الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
11. بَابُ مَا ذُكِرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ لَهُ بَوَّابٌ:
11. باب: یہ بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دربان نہیں تھا۔
(11) Chapter. It is mentioned that there was no gatekeeper for the Prophet (p.b.u.h.).
حدیث نمبر: 7154
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الصمد، حدثنا شعبة، حدثنا ثابت البناني، قال: سمعت انس بن مالك، يقول لامراة من اهله: تعرفين فلانة؟، قالت: نعم، قال: فإن النبي صلى الله عليه وسلم مر بها وهي تبكي عند قبر، فقال:" اتقي الله واصبري، فقالت: إليك عني، فإنك خلو من مصيبتي، قال: فجاوزها ومضى، فمر بها رجل، فقال: ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قالت: ما عرفته، قال: إنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فجاءت إلى بابه فلم تجد عليه بوابا، فقالت: يا رسول الله، والله ما عرفتك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن الصبر عند اول صدمة".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ لِامْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ: تَعْرِفِينَ فُلَانَةَ؟، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهَا وَهِيَ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ، فَقَالَ:" اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَقَالَتْ: إِلَيْكَ عَنِّي، فَإِنَّكَ خِلْوٌ مِنْ مُصِيبَتِي، قَالَ: فَجَاوَزَهَا وَمَضَى، فَمَرَّ بِهَا رَجُلٌ، فَقَالَ: مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَتْ: مَا عَرَفْتُهُ، قَالَ: إِنَّهُ لَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجَاءَتْ إِلَى بَابِهِ فَلَمْ تَجِدْ عَلَيْهِ بَوَّابًا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا عَرَفْتُكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الصَّبْرَ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے ثابت البنانی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اپنے گھر کی ایک عورت سے کہہ رہے تھے فلانی کو پہچانتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے گزرے اور وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ اس عورت نے جواب دیا۔ آپ میرے پاس سے چلے جاؤ، میری مصیبت آپ پر نہیں پڑی ہے۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ہٹ گئے اور چلے گئے۔ پھر ایک صاحب ادھر سے گزرے اور ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے کیا کہا تھا؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے انہیں پہچانا نہیں۔ ان صاحب نے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ پھر وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ انہوں نے آپ کے یہاں کوئی دربان نہیں پایا پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں (تھا)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر تو صدمہ کے شروع میں ہی ہوتا ہے۔

Narrated Thabit Al-Bunani: Anas bin Malik said to a woman of his family, "Do you know such-and-such a woman?" She replied, "Yes." He said, "The Prophet passed by her while she was weeping over a grave, and he said to her, 'Be afraid of Allah and be patient.' The woman said (to the Prophet). 'Go away from me, for you do not know my calamity.'" Anas added, "The Prophet left her and proceeded. A man passed by her and asked her, 'What has Allah's Apostle said to you?' She replied, 'I did not recognize him.' The man said, 'He was Allah's Apostle."' Anas added, "So that woman came to the gate of the Prophet and she did not find a gate-keeper there, and she said, 'O Allah's Apostle! By Allah. I did not recognize you!' The Prophet said, 'No doubt, patience is at the first stroke of a calamity.'"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 268

   صحيح البخاري7154أنس بن مالكالصبر عند أول صدمة
   صحيح البخاري1283أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   صحيح البخاري1302أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   صحيح البخاري1252أنس بن مالكاتقي الله واصبري
   صحيح مسلم2140أنس بن مالكالصبر عند أول صدمة
   صحيح مسلم2139أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   جامع الترمذي988أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   جامع الترمذي987أنس بن مالكالصبر في الصدمة الأولى
   سنن أبي داود3124أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   سنن النسائى الصغرى1870أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى
   سنن ابن ماجه1596أنس بن مالكالصبر عند الصدمة الأولى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  ابوعبدالله صارم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1283  
´عوتوں کے لیے قبروں کی زیارت`
«. . . قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1283]

فوائد و مسائل:
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے «باَبُ زِيَارَةِ الْقُبُورِ» (قبروں کی زیارت کا بیان) میں بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ عورت قبرستان جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور صبر کرنے کا حکم تو دیا، لیکن قبرستان میں آنے سے منع نہیں فرمایا۔ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پیاروں کی قبروں پر جا کر ان کے لیے دعا کریں، موت کو یاد کریں اور آخرت کی فکر کو تازہ کریں، وہاں بےصبری کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث\صفحہ نمبر: 21   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1596  
´مصیبت پر صبر کرنے کا ثواب۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر تو وہ ہے جو مصیبت کے اول وقت میں ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1596]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(و)
  صبر جو شرعاً مطلوب ہے۔
یہ ہے کہ جب مصیبت آئے یا غم پہنچے۔
اس وقت اپنے آپ کو غلط حرکات واقوال سے بچائے۔
کیونکہ جذبات غم کی شدت کے موقع پر اپنے آپ پر قابو رکھنا اور جائز وناجائز کے فرق کا خیال کرنا بہت مشکل ہے۔
جو شخص اس موقعے پر احکام شریعت کو ملحوظ رکھتا ہے۔
اصل صبر اسی کا ہے۔
جس پر اسے وہ تمام انعامات خداوندی حاصل ہوں گے۔
جن کا قرآن وحدیث میں وعدہ کیاگیا ہے۔
بعد میں جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے۔
خود بخود صبر آنا شروع ہوجاتا ہے۔
یہ صبر کوئی ایسی چیز نہیں جس پر کسی کی تعریف کی جائے یا اسے ثواب کی اُمید ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1596   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 987  
´صبر وہ ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 987]
اردو حاشہ:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ صدمے کا پہلا جھٹکا جب دل پر لگتا ہے اس وقت آدمی صبر کرے اور بے صبری کا مظاہرہ،
اپنے اعمال و حرکات سے نہ کرے تو یہی صبر کامل ہے جس پر اجر مترتب ہوتا ہے،
بعد میں تو ہر کسی کو چار و ناچار صبر آ ہی جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 987   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3124  
´صبر درحقیقت وہی ہے جو صدمہ آتے ہی کیا جائے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز) رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۱؎، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا ۲؎؟، تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3124]
فوائد ومسائل:

رونے پیٹنے اور چیخنے چلانے کے بعد جب انسان ویسے ہی تھک ہار جاتا ہے۔
تو اسے صبر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
صبر تو یہ ہے کہ مصیبت آئے تو اس پر (إنا للہ وانا الیه راجعون) کے علاوہ کچھ نہ کہا جائے۔
اللہ کے فیصلے پر تسلیم ورضا کا مظاہرہ کیا جائے۔
اور جزع فزع نوحہ وماتم اور اللہ کا شکوہ نہ کیا جائے۔


شدت جزبات اور آپ کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اس عورت سے رسول اللہ ﷺکے حق میں جو تقصیر ہوئی آپ نے اسے معاف فرما دیا۔


جوشخص اپنے نابالغ بچوں کی وفات پر صبرورضا کا اظہار کرے۔
اسے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس مسلمان کے تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہوجایئں تو اللہ تعالیٰ اس کو ان بچوں پر اپنی رحمت کی برکت سے جنت میں داخل فرمائےگا۔
(صحیح البخاری۔
الجنائز۔
باب فصل من مات لہ ولد فاحتسب حدیث1248)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: جس مسلما ن کے تین بچے فوت ہوجایئں اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1251) علاوہ ازیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: تم میں سے جو عورت اپنے تین بچے آگے بھیج دے۔
یعنی فوت ہوجایئں۔
تو وہ اس کےلئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جایئں گے۔
تو ایک عورت نے کہا۔
اور دو بچوں کا کیا حکم ہے۔
تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو کا بھی یہی حکم ہے (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1249)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3124   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7154  
7154. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے کہا: کیا تو فلاں عورت کو جانتی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،تو انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک دفعہ اس کے پاس گزرے تو وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ اس نے جواب دیا: آپ میرے پاس سے چلے جائیں۔آپ نے مجھ جیسی مصیبت نہیں پڑی،چنانچہ آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے اور تشریف لے گئے اس دوران میں وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو نہیں پہچانا۔ اس شخص نے کہا: وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ پھر وہ عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ وہاں کوئی دربان نہ تھا،اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم،میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔نبی ﷺ نے فرمایا: صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7154]
حدیث حاشیہ:
روایت میں آپ کے ہاں دربان نہ ہونا مذکور ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7154   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7154  
7154. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے کہا: کیا تو فلاں عورت کو جانتی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں،تو انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک دفعہ اس کے پاس گزرے تو وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ اس نے جواب دیا: آپ میرے پاس سے چلے جائیں۔آپ نے مجھ جیسی مصیبت نہیں پڑی،چنانچہ آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے اور تشریف لے گئے اس دوران میں وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا: میں نے آپ ﷺ کو نہیں پہچانا۔ اس شخص نے کہا: وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے۔ پھر وہ عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ وہاں کوئی دربان نہ تھا،اس نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم،میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔نبی ﷺ نے فرمایا: صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7154]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کوئی دربان نہیں رکھا تھا جو لوگوں کی ضروریات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا بلکہ لوگ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے تھے لیکن جب خوارج کی طرف سے خفیہ حملوں کا آغاز ہوااور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ہاتھوں شہید ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی آمدو رفت پر پابندی لگادی۔
اگرچہ انھوں نے یہ کام احتیاط کے پیش نظر کیا لیکن اس کے باوجود حضرت عمرو بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا:
"جو حاکم وقت ضرورت مندوں اور کمزور بندوں کے سامنے اپنا دروازہ بند کرے گا۔
تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت و ضرورت اور اس کی مسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بندے کردےگا۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔
"یہ حدیث سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دروازے پر ایک خاص آدمی مقرر کر دیا جو لوگوں کی حاجات و ضروریات معلوم کرکے ان تک پہنچاتا تھا۔
(جامع الترمذی الاحکام حدیث: 1332)

بہر حال موجودہ حالات کے پیش نظر کسی بااخلاق سمجھ دار اور تجربہ کار شخص کو دربان رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر (الأمم السابقة)
2. فضل التقوى (الأخلاق والآداب)
3. الأمر بالصبر (الأخلاق والآداب)
4. الصبر عند الموت (العبادات)
5. حكم النياحة (العبادات)
6. آداب زيارة القبور (العبادات)
7. زيارة النساء للقبور (العبادات)
8. مسئولية الأمير أو الراعي (الأقضية والأحكام)
9. فتح الباب في وجه ذوي الحاجة (الأقضية والأحكام)
10. الصبر على فراق الأحبة (الأخلاق والآداب)
11. التواضع خلق النبي (الإيمان)
12. الحلف بالله (العبادات)
موضوعات 1. نیکی کاحکم دینا اور برائی سے منع کرنا (اقوام سابقہ)
2. تقویٰ کی فضیلت (اخلاق و آداب)
3. صبر کاحکم (اخلاق و آداب)
4. موت کے وقت صبرکرنا (عبادات)
5. نوحہ کی ممانعت (عبادات)
6. زیارت قبور کے آداب (عبادات)
7. عورتوں کا قبروں کی زیارت کرنا (عبادات)
8. امیر یا ذمہ دار کی مسؤولیت (عدالتی احکام و فیصلے)
9. حاجت مندوں کے لیے دروازہ کھلا رکھنا (عدالتی احکام و فیصلے)
10. پیاروں کی جدائی پر صبر کرنا (اخلاق و آداب)
11. تواضع،نبی اکرمﷺ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے (ایمان)
12. اللہ کے نام کے ساتھ قسم اٹھانا (عبادات)
Topics 1. Encouraging Good And Discouraging Evil (Ancient Nations)
2. Virtue of Godfearingness (Ethics and Manners)
3. About Patience (Ethics and Manners)
4. Observing Patience at the time of death (Prayers/Ibadaat)
5. Prohibition of wailing (Prayers/Ibadaat)
6. Etiquettes for visiting graves (Prayers/Ibadaat)
7. Can Women visit graves? (Prayers/Ibadaat)
8. Leader will be questioned about his subjects (Legal Orders and Verdicts)
9. The door should remain open for destitutes and needy (Legal Orders and Verdicts)
10. Showing patience on the death of beloved ones (Ethics and Manners)
11. Hospitality is of the moral makeup of the Prophet PBUH (Faith)
12. Taking Oath by the Name of Allah (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7154 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے اپنے خاندان کی ایک عورت سے کہا:
کیا تو فلاں عورت کو جانتی ہے؟ اس نے کہا:
جی ہاں،تو انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک دفعہ اس کے پاس گزرے تو وہ ایک قبر کے پاس رو رہی تھی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
اللہ سے ڈر اور صبر کر۔
اس نے جواب دیا:
آپ میرے پاس سے چلے جائیں۔
آپ نے مجھ جیسی مصیبت نہیں پڑی،چنانچہ آپ ﷺ وہاں سے آگے بڑھے اور تشریف لے گئے اس دوران میں وہاں سے ایک آدمی گزرا تو اس نے پوچھا:
رسول اللہ ﷺ نے تجھ سے کیا فرمایا تھا؟ اس نے کہا:
میں نے آپ ﷺ کو نہیں پہچانا۔
اس شخص نے کہا:
وہ تو رسول اللہ ﷺ تھے۔
پھر وہ عورت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ وہاں کوئی دربان نہ تھا،اس نے کہا:
اللہ کے رسول! اللہ کی قسم،میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
صبر تو صدمے کے آغاز میں ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کوئی دربان نہیں رکھا تھا جو لوگوں کی ضروریات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتا بلکہ لوگ براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے تھے لیکن جب خوارج کی طرف سے خفیہ حملوں کا آغاز ہوااور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے ہاتھوں شہید ہوئے اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی آمدو رفت پر پابندی لگادی۔
اگرچہ انھوں نے یہ کام احتیاط کے پیش نظر کیا لیکن اس کے باوجود حضرت عمرو بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنایا:
"جو حاکم وقت ضرورت مندوں اور کمزور بندوں کے سامنے اپنا دروازہ بند کرے گا۔
تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت و ضرورت اور اس کی مسکینی کے وقت آسمان کے دروازے بندے کردےگا۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی کوئی مدد نہیں ہوگی۔
"یہ حدیث سن کر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دروازے پر ایک خاص آدمی مقرر کر دیا جو لوگوں کی حاجات و ضروریات معلوم کرکے ان تک پہنچاتا تھا۔
(جامع الترمذی الاحکام حدیث: 1332)

بہر حال موجودہ حالات کے پیش نظر کسی بااخلاق سمجھ دار اور تجربہ کار شخص کو دربان رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ اعلم۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبردی، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے ثابت البنانی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ وہ اپنے گھر کی ایک عورت سے کہہ رہے تھے فلانی کو پہچانتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔
بتلایا کہ نبی کریم ﷺ اس کے پاس سے گزرے اور وہ ایک قبر کے پاس رورہی تھی۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر کر۔
اس عورت نے جواب دیا۔
آپ میرے پاس سے چلے جاؤ، میری مصیبت آپ پر نہیں پڑی ہے۔
بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ وہاں سے ہٹ گئے اور چلے گئے۔
پھر ایک صاحب ادھر سے گزرے اور ان سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ نے تم سے کیا کہا تھا؟ اس عورت نے کہا کہ میں نے انہیں پہچانا نہیں۔
ان صاحب نے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔
پھر وہ عورت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
انہوں نے آپ کے یہاں کوئی دربان نہیں پایا پھر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ صبر تو صدمہ کے شروع میں ہی ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
روایت میں آپ کے ہاں دربان نہ ہونا مذکور ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Thabit Al-
Bunani (RA)
:
Anas bin Malik (RA)
said to a woman of his family, "Do you know such-
and-
such a woman?" She replied, "Yes." He said, "The Prophet (ﷺ) passed by her while she was weeping over a grave, and he said to her, 'Be afraid of Allah and be patient.' The woman said (to the Prophet)
. 'Go away from me, for you do not know my calamity.'" Anas added, "The Prophet (ﷺ) left her and proceeded. A man passed by her and asked her, 'What has Allah's Apostle (ﷺ) said to you?' She replied, 'I did not recognize him.' The man said, 'He was Allah's Apostle."' Anas added, "So that woman came to the gate of the Prophet (ﷺ) and she did not find a gate-
keeper there, and she said, 'O Allah's Apostle (ﷺ)! By Allah. I did not recognize you!' The Prophet (ﷺ) said, 'No doubt, patience is at the first stroke of a calamity.'" حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
روایت میں آپ کے ہاں دربان نہ ہونا مذکور ہے یہی باب سے مطابقت ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7220٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7154٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6621٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7154٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6735٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6891٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7154٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7154١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7154 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہ طریقہ تھا کہ انھوں نے لوگوں کے مسائل سننے کے لیے دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں بٹھایا تھا بلکہ لوگ براہ راست ان سے ملتے اور اپنے مسائل پیش کرتےتھے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے پیش نظر یہ عنوان قائم کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7154   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.