الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
20. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا لَسَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ»:
20. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمانا ”میرا یہ بیٹا سردار ہے اور یقیناً اللہ پاک اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرائے گا“۔
(20) Chapter. The statement of the Prophet (p.b.u.h.) about Al-Hasan bin Ali, "This son of mine is a chief, and Allah may make peace between two groups of Muslims through him."
حدیث نمبر: 7109
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا إسرائيل ابو موسى، ولقيته بالكوفة وجاء إلى ابن شبرمة، فقال: ادخلني على عيسى فاعظه، فكان ابن شبرمة خاف عليه فلم يفعل، قال: حدثنا الحسن، قال: لما سار الحسن بن علي رضي الله عنهما إلى معاوية بالكتائب، قال عمرو بن العاص لمعاوية: ارى كتيبة لا تولي حتى تدبر اخراها، قال معاوية: من لذراري المسلمين؟، فقال: انا، فقال عبد الله بن عامر، وعبد الرحمن بن سمرة: نلقاه، فنقول له: الصلح، قال الحسن: ولقد سمعت ابا بكرة، قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم" يخطب جاء الحسن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ابني هذا سيد، ولعل الله ان يصلح به بين فئتين من المسلمين".حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ أَبُو مُوسَى، وَلَقِيتُهُ بِالْكُوفَةِ وَجَاءَ إِلَى ابْنِ شُبْرُمَةَ، فَقَالَ: أَدْخِلْنِي عَلَى عِيسَى فَأَعِظَهُ، فَكَأَنَّ ابْنَ شُبْرُمَةَ خَافَ عَلَيْهِ فَلَمْ يَفْعَلْ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: لَمَّا سَارَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالْكَتَائِبِ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ لِمُعَاوِيَةَ: أَرَى كَتِيبَةً لَا تُوَلِّي حَتَّى تُدْبِرَ أُخْرَاهَا، قَالَ مُعَاوِيَةُ: مَنْ لِذَرَارِيِّ الْمُسْلِمِينَ؟، فَقَالَ: أَنَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ: نَلْقَاهُ، فَنَقُولُ لَهُ: الصُّلْحَ، قَالَ الْحَسَنُ: وَلَقَدْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَخْطُبُ جَاءَ الْحَسَنُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل ابوموسیٰ نے بیان کیا اور میری ان سے ملاقات کوفہ میں ہوئی تھی۔ وہ ابن شبرمہ کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے عیسیٰ (منصور کے بھائی اور کوفہ کے والی) کے پاس لے چلو تاکہ میں اسے نصیحت کروں۔ غالباً ابن شبرمہ نے خوف محسوس کیا اور نہیں لے گئے۔ انہوں نے اس پر بیان کیا کہ ہم سے حسن بصری نے بیان کیا کہ جب حسن بن علی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے خلاف لشکر لے کر نکلے تو عمرو بن العاص نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھتا ہوں جو اس وقت تک واپس نہیں جا سکتا جب تک اپنے مقابل کو بھگا نہ لے۔ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مسلمانوں کے اہل و عیال کا کون کفیل ہو گا؟ جواب دیا کہ میں، پھر عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمٰن بن سمرہ نے کہا کہ ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے ملتے ہیں (اور ان سے صلح کے لیے کہتے ہیں)، حسن بصری نے کہا کہ میں نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ حسن رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔

Narrated Al-Hasan Al-Basri: When Al-Hasan bin `Ali moved with army units against Muawiya, `Amr bin AL-As said to Muawiya, "I see an army that will not retreat unless and until the opposing army retreats." Muawiya said, "(If the Muslims are killed) who will look after their children?" `Amr bin Al-As said: I (will look after them). On that, `Abdullah bin 'Amir and `Abdur-Rahman bin Samura said, "Let us meet Muawaiya and suggest peace." Al-Hasan Al-Basri added: No doubt, I heard that Abu Bakra said, "Once while the Prophet was addressing (the people), Al-Hasan (bin `Ali) came and the Prophet said, 'This son of mine is a chief, and Allah may make peace between two groups of Muslims through him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 225

   صحيح البخاري3746نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   صحيح البخاري3629نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   صحيح البخاري7109نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   جامع الترمذي3773نفيع بن الحارثابني هذا سيد يصلح الله على يديه فئتين عظيمتين
   سنن أبي داود4662نفيع بن الحارثابني هذا سيد وإني أرجو أن يصلح الله به بين فئتي
   سنن النسائى الصغرى1411نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظيمتين
   المعجم الصغير للطبراني885نفيع بن الحارثابني هذا سيد وإن الله سيصلح على يديه بين فئتين عظيمتين من المسلمين
   مسندالحميدي811نفيع بن الحارثإن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3773  
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا،
چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے،
ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا،
تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کار نامہ ہے (جَزَاہُ اللہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4662  
´فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔‏‏‏‏ حماد کی روایت میں ہے: شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4662]
فوائد ومسائل:
1: حضرت علی رضی اللہ کے دور میں سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی بنا پر ہر مسلمان دو گرہوں میں بٹ گئے تھے۔
ایک طرف علی رضی اللہ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ اور دونوں ہی اپنی اپنی ترجیحات میں بر حق تھے، تاہم سیدنا علی رضی اللہ کا موقف اقرب الی الحق تھا۔

2: سیدنا حسن رضی اللہ نے اپنی خلافت سے دست بردارہو کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی وجہ سے ان کے شرف سیادت میں اور اضافہ ہو گیا۔
مگر کچھ لوگوں کو اب تک ان کا یہ عمل ناپسند ہے۔

3: رسول ؐ نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اپنی امت کے مسلمان قراردیا ہے اورکسی کو بھی گمراہ یا باطل نہیں فرمایا۔

4: صحابہ کرام یا پھر فقہا ءوائمہ کی اجتہادی غلطیوں کی اشاعت کرنا بہت بڑا اور برا فتنہ ہے، صرف خاص محدود علمی حلقہ میں ان کے مسائل کی علمی تفہیم جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4662   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7109  
7109. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرو بن عاص ؓ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے کہا: میں اس ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو واپس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اپنے مقابل کو بھگا نہ دے۔ اس پر سیدنا معاویہ ؓ نےکہا: ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل وعیال کی کون کفالت کرے گا؟ انہوں نے کہا: ان کی کفالت میں کروں گا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نےکہا: ہم سیدناحسن بن علی ؓ سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں صلح پر آمادہ کرتے ہیں، سیدنا حسن بصری نے کہا: میں نے ابو بکرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک یہ میرا بیٹا سید ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو لشکروں کے درمیان صلح کرا دے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7109]
حدیث حاشیہ:
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے مسلمانوں میں ایک بڑی جنگ ٹل گئی جبکہ حالات حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے سازگار تھے مگر آپ نے اس خانہ جنگی کو حسن تدبر سے ختم کر دیا۔
اللہ پاک آپ کی روح پاک پر ہزارہا ہزار رحمت نازل فرمائے۔
اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچی ہو گئی جو اس حدیث میں مذکور ہے۔
اللهم صل علی محمد و علیٰ آله و أصحابه أجمعین۔
پھر یہ دونوں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور صلح کی تجویز ٹھہر گئی۔
اور انہوں نے صلح کر لی۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے مقدمہ لشکر کے سردار قیس بن سعد تھے۔
یہ دونوں لشکر کوفہ کے قریب ایک دوسرے سے ملے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے ان لشکروں کی تعداد پر نظر ڈال کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو پکارا۔
فرمایا میں نے اپنے پروردگار پاس جو ملنے والا ہے اس کو اختیار کیا اگر خلافت اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے تو مجھ کو ملنے والی نہیں اور اگر میرے لیے لکھی ہے تو میں نے تم کو دے ڈالی۔
اس وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر والوں نے تکبیر کہی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی إن ابني هذا سید ....أخیر تک پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے خطبہ سنایا اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی، اس شرط پر کہ وہ اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ پر عمل کرتے رہیں۔
لوگ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کہنے لگے یا عارالمسلمین یعنی مسلمانوں کے ننگ۔
آپ نے جواب دیا العار خیر من النار۔
جو صلح نامہ قرار پایا تھا اس میں یہ بھی شرط تھی کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد پھر خلافت حضرت حسن کو ملے گی۔
محمد بن قدامہ نے بہ سند صحیح اور ابن ابی خیثمہ نے ایسا ہی روایت کیا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے اسی شرط پر بیعت کی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7109   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7109  
7109. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا جب حسن بن علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر لے کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرو بن عاص ؓ نے سیدنا امیر معاویہ ؓ سے کہا: میں اس ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو واپس نہیں ہوگا یہاں تک کہ اپنے مقابل کو بھگا نہ دے۔ اس پر سیدنا معاویہ ؓ نےکہا: ایسے حالات میں مسلمانوں کے اہل وعیال کی کون کفالت کرے گا؟ انہوں نے کہا: ان کی کفالت میں کروں گا۔ پھر سیدنا عبداللہ بن عامر اور عبدالرحمن بن سمرہ نےکہا: ہم سیدناحسن بن علی ؓ سے ملاقات کرتے ہیں اور انہیں صلح پر آمادہ کرتے ہیں، سیدنا حسن بصری نے کہا: میں نے ابو بکرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک یہ میرا بیٹا سید ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ اس کے سبب مسلمانوں کے دو لشکروں کے درمیان صلح کرا دے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7109]
حدیث حاشیہ:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد لوگوں نےحضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو وہ ایک بھاری لشکر لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔
دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی فوجوں کے ہمراہ کوفے کی طرف روانہ ہوئے۔
یہ دونوں کوفے کے پاس ایک مقام پر اکھٹے ہوئے۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لشکروں کی تعداد دیکھی توحضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آواز دے کر کہا:
"میں اس چیز کو اختیار کرتا ہوں جو مجھے میرے پروردگار کے ہاں ملنے والی ہے۔
اگراللہ تعالیٰ نے یہ حکومت تمہارے لیے لکھ دی ہے تو یہ مجھے ملنے والی نہیں اور اگرمیرے لیے لکھی ہے تو میں تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔
"2۔
اس حدیث سے حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے حسن تدبیر سے خانہ جنگی کو ختم کردیا۔
انھوں نے کسی کمزوری یا ذلت وقلت کے پیش نظر حکومت نہیں چھوڑی بلکہ مسلمانوں کی جانیں بچانے کے لیے صلح کی تھی۔
انھوں نے اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں انعامات میں رغبت کی اور فتنہ وفساد کی آگ کو ٹھنڈا کیا۔
دوسری طرف حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بڑی فراخدلی کا ثبوت دیا۔
انھوں نے سفید کاغذ پر مہر لگا کر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے کر دیا کہ آپ جو بھی شرائط لکھ کر دیں، میں انھیں تسلیم کر کے صلح کرنے کے لیے تیار ہوں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ ملک کی تدبیر میں ان کی نظر بہت دور اندیش تھی اور وہ انجام پر کڑی نظر رکھتے تھے، اس کے علاوہ انھیں اپنی رعایا کے ساتھ بھی بہت ہمدردی تھی، چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتاب وسنت کے نفاذ کی شرط پر امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرلی، پھر آپ کوفے آئے تو تمام لوگوں نے آپ کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ سے بیعت کی۔
لوگوں کے جمع ہونے اور خانہ جنگی ختم ہونے کی بنا پر اس سال کا نام "عام الجماعۃ" رکھا گیا۔
جو حضرات فتنے کے دور میں گوشہ نشین ہوگئے تھے، مثلاً:
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، محمد بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بھی حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کر لی۔
آپ نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور انعام تین لاکھ درہم، ایک ہزار لباس، سو اونٹ اور تیس غلام دیے۔
صلح کے بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ طیبہ روانہ ہو گئے۔
اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کوفے کا اور حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرے کا حاکم بنا کر خود دمشق روانہ ہوگئے، اس طرح صلح کےمعاملات اختتام پذیر ہوئے۔
(فتح الباري: 80/13)

واضح رہے کہ باہمی فتنہ فساد کی وجہ سے لوگوں کے ذہن اس حد تک خراب ہوچکے تھے کہ جب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صلح کرلی تو لوگوں نے آپ کے خلاف آوازے کسے اے مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعار! لیکن حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں مستقل مزاجی کے ساتھ یہ جواب دیا کہ مجھے فتنوں کی آگ کے مقابلے میں عار زیادہ محبوب ہے۔
(فتح الباري: 82/13) (رضي الله عنه وعنا في الدنيا والآخرة)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7109   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.