الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں
The Book of Wishes
6. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّمَنِّي:
6. باب: جس کی تمنا کرنا منع ہے۔
(6) Chapter. What kind of wishing is disliked.
حدیث نمبر: Q7233
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ولا تتمنوا ما فضل الله به بعضكم على بعض للرجال نصيب مما اكتسبوا وللنساء نصيب مما اكتسبن واسالوا الله من فضله إن الله كان بكل شيء عليما سورة النساء آية 32وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا سورة النساء آية 32
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا اور نہ تمنا کرو اس چیز کی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر (مال میں) فضیلت دی ہے۔ مرد اپنی کمائی کا ثواب پائیں گے اور عورتیں اپنی کمائی کا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

حدیث نمبر: 7233
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا حسن بن الربيع، حدثنا ابو الاحوص، عن عاصم، عن النضر بن انس، قال: قال انس رضي الله عنه: لولا اني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا تتمنوا الموت، لتمنيت".حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ، لَتَمَنَّيْتُ".
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، ان سے ابوالاحوص نے، ان سے عاصم نے بیان کیا، ان سے نضر بن انس نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ موت کی تمنا نہ کرو تو میں موت کی آرزو کرتا۔

Narrated Anas: If I had not heard the Prophet saying, "You should not long for death," I would have longed (for it).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 90, Number 339

   صحيح البخاري7233أنس بن مالكلا تتمنوا الموت لتمنيت
   صحيح البخاري5671أنس بن مالكاللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   صحيح البخاري6351أنس بن مالكلا يتمنين أحد منكم الموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   صحيح مسلم6816أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   صحيح مسلم6816أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لتمنيته
   جامع الترمذي971أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن أبي داود3108أنس بن مالكلا يدعون أحدكم بالموت لضر نزل به اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن النسائى الصغرى1823أنس بن مالكلا تدعوا بالموت ولا تتمنوه من كان داعيا لا بد فليقل اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن النسائى الصغرى1822أنس بن مالكلا يتمنى أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا الموت اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني ما كانت الوفاة خيرا لي
   سنن النسائى الصغرى1821أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت لضر نزل به في الدنيا اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   سنن ابن ماجه4265أنس بن مالكلا يتمنى أحدكم الموت لضر نزل به فإن كان لا بد متمنيا الموت اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   المعجم الصغير للطبراني339أنس بن مالكلا يتمنين أحدكم الموت اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي
   بلوغ المرام426أنس بن مالكاللهم احيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 426  
´مصیبت و تکلیف کی وجہ سے موت کی تمنا و خواہش نہیں کرنی چاہیے`
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کسی کو اس مصیبت و تکلیف کی وجہ سے جو اس پر نازل ہوئی ہو موت کی تمنا و خواہش ہرگز نہیں کرنی چاہیے . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 426]
لغوی تشریح:
«لَا يَتْمَنَّيَنَّ» تمني سے ماخوذ ہے۔ اس میں نون ثقیلہ تاکید کے لیے ہے اور نہی کا صیغہ ہے۔
«لَضُرَّ» ضاد پر ضمہ ہے اور کبھی فتحہ بھی آ جاتا ہے۔ کسی جانی اور مالی نقصان اور ضرر کی وجہ سے۔
«لَاُبدْ» با پر ضمہ اور دال پر تشدید ہے۔ ضروری اور لازمی طور پر۔
«أحْيِنِيي» اس میں ہمزہ قطعی ہے یعنی باب افعال کا ہے۔ معنی ہیں، مجھے زندگی عطا فرما۔
«تَوَفَّنِيْ» مجھے وفات دے۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث دنیوی مصائب و آلام اور رشتوں سے تنگ آ کر موت کی تمنا و خواہش کرنے کو مکروہ قرار دیتی ہے کیونکہ یہ عدم رضا بالقضا کی خبر دیتی ہے، البتہ شہادت فی سبیل اللہ کی خواہش اور دین کے بارے میں فتنے کے اندیشے کی وجہ سے موت کی تمنا کرنا مکروہ و ناپسندیدہ نہیں ہے۔
➋ ایک سچے پکے مومن کے لیے زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ نیک آدمی زندگی کی صورت میں اپنے نیک اعمال اور صالح افعال میں اضافہ ہی کرے گا، اور سابقہ گناہوں سے اسے تائب ہونے کا موقع نصیب ہو گا۔ اگر آدمی برا ہے، بدکردار اور بداعمال ہے تو اسے موقع غنیمت ملے گا کہ توبہ کر لے اور راہ راست پر گامزن ہو کر اپنی آخروی زندگی سدھار لے، اس لیے دنیوی مصائب و آلام، مفلسی، غربت اور بیماری وغیرہ سے تنگ آخر موت کی آرزو نہ کرے، البتہ رب کائنات سے ملاقات کے شوق میں موت کی آرزو کمال ایمان کی نشانی اور علامت ہے۔
➌ اگر دین کے بارے میں کسی فتنے اور آزمائش کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی موت کی تمنا اور آرزو کی جا سکتی ہے۔ دنیوی مشکلات و تکالیف تو مومن کی درجات کی بلندیوں پر پہنچا کا باعث ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 426   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4265  
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی کسی مصیبت کی وجہ سے جو اس کو پیش آئے موت کی تمنا نہ کرے، اگر موت کی خواہش کی ضرورت پڑ ہی جائے تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دے اگر مرنا میرے لیے بہتر ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4265]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  زندگی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
کیونکہ اس میں نیکیاں کرکے بندہ اللہ کو راضی کرسکتاہے اور جنت کے بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔

(2)
موت کی دعا زندگی کی نعمت کی ناشکری ہے۔

(3)
موت کی تمنا بے صبری کا اظہار بھی ہے۔
اور اللہ کی رحمت سے مایوسی بھی، اس لئے موت کی دعا کرنے کی بجائے مشکلات ٹل جانے کی دعا کرنا زیادہ بہتر ہے۔

(4)
حدیث میں ذکر کردہ دعا میں اللہ پر توکل اور اللہ کے فیصلوں کو خوش دلی سے قبول کرنے کا اظہار ہے۔

(5)
دنیا کی مشکلات وقتی ہیں۔
جبکہ اللہ کی ناراضگی آخرت کی ابدی نعمتوں سے محرومی کا باعث ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4265   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7233  
7233. حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اگر میں نے نبیﷺ کو یہ فرمانے نہ سنا ہوتا:موت کی تمنا نہ کرو تو میں ضرور موت کی آرزو کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7233]
حدیث حاشیہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی عمر بہت طویل ہوئی تھی۔
انہوں نے طرح طرح کے فتنے اور فساد مسلمانوں میں دیکھے مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت‘ خارجیوں کا زور ظلم‘ اس وجہ سے موت کو پسند کرنے لگے۔
قسطلانی نے کہا اگر آدمی کو دین کی خرابی اور فتنے میں پڑنے کا ڈر ہو تب تو موت کی آرزو کرنا بلا کراہت جائز ہے۔
میں کہتا ہوں ایک حدیث میں ہے وإذا أردتَ بعبادِك فتنةً فاقبِضني إليكَ غيرَ مفتونٍ دوسری حدیث میں ہے ایسے وقت میں میں یوں دعا کرنا بہتر ہے:
اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي.
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7233   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7233  
7233. حضرت انسؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اگر میں نے نبیﷺ کو یہ فرمانے نہ سنا ہوتا:موت کی تمنا نہ کرو تو میں ضرور موت کی آرزو کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7233]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نازل شدہ کسی مصیبت کے پیش نظر تم میں سے کوئی موت کی آرزونہ کرے۔
اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہوتو اس طرح دعا کرے:
(اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرًا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرًا لي)
اے اللہ! مجھے زندہ رکھ جب تک میری زندگی میں بھلائی ہو اورمجھے فوت کرلے جب میری وفات میں بہتری ہو۔
(صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5671)

بہرحال مصائب وآلام اور تکالیف کی وجہ سے موت کی تمنا کرنامنع ہے۔
لیکن کسی مصیبت کی وجہ سے دین کی خرابی یا فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو موت کی آرزو کرنا جائز ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7233   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.