کی زحمت دوں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1066]
1066۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری میں اس حدیث کا عنوان ہے: بارش کی وجہ سے اگر جمعہ میں حاضر نہ ہو تو رخصت ہے۔ [صحيح بخاري۔ حديث: 901]
➋ آجکل ہلکی پھلکی بارش میں تو مساجد میں آنا جانا مشکل نہیں، البتہ شدید یا مسلسل بارش میں اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
➌ ایسے موقع پر موذن اذان میں «حي على الصلوة» اور «حي على الفلاح» کی جگہ «ألا صلو فى الر حال» کے الفاظ کہے۔ جس کا مطلب ہے لوگو! گھروں میں نماز پڑھ لو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1066   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث939  
´بارش کی رات میں باجماعت نماز کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن حارث بن نوفل سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مؤذن کو جمعہ کے دن اذان دینے کا حکم دیا، اور یہ بارش کا دن تھا، تو مؤذن نے کہا: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله»، پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: «حي على الصلاة، حي على الفلاح» کی جگہ لوگوں میں اعلان کر دو کہ وہ اپنے گھروں میں نماز ادا کر لیں، لوگوں نے یہ سنا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہنے لگے آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے کہا: یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے، جو مجھ سے افضل تھی، اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 939]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ (صلو فی الرحال)
کے کلمات (حی علی الصلاة)
اور (حی علی الفلاح)
کے عوض کہے جایئں گے۔

(2)
اسلام آسانی والا دین ہے۔
اس میں بہت سی رخصتیں موجود ہیں۔
اس کے باوجود اس کے احکام پر عمل میں کوتاہی کرنا ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔

(3)
جو مسئلہ کبھی کبھار سامنے آتا ہے اکثر لوگ اس سے واقف نہیں ہوتے۔
ان کے اعتراض پر ناراض ہونے کی بجائے مسئلہ کی وضاحت کردینی چاہیے۔

(4)
بارش کی وجہ سے گھروں میں نماز کی اجازت صرف پنجگانہ نمازوں کےلئے ہی نہیں بلکہ جمعے کی نماز کا بھی یہی حکم ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 939   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 668  
668. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔ چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:668]
حدیث حاشیہ:
شارحین بخاری لکھتے ہیں:
مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔
اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔
بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔
بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 668   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:668  
668. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے: "لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے: گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔ چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔ عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:668]
حدیث حاشیہ:
(1) (اَلَا صلوا في الرحال)
میں فعل امر ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ بارش کے وقت گھروں میں نماز پرھنا ضروری ہے،مسجد میں جماعت کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمادی کہ موجودہ امروجوب کےلیے نہیں بلکہ اگر امام مسجد میں موجود لوگوں کو باجماعت نماز پڑھا دے تو جائز ہے۔
(2)
واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے:
٭بارش کے وقت امام کا حاضرین کو نماز باجماعت پڑھانا٭جمعے کے دن بوقت بارش خطبۂ جمعہ کا اہتمام کرنا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث میں عنون کے ہر دو اجزاء سے مطابقت موجود ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے باوجود خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے انھیں نماز باجماعت بھی پڑھائی۔
(3)
حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان سے پہلے خطبہ دیا،حالانکہ خطبے کاوقت اذان کے بعد ہے پہلے نہیں؟اس کا جواب یہ ہے اس مقام پر فعل سے مراد ارادۂفعل ہے،یعنی جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خطبہ دینے کا ارادہ کیا تو اس وقت مؤذن کو ہدایت کی کہ اذان میں(اَلاَ صلوا في الرحال)
کہہ دے۔
(حاشیۃ السندی: 1/123)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الكلام في الأذان (العبادات)
2. ترك الجمعة للبرد والمطر (العبادات)
موضوعات 1. اذان میں گفتگو کرنا (عبادات)
2. سردی اور بارش کی وجہ سے جمعہ چھوڑنا (عبادات)
Topics 1. Talking during calling for prayer (Prayers/Ibadaat)
2. Missing Jumma Prayer due to rain or cold weather (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/668 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بارش اور کیچڑ کے دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور مؤذن کو حکم دیا کہ جب وہ حي على الصلاة پر پہنچے تو اس طرح کہے:
"لوگو! اپنی اپنی قیام گاہوں پر نماز پڑھ لو۔
" یہ سن کر وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے:
گویا انہوں نے اسے برا محسوس کیا۔
حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا خیال کیا ہے؟ حالانکہ یہ کام اس شخصیت نے کیا ہے جو مجھ سے کہیں بہتر تھی، یعنی نبی ﷺ نے۔
چونکہ اذان سے مسجد میں آنا ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے میں نے اچھا نہیں سمجھا کہ تمہیں تکلیف میں ڈالوں۔
عاصم کی روایت بھی اسی طرح ہے، البتہ اس کے آخری الفاظ اس طرح ہیں کہ عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا:
میں نہیں چاہتا کہ تمہیں گناہ میں مبتلا کروں، تم تنگ دلی کے ساتھ گھٹنوں تک کیچڑ کو روندتے ہوئے مسجد میں آؤ۔
حدیث حاشیہ:
(1) (اَلَا صلوا في الرحال)
میں فعل امر ہے جو عام طور پر وجوب کے لیے ہوتا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ بارش کے وقت گھروں میں نماز پرھنا ضروری ہے،مسجد میں جماعت کا اہتمام نہیں ہونا چاہیے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمادی کہ موجودہ امروجوب کےلیے نہیں بلکہ اگر امام مسجد میں موجود لوگوں کو باجماعت نماز پڑھا دے تو جائز ہے۔
(2)
واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے:
٭بارش کے وقت امام کا حاضرین کو نماز باجماعت پڑھانا٭جمعے کے دن بوقت بارش خطبۂ جمعہ کا اہتمام کرنا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث میں عنون کے ہر دو اجزاء سے مطابقت موجود ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش کے باوجود خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا اور جو لوگ وہاں موجود تھے انھیں نماز باجماعت بھی پڑھائی۔
(3)
حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اذان سے پہلے خطبہ دیا،حالانکہ خطبے کاوقت اذان کے بعد ہے پہلے نہیں؟اس کا جواب یہ ہے اس مقام پر فعل سے مراد ارادۂفعل ہے،یعنی جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خطبہ دینے کا ارادہ کیا تو اس وقت مؤذن کو ہدایت کی کہ اذان میں(اَلاَ صلوا في الرحال)
کہہ دے۔
(حاشیۃ السندی: 1/123)
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس ؓ نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔
پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔
لوگ ایک دوسرے کو (حیرت کی وجہ سے)
دیکھنے لگے۔
جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا۔
ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔
ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ ﷺ نے بھی کیا تھا۔
بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں (اور تکلیف میں مبتلا کروں)
اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس ؓ سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو حدیث حاشیہ:
شارحین بخاری لکھتے ہیں:
مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔
اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔
بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔
بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Al-
Harith (RA)
:
Ibn Abbas (RA)
addressed us on a (rainy and)
muddy day and when the Mu'adh-
dhin said, "Come for the prayer" Ibn 'Abbas (RA)
ordered him to say, "Pray in your homes." The people began to look at one another with surprise as if they did not like it. Ibn 'Abbas (RA)
said, "It seems that you thought ill of it but no doubt it was done by one who was better than I (i.e. the Prophet)
. It (the prayer)
is a strict order and I disliked bringing you out." Ibn 'Abbas (RA)
narrated the same as above but he said, "I did not like you to make you sinful (in refraining from coming to the mosque)
and to come (to the mosque)
covered with mud up to the knees." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
شارحین بخاری لکھتے ہیں:
مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔
اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔
بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔
بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم678٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
668٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
628٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
668٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
637٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
660٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
668٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
668١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
668 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ جب بارش ہورہی ہو یا کوئی ایسا عذر ہو جس کی وجہ سے جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت ہو لیکن کچھ لوگ عزیمت پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں آجائیں تو امام کو چاہیے کہ ان کے لیے نماز باجماعت کا اہتمام کرے، اس مین کوئی کراہت نہیں۔
گویا(اَلَا صلوا في الرحال)
کہنے کی بنا پر جو گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم ہے، وہ استحباب کے لیے نہیں بلکہ صرف اباحت کے لیے ہے۔
(فتح الباری: 2/205)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 668   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.