الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
8. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»:
8. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا“۔
(8) Chapter. The statement of Prophet (p.b.u.h.): “Do not renegade as disbelievers after me by striking (cutting) the neck of one another.”
حدیث نمبر: 7078
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، حدثنا قرة بن خالد، حدثنا ابن سيرين، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابي بكرة، وعن رجل آخر هو افضل في نفسي من عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابي بكرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" خطب الناس، فقال: الا تدرون اي يوم هذا؟، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: حتى ظننا انه سيسميه بغير اسمه، فقال: اليس بيوم النحر؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: اي بلد هذا؟ اليست بالبلدة الحرام؟، قلنا: بلى يا رسول الله، قال: فإن دماءكم، واموالكم، واعراضكم، وابشاركم، عليكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، الا هل بلغت؟، قلنا: نعم، قال: اللهم اشهد، فليبلغ الشاهد الغائب، فإنه رب مبلغ يبلغه لمن هو اوعى له فكان كذلك، قال: لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض، فلما كان يوم حرق ابن الحضرمي حين حرقه جارية بن قدامة، قال: اشرفوا على ابي بكرة، فقالوا: هذا ابو بكرة يراك، قال: عبد الرحمن فحدثتني امي، عن ابي بكرة، انه قال: لو دخلوا علي ما بهشت بقصبة".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ سِيرِينَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَعَنْ رَجُلٍ آخَرَ هُوَ أَفْضَلُ فِي نَفْسِي مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: أَلَا تَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ: أَلَيْسَ بِيَوْمِ النَّحْرِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟ أَلَيْسَتْ بِالْبَلْدَةِ الْحَرَامِ؟، قُلْنَا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، وَأَبْشَارَكُمْ، عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ؟، قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلِّغٍ يُبَلِّغُهُ لِمَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ فَكَانَ كَذَلِكَ، قَالَ: لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ حُرِّقَ ابْنُ الْحَضْرَمِيِّ حِينَ حَرَّقَهُ جَارِيَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: أَشْرِفُوا عَلَى أَبِي بَكْرَةَ، فَقَالُوا: هَذَا أَبُو بَكْرَةَ يَرَاكَ، قَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَحَدَّثَتْنِي أُمِّي، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: لَوْ دَخَلُوا عَلَيَّ مَا بَهَشْتُ بِقَصَبَةٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے قرہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے بیان کیا اور ایک دوسرے شخص (حمید بن عبدالرحمٰن) سے بھی سنا جو میری نظر میں عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے اچھے ہیں اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یوم النحر کو خطبہ دیا اور فرمایا تمہیں معلوم ہے یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ بیان کیا کہ (اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی سے) ہم یہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن (یوم النحر) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! آپ نے پھر پوچھا یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ البلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہارا خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہاری کھال تم پر اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ کیا میں نے پہنچا دیا؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس میرا یہ پیغام موجود لوگ غیر موجود لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بہت سے پہنچانے والے اس پیغام کو اس تک پہنچائیں گے جو اس کو زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ بعض بعض کی گردن مارنے لگو۔ پھر جب وہ دن آیا جب عبداللہ عمرو بن حضرمی کو جاریہ بن قدامہ نے ایک مکان میں گھیر کر جلا دیا تو جاریہ نے اپنے لشکر والوں سے کہا زرا ابوبکرہ کو تو جھانکو وہ کس خیال میں ہے۔ انہوں نے کہا یہ ابوبکرہ موجود ہیں تم کو دیکھ رہے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں مجھ سے میری والدہ ہالہ بنت غلیظ نے کہا کہ ابوبکرہ نے کہا اگر یہ لوگ (تین جاریہ کے لشکر والے) میرے گھر میں بھی گھس آئیں اور مجھ کو مارنے لگیں تو میں ان پر ایک بانس کی چھڑی بھی نہیں چلاؤں گا۔

Narrated Abu Bakra: Allah's Apostle addressed the people saying, "Don't you know what is the day today?" They replied, "Allah and His Apostle know better." We thought that he might give that day another name. The Prophet said, "Isn't it the day of An-Nahr?" We replied, "Yes. O Allah's Apostle." He then said, "What town is this? Isn't it the forbidden (Sacred) Town (Mecca)?" We replied, "Yes, O Allah's Apostle." He then said, "Your blood, your properties, your honors and your skins (i.e., bodies) are as sacred to one another like the sanctity of this day of yours in this month of yours in this town of yours. (Listen) Haven't I conveyed Allah's message to you?" We replied, "Yes" He said, "O Allah! Be witness (for it). So it is incumbent upon those who are present to convey it (this message of mine) to those who are absent because the informed one might comprehend what I have said better than the present audience who will convey it to him.)" The narrator added: In fact, it was like that. The Prophet added, "Beware! Do not renegade as disbelievers after me by striking (cutting) the necks of one another."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 199

   صحيح البخاري67نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا يبلغ الشاهد الغائب الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه
   صحيح البخاري7078نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم وأعراضكم وأبشاركم عليكم حرام كحرمة يومكم
   صحيح البخاري1741نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم ألا هل بلغت اللهم اشهد يبلغ الشاهد الغائب رب مبلغ أوعى من سامع لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري105نفيع بن الحارثدماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا ألا فليبلغ الشاهد منكم الغائب
   بلوغ المرام637نفيع بن الحارثخطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم النحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 67  
´شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے`
«. . . ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَمْسَكَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ بِزِمَامِهِ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ . . .»
. . . (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 67]

تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت امام خطیب یا محدث یا استاد سواری پر بیٹھے ہوئے بھی خطبہ دے سکتا ہے، وعظ کہہ سکتا ہے۔ شاگردوں کے کسی سوال کو حل کر سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم اور حفظ میں اپنے استادوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ چیز استاد کے لیے باعث مسرت ہونی چاہئیے۔ یہ حدیث ان اسلامی فلاسفروں کے لیے بھی دلیل ہے جو شرعی حقائق کو فلسفیانہ تشریح کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں احکام شرع کے حقائق و فوائد بیان کرنے میں بہترین تفصیل سے کام لیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 67   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 105  
´جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں `
«. . . أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ . . .»
. . . سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 105]

تشریح:
مقصد یہ کہ میں اس حدیث نبوی کی تعمیل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہ فرمایا تھا، دوسری حدیث میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7078  
7078. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے سمجھا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہارے بدن تم پر حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہاں موجود لوگ میرا یہ پیغام غیر لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ یاد رکھتا ہے جسے حکم پہنچایا جائے۔ چنانچہ ایسا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7078]
حدیث حاشیہ:
چہ جائیکہ ہتھیار سے لڑوں کیونکہ ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن چکے تھے کہ مسلمان کو مارنا اس سے لڑنا کفر ہے۔
عبدا للہ بن عمر و حضرمی کا یہ قصہ یہ ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا بصرے میں آیا تھا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ بصرے والوں کو بھی اغوا کر کے علی رضی اللہ عنہ کا مخالف کرا دے گویا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ سیاسی چال تھی۔
جب علی رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو جاریہ ابن قدامہ کو اس کی گرفتاری کے لیے روانہ کیا۔
حضرمی ایک مکان میں چھپ گیا۔
جاریہ نے اس کو گھیر لیا اور مکان میں آگ لگا دی اور حضرمی مکان سمیت جل کر خاک ہو گیا۔
یہ واقعہ سنہ 38 ہجری کا ہے اور ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرے کے حاکم تھے وہاں سے نکلے اور زیادہ بن سمیہ کو اپنا خلیفہ کر گئے۔
اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ نے موقع پا کر عبداللہ بن عمر و حضرمی کو بھیجا کہ جا کر بصرے پر قبضہ کرے‘ وہ بنی تمیم کے محلہ میں اترا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف جو لوگ تھے وہ اس کے شریک ہو گئے۔
زیاد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کی خبر کی اور مدد چاہی۔
حضرت علی رضی اللہ عن نے پہلے اعین بن عیینہ ایک شخص کو روانہ کیا لیکن وہ دغا سے مار ڈالا گیا پھر جاریہ بن قدامہ کو بھیجا‘ انہوں نے حضرمی کو اس کے چالیس یا ستر رفقاء سمیت ایک مکان میں گھیر لیا اور اس میں آگ لگا دی۔
حضرمی اور اس کے ساتھی سب جل کر خاک ہو گئے۔
(إنا للہ و إنا إلیه راجعون)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7078   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 637  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز خطبہ دیا اور ساری حدیث ذکر کی۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 637]
637فائدہ:
حج کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی خطبے ثابت ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے نزدیک ایک خطاب ساتویں ذی الحجہ کو اور دوسرا عرفہ میں، 9 تاریخ کو اور تیسرا گیارھویں ذی الحجہ کو ہو گا۔ دسویں ذی الحجہ، یعنی قربانی کے دن کے خطاب کو مالکیہ اور حنفیہ خطبہ نہیں کہتے بلکہ صرف چند نصیحتیں کہتے ہیں۔ یہ عید کا خطبہ نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید تو ادا ہی نہیں فرمائی تھی۔ بعض اسے خطبہ ہی کہتے ہیں، اس طرح چار خطبے مسنون ہو جاتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 637   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7078  
7078. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے سمجھا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہارے بدن تم پر حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہاں موجود لوگ میرا یہ پیغام غیر لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ یاد رکھتا ہے جسے حکم پہنچایا جائے۔ چنانچہ ایسا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7078]
حدیث حاشیہ:

فتنے کے دور میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ موقف تھا کہ گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور لڑائی سے کنارہ کشی کی جائے، اس لیے انھوں نے مذکورہ جواب دیا۔
ان کا یہ موقف درج ذیل حدیث کے مطابق تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنوں کا ذکر کیا۔
میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر مجھ پر ایسا وقت آجائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
اپنے ہاتھ اور زبان کو روک کر اپنی حویلی میں داخل ہو جانا۔
میں نے عرض کی:
اگر فتنہ پرداز میری حویلی میں آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا:
اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ۔
عرض کی:
اگر وہ گھر کے اندر آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا:
مسجد میں چلے جاؤ۔
اور میری کلائی کو پکڑ کر فرمایا:
کہہ دو، میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی پر تمھیں موت آ جائے۔
(مسند أحمد 449/1، و الصحیحة للألباني، حدیث: 3254)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہیں۔
انھیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فضا ہموار کرنے کے لیے بصرے بھیجا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا تاکہ انھیں گرفتار کیا جائے۔
حضرمی، ایک مکان میں چھپ گئے تو جاریہ نے مکان کا گھیراؤ کر کے اسے آگ لگا دی۔
اس طرح حضرت عبداللہ بن حضرمی اور ان کے رفقاء جل کر خاکستر ہوگئے۔
إناللہ و إنا إلیه راجعون۔
اس دوران میں جاریہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا کہ ان کا پتا کرو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرتے ہیں یا نہیں۔
اس پر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ جواب دیا جو حدیث میں مذکورہ ہے۔
(فتح الباري: 36/13)
بہرحال فتنے کے دور میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ہے۔
ایسے حالات میں جنگ وقتال کرنا فتنہ پروری ہے۔
ایک مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7078   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.