الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
17. بَابُ إِذَا قَتَلَ نَفْسَهُ خَطَأً فَلاَ دِيَةَ لَهُ:
17. باب: اگر کسی نے غلطی سے اپنے آپ ہی کو مار ڈالا تو اس کی کوئی دیت نہیں ہے۔
(17) Chapter. If someone kills himself by mistake then there is no Diya (blood-money) for him.
حدیث نمبر: 6891
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة، قال:" خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، فقال رجل منهم: اسمعنا يا عامر من هنيهاتك، فحدا بهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من السائق؟، قالوا: عامر، فقال: رحمه الله، فقالوا: يا رسول الله، هلا امتعتنا به، فاصيب صبيحة ليلته، فقال القوم: حبط عمله قتل نفسه، فلما رجعت وهم يتحدثون ان عامرا حبط عمله، فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: يا نبي الله فداك ابي وامي، زعموا ان عامرا حبط عمله، فقال كذب من قالها، إن له لاجرين اثنين: إنه لجاهد مجاهد، واي قتل يزيده عليه".حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: أَسْمِعْنَا يَا عَامِرُ مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَحَدَا بِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ السَّائِقُ؟، قَالُوا: عَامِرٌ، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَّا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، فَأُصِيبَ صَبِيحَةَ لَيْلَتِهِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: حَبِطَ عَمَلُهُ قَتَلَ نَفْسَهُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ وَهُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَقَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَهَا، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ اثْنَيْنِ: إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، وَأَيُّ قَتْلٍ يَزِيدُهُ عَلَيْهِ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے، اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ جماعت کے ایک صاحب نے کہا عامر! ہمیں اپنی حدی سنائیے۔ انہوں نے حدی خوانی شروع کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون صاحب گا گا کر اونٹوں کو ہانک رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ عامر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ ان پر رحم کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ چنانچہ عامر رضی اللہ عنہ اسی رات کو اپنی ہی تلوار سے شہید ہو گئے۔ لوگوں نے کہا کہ ان کے اعمال برباد ہو گئے، انہوں نے خودکشی کر لی (کیونکہ ایک یہودی پر حملہ کرتے وقت خود اپنی تلوار سے زخمی ہو گئے تھے) جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ عامر کے سارے اعمال برباد ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ عامر کو دوہرا اجر ملے گا وہ (اللہ کے راستہ میں) مشقت اٹھانے والے اور جہاد کرنے والے تھے اور کس قتل کا اجر اس سے بڑھ کر ہو گا؟

Narrated Salama: We went out with the Prophet to Khaibar. A man (from the companions) said, "O 'Amir! Let us hear some of your Huda (camel-driving songs.)" So he sang some of them (i.e. a lyric in harmony with the camels walk). The Prophet said, "Who is the driver (of these camels)?" They said, "Amir." The Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on him !" The people said, "O Allah's Apostle! Would that you let us enjoy his company longer!" Then 'Amir was killed the following morning. The people said, "The good deeds of 'Amir are lost as he has killed himself." I returned at the time while they were talking about that. I went to the Prophet and said, "O Allah's Prophet! Let my father be sacrificed for you! The people claim that 'Amir's good deeds are lost." The Prophet said, "Whoever says so is a liar, for 'Amir will have a double reward as he exerted himself to obey Allah and fought in Allah's Cause. No other way of killing would have granted him greater reward."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 29

   صحيح البخاري6891سلمة بن عمرورحمه الله فقالوا يا رسول الله هلا أمتعتنا به كذب من قالها إن له لأجرين اثنين إنه لجاهد مجاهد وأي قتل يزيده عليه
   صحيح البخاري6331سلمة بن عمرويرحمه الله وقال رجل من القوم يا رسول الله لولا متعتنا به أهريقوا ما فيها وكسروها قال رجل يا رسول الله ألا نهريق ما فيها ونغسلها قال أو ذاك
   صحيح مسلم4668سلمة بن عمرويرحمه الله فقال رجل من القوم وجبت يا رسول الله لولا أمتعتنا به أتينا خيبر فحاصرناهم حتى أصابتنا مخمصة شديدة ثم قال إن الله فتحها عليكم أهريقوها واكسروها فقال رجل أو يهريقوها ويغسلوها فقال أو ذاك كذب من قاله إن له لأجرين وجمع بين إصبعيه إنه لجاهد مجاهد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6891  
´اگر کسی نے غلطی سے اپنے آپ ہی کو مار ڈالا`
«. . . عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: أَسْمِعْنَا يَا عَامِرُ مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَحَدَا بِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ السَّائِقُ؟، قَالُوا: عَامِرٌ، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَّا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، فَأُصِيبَ صَبِيحَةَ لَيْلَتِهِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: حَبِطَ عَمَلُهُ قَتَلَ نَفْسَهُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ وَهُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَقَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَهَا، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ اثْنَيْنِ: إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، وَأَيُّ قَتْلٍ يَزِيدُهُ عَلَيْهِ . . .»
. . . سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ جماعت کے ایک صاحب نے کہا عامر! ہمیں اپنی حدی سنائیے۔ انہوں نے حدی خوانی شروع کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون صاحب گا گا کر اونٹوں کو ہانک رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ عامر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ ان پر رحم کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ چنانچہ عامر رضی اللہ عنہ اسی رات کو اپنی ہی تلوار سے شہید ہو گئے۔ لوگوں نے کہا کہ ان کے اعمال برباد ہو گئے، انہوں نے خودکشی کر لی (کیونکہ ایک یہودی پر حملہ کرتے وقت خود اپنی تلوار سے زخمی ہو گئے تھے) جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ عامر کے سارے اعمال برباد ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ عامر کو دوہرا اجر ملے گا وہ (اللہ کے راستہ میں) مشقت اٹھانے والے اور جہاد کرنے والے تھے اور کس قتل کا اجر اس سے بڑھ کر ہو گا؟ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ: 6891]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6891 کا باب: «بَابُ إِذَا قَتَلَ نَفْسَهُ خَطَأً فَلاَ دِيَةَ لَهُ:»

باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اس شخص کا ذکر فرمایا ہے جو خطا کے ساتھ اپنے تئیں قتل ہو جائے تو اس پر دیت نہ ہو گی، مگر تحت الباب حدیث میں خطا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں خطا کا ذکر اس لیے فرمایا کہ خطا کا معاملہ محل اختلاف ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب کے ذریعے آپ راجح کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«والذى يظهر أن البخاري إنما قيّد بالخطاء لأنه محل الخلاف، قال ابن بطال: قال الأوزاعي و أحمد و إسحاق، تجب ديته على عاقلته، فإن عاش فهي له عليه، وإن مات فهي لورثته، وقال الجمهور لا يجب فى ذالك شيئي، وقصة عامر هذه حجة لهم إذ لم ينقل أن النبى صلى الله عليه وسلم أوجب فى هذه القصة له شيئا، ولو وجب لبيّنها إذ لا يجوز تأخير البيان عن وقت الحاجة، وقر اجمعوا (على) أنه لو قطع طرفًا من أطرافه عمدًا أو خطأ لا يجب فيه شيئي.» [فتح الباري لابن حجر: 186/13]
جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خطا کی قید اس لیے ذکر فرمائی ہے کہ یہ محل اختلاف ہے، بقول ابن بطال، اوزاعی، احمد اور اسحاق کے نزدیک اس صورت میں اس کی دیت اس کی عاقلہ کے ذمہ ہے، اگر زندہ رہا تو یہ اس کے لیے ان کے ذمہ ہے، اور اگر مر گیا تو اس کے ورثا کے لیے ہے، جمہور کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی چیز واجب نہیں ہو گی، سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ان کے لیے حجت ہے، کیوں کہ یہ منقول نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ میں کوئی شئی واجب فرمائی ہو، اگر واجب فرمائی ہوتی تو اس کا ذکر (لازماً) کرتے، کیونکہ وقت حاجت سے تاخیر بیان جائز نہیں، اس امر پر اجماع ہے کہ اگر عمداً یا غلطی سے اپنا کوئی عضو قطع کر لیا تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کا انعقاد کئی ایک حکمتوں کے پیش نظر فرمایا ہے، جن کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، چنانچہ ترجمۃ الباب میں جو لفظ «خطاء» کا ہے، اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے جس کا ذکر حافظ رحمہ اللہ کرتے ہیں، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«وظن الاسماعيلي تعقب ذالك على البخاري و ليس كما ظن و إنما ساق الحديث بلفظ فارتد عليه سيفه ثم نبه على أن هذا اللفظة لم تقع فى رواية البخاري هنا فأشار إلى أنه عدل هنا عن رواية مكي . . . . . ويجاب بأن البخاري يعتمد هذه الطريق كثيرًا فيترجم بالحكم و يكون قد أورد ما يدل عليه صريحًا فى مكان آخر فلا يجب أن يعيده . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 187/13]
اسماعیلی اس بات سے امام بخاری رحمہ اللہ کا تعقب کرتے ہیں مگر ان کا یہ ظن ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ حدیث «فارتد عليه نفسه» کے الفاظ سے نقل کیے ہیں، پھر تنبیہ کی ہے کہ یہ الفاظ یہاں کی روایت بخاری میں نہیں تھے تو اشارہ کیا کہ اس نکتہ کے مدنظر مکی بن ابراہیم کی روایت سے عدول کیا ہے تو یہ اس کے وضوح کے مدنظر اولیٰ ہے، جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ اسلوب بکثرت استعمال کرتے ہیں کہ حکم کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور انہیں اس پر صریحاً دال روایت کسی اور جگہ نقل کی ہوتی ہے تو اس کا اعادہ کرنا پسند نہیں کرتے تو اسے کسی اور طریق کے حوالے سے وارد کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب میں «خطاء» کے الفاظ شامل فرمائے ہیں یہ مفہوم بھی دوسری حدیث میں موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو یہاں ذکر نہیں فرمایا تاکہ تکرار کا باعث نہ بنے، چنانچہ جس حدیث میں اس لفظ «خطاء» کی صراحت ہے وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ہی صحیح میں ذکر فرمائی جس کے الفاظ یہ ہیں:
«فلما تصافّ القوم كان سيف عامر فيه قصر فتناول به يهوديًا ليضربه و يرجع ذباب سيفه فأصاب ركبة عامر فمات منه.» [صحيح البخاري: ح: 6148]
یعنی جب لوگوں نے صف بندی کر لی تو سیدنا عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی، اس کی نوٹ پلٹ کر خود انہی کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔
چنانچہ اس منظر کے پیش نظر باب کا تعلق حدیث کے ساتھ قائم ہو گیا۔
علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«انما يتم مقصود الترجمة بذكر القصة التى مات فيها عامر، وذالك أن سيفه كان قصيرًا، فرجع إلى ركبته من ضربته، فمات منها، وقد بينه فى غير هذا الموضع.» [المتواري: ص 347]
ترجمۃ الباب کا تمام ہونا اس قصہ کے ساتھ ہے جس میں سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، جس میں یہ واقعہ ہے کہ ان کی تلوار چھوٹی تھی، جس کی وجہ سے وہ پلٹ کر آپ ہی کے گھٹنوں پر لگی جس کی پاداش میں آپ کی شہادت ہوئی، اس واقعہ کی وضاحت دوسری جگہ پر ہے۔
بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب کا حدیث سے مطابقت کے لیے اس حدیث کو یہاں پر ذکر نہیں کیا، جس میں (خطاء) کا ذکر ہے، اور وہ روایت کچھ یوں ہے کہ سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار ہی آپ پر لوٹ آئی، جبکہ آپ کفار سے لڑ رہے تھے، پس اسی کی وجہ سے آپ قتل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دیت بھی واجب نہیں فرمائی۔
مزید لکھتے ہیں:
«فاكتفى بذكر أصل الحديث للعلم لمطابقة للترجمة فى الرواية الأخرى و قدمنا غير مرة انه يعتاد ذائك كثيرًا.» [مناسبات تراجم البخاري ص 128]
اب جہاں تک تعلق ہے، ترجمۃ الباب میں لفظ «دية» کا کہ تحت الباب حدیث میں دیت کے الفاظ موجود نہیں ہے تو اس کی مناسبت حدیث کے ساتھ کس طرح سے قائم ہو گی؟ لہذا اس لفظ کی مطابقت کے لیے علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث انه صلى الله عليه وسلم لم يحكم بالدية لورثة عامر على عاقلته أو على بيت المال المسلمين.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 76/23]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کے وارثوں کو دیت دینے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔
لہذا ان تصریحات سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔
فائدہ:
مذکورہ بالا حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی ثلاثیات میں سے ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 254   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6891  
6891. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے، ان میں سے ایک آدمی نے کہا: اے عامر! ہمیں اپنے رجز سناؤ، حضرت عامر ؓ نے انہیں رجز پڑھ کر سنایا تو نبی ﷺ نے فرمایا: حدی خوانی کے ساتھ اونٹوں کو چلانے والا کون ہے؟ لوگوں نے کہا: حضرت عامر ؓ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے! لوگوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں اس (عامر ؓ) سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا، چنانچہ وہ اس رات کی صبح کے وقت شہید ہو گئے۔ لوگوں نے کہا: عامر کا عمل باطل ہو گیا ہے اس نے خود کو قتل کر لیا ہے۔ جب میں واپس آیا تو لوگ باتیں کر رہے تھے کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے ہیں۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! لوگ کہتے ہیں کہ عامر کے عمل برباد ہو گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے یہ کہا ہے غلط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6891]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ جب مسلمانوں کی فوج دشمن کے سامنے صف آراء ہوئی تو حضرت عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر حملہ کیا۔
چونکہ ان کی تلوار چھوٹی تھی، اس لیے وہ پلٹ کر ان کے گھٹنے پر لگی۔
اس سے آپ جانبر نہ ہو سکے، اس وجہ سے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ خود کشی ہے اور اس سے انسان کے عمل برباد ہو جاتے ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4196) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اس روایت سے یہ ہے کہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ خود اپنی تلوار سے شہید ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قبیلے پر دیت واجب نہیں كى اور نہ ان کے علاوہ کسی دوسرے پر ہی واجب کی۔
اگر دیت واجب کی ہوتی تو بیان کی جاتی کیونکہ یہ مقام محتاج بیان تھا اور ضرورت کے وقت بیان کی تاخیر جائز نہیں ہوتی۔
تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی نے قصداً یا سہواً اپنے اعضاء میں سے کوئی عضو کاٹ دیا تو اس کے متعلق کچھ بھی واجب نہیں ہے، البتہ امام اوزاعی اور امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ غلطی کی صورت میں اس کے قبیلے پر دیت واجب ہوگی۔
اگر وہ زندہ رہا تو دیت کا حقدار وہ خود ہوگا، بصورت دیگر اس کے ورثاء حقدار ہوں گے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کی تائید کی ہے اور اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ اس صورت میں کوئی دیت واجب نہ ہوگی۔
(فتح الباري: 272/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6891   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.