الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمانوں سے لڑتے ہیں
The Book of Al-Maharbeen
27. بَابُ إِذَا أَقَرَّ بِالْحَدِّ وَلَمْ يُبَيِّنْ، هَلْ لِلإِمَامِ أَنْ يَسْتُرَ عَلَيْهِ:
27. باب: جب کوئی شخص حد (والے گناہ) کا اقرار غیر واضح طور پر کرے تو کیا امام کو اس کی پردہ پوشی کرنی چاہئے۔
(27) Chapter. If a person confesses that he has committed a sin that is punishement with one of the legal punishement but does not specify what sin it has been, can the ruler screen it for him?
حدیث نمبر: 6823
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا عبد القدوس بن محمد، حدثني عمرو بن عاصم الكلابي، حدثنا همام بن يحيى، حدثنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:" كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءه رجل، فقال: يا رسول الله، إني اصبت حدا فاقمه علي، قال: ولم يساله عنه، قال: وحضرت الصلاة فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم الصلاة، قام إليه الرجل، فقال: يا رسول الله، إني اصبت حدا، فاقم في كتاب الله، قال: اليس قد صليت معنا؟ قال: نعم، قال: فإن الله قد غفر لك ذنبك او قال حدك".حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ الْكِلَابِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، قَالَ: وَلَمْ يَسْأَلْهُ عَنْهُ، قَالَ: وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْ فِيَّ كِتَابَ اللَّهِ، قَالَ: أَلَيْسَ قَدْ صَلَّيْتَ مَعَنَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ ذَنْبَكَ أَوْ قَالَ حَدَّكَ".
مجھ سے عبدالقدوس بن محمد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عاصم کلابی نے بیان کیا، ان سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ ایک صاحب کعب بن عمرو آئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے۔ آپ مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بیان کیا کہ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور ان صاحب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو وہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے آپ کتاب اللہ کے حکم کے مطابق مجھ پر حد جاری کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کیا تم نے ابھی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تیرا گناہ معاف کر دیا یا فرمایا کہ تیری غلطی یا حد (معاف کر دی)۔

Narrated Anas bin Malik: While I was with the Prophet a man came and said, "O Allah's Apostle! I have committed a legally punishable sin; please inflict the legal punishment on me'.' The Prophet did not ask him what he had done. Then the time for the prayer became due and the man offered prayer along with the Prophet , and when the Prophet had finished his prayer, the man again got up and said, "O Allah's Apostle! I have committed a legally punishable sin; please inflict the punishment on me according to Allah's Laws." The Prophet said, "Haven't you prayed with us?' He said, "Yes." The Prophet said, "Allah has forgiven your sin." or said, "....your legally punishable sin."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 82, Number 812

   صحيح البخاري6823أنس بن مالكأليس قد صليت معنا قال نعم قال فإن الله قد غفر لك
   صحيح مسلم7006أنس بن مالكهل حضرت الصلاة معنا قال نعم قال قد غفر لك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6823  
6823. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے پاس تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ اسے مجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: تیری حد معاف کر دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6823]
حدیث حاشیہ:
غیرواضح اقرار پر آپ نے اس کو یہ بشارت پیش فرمائی آج بھی یہ بشارت قائم ہے۔
اگر کوئی شخص امام کے سامنے گول مول بیان کرے کہ میں نے حدی جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔
تشریح:
بعضوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ اگر کوئی حدی گناہ کر کے توبہ کرتا ہوا امام یا حاکم کے سامنے آئے تو اس پر سے حد ساقط ہو جاتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6823   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6823  
6823. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کے پاس تھا کہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے حاضر ہوکر کہا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو چکی ہے، آپ اسے مجھ پر جاری فرمائیں۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق مزید پوچھ گچھ نہیں کی۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا تو اس شخص نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو وہ شخص آپ کے پاس گیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! مجھ پر حد واجب ہو گئی ہے، آپ کتاب اللہ کے مطابق اسے مجھ پر جاری کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟ اس نے کہا: ہاں پڑھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالٰی نے تیرا گناہ معاف کر دیا ہے، یا فرمایا: تیری حد معاف کر دی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6823]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعے کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ آدمی نے کسی عورت سے بوس وکنار کیا تھا اور اس واقعے میں ہے کہ اس نے کوئی قابل حد عمل کیا تھا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ دو واقعات ہیں اور انھوں نے ان واقعات سے دو الگ الگ حکم ثابت کیے ہیں۔
(2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مبہم طریقے سے حد کا اعتراف کرتا ہے تو قاضی کو چاہیے کہ اس پر پردہ ڈالے، اس کی کرید نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا تجسس ہے جس کے متعلق قرآن نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس واقعے کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم گھر سے نماز کے ارادے سے نکلے تھے تو تم نے اچھی طرح وضو کیا تھا، پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز باجماعت ادا کی تو ان کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھاری حد یا تمھارے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔
(صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 7007(2765)
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق لوگوں کے تین موقف لکھے ہیں:
٭جرم کے واضح اعتراف اور غیر مبہم تعین کے بعد واجب ہوتی ہے جبکہ اقرار کرنے والا بار بار اس کا اصرار بھی کرے۔
٭مذکورہ واقعہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے مطلع کیا گیا تھا۔
٭حد کا عمل کرنے کے بعد (معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے)
اگر توبہ کرلی جائے تو اس کی بدولت حد ساقط ہو جاتی ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آخری موقف کو ترجیح دی ہے۔
(فتح الباري: 165/12)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی غیر واضح بیان دے کہ میں نے حد والا جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ گناہوں کی بخشش کی بشارت بھی دی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6823   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.