الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
22. بَابُ الْحُجَّةِ عَلَى مَنْ قَالَ إِنَّ أَحْكَامَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ ظَاهِرَةً:
22. باب: اس شخص کا رد جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام احکام ہر ایک صحابی کو معلوم رہتے تھے۔
(22) Chapter. The refutation of the claim of those who say, "All the legal decisions and verdicts given by the Prophet (p.b.u.h.) were apparent (i.e., known to all people)."
حدیث نمبر: Q7353
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وما كان يغيب بعضهم من مشاهد النبي صلى الله عليه وسلم وامور الإسلام.وَمَا كَانَ يَغِيبُ بَعْضُهُمْ مِنْ مَشَاهِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُورِ الْإِسْلَامِ.
‏‏‏‏ اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ بہت سے صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے غائب رہتے تھے اور ان کو اسلام کی کئی باتوں کی خبر نہ ہوتی تھی۔

حدیث نمبر: 7353
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، حدثني عطاء، عن عبيد بن عمير، قال:" استاذن ابو موسى على عمر فكانه وجده مشغولا، فرجع، فقال عمر: الم اسمع صوت عبد الله بن قيس ائذنوا له فدعي له، فقال: ما حملك على ما صنعت، فقال: إنا كنا نؤمر بهذا، قال: فاتني على هذا ببينة او لافعلن بك، فانطلق إلى مجلس من الانصار، فقالوا: لا يشهد إلا اصاغرنا فقام ابو سعيد الخدري، فقال: قد كنا نؤمر بهذا، فقال عمر: خفي علي هذا من امر النبي صلى الله عليه وسلم الهاني الصفق بالاسواق".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ:" اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ فَكَأَنَّهُ وَجَدَهُ مَشْغُولًا، فَرَجَعَ، فَقَال عُمَرُ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ائْذَنُوا لَهُ فَدُعِيَ لَهُ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ، فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا نُؤْمَرُ بِهَذَا، قَالَ: فَأْتِنِي عَلَى هَذَا بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ بِكَ، فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالُوا: لَا يَشْهَدُ إِلَّا أَصَاغِرُنَا فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، فَقَالَ: قَدْ كُنَّا نُؤْمَرُ بِهَذَا، فَقَالَ عُمَرُ: خَفِيَ عَلَيَّ هَذَا مِنْ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاء بن ابی رباح نے، ان سے عبید بن عمیر نے بیان کیا کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے (ملنے کی) اجازت چاہی اور یہ دیکھ کر کہ عمر رضی اللہ عنہ مشغول ہیں آپ جلدی سے واپس چلے گئے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) کی آواز نہیں سنی تھی؟ انہیں بلا لو۔ چنانچہ انہیں بلایا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا؟ (جلدی واپس ہو گئے) انہوں نے کہا کہ ہمیں حدیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ، ورنہ میں تمہارے ساتھ یہ (سختی) کروں گا۔ چنانچہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس میں گئے انہوں نے کہا کہ اس کی گواہی ہم میں سب سے چھوٹا دے سکتا ہے۔ چنانچہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہمیں دربار نبوی سے اس کا حکم دیا جاتا تھا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مجھے معلوم نہیں تھا، مجھے بازار کے کاموں خرید و فروخت نے اس حدیث سے غافل رکھا۔

Narrated 'Ubai bin `Umar: Abu Musa asked permission to enter upon `Umar, but seeing that he was busy, he went away. `Umar then said, "Didn't I hear the voice of `Abdullah bin Qais? Allow him to come in." He was called in and `Umar said to him, "What made you do what you did." He replied, "We have been instructed thus by the Prophet" `Umar said, "Bring proof (witness) for this, other wise I will do so-and-so to you." Then `Abdullah bin Qais went to a gathering of the Ansar who then said, "None but the youngest of us will give the witness for it." So Abu Sa`id Al-Khudri got up and said, "We used to be instructed thus (by the Prophet)." `Umar said, "This tradition of the Prophet remained hidden from me. Business in the market kept me busy."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 451

   صحيح البخاري7353ألهاني الصفق بالأسواق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7353  
7353. سیدنا عبید بن عمیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے سیدنا عمر فاروق ؓ سے اجازت طلب کی لیکن سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو کسی کام میں مصروف پاکر آپ واپس چلے گئے۔ پھر (فراغت کے بعد) سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس ؓ کی آواز نہیں سنی تھی؟ انہیں اجازت دے دو۔ جب انہیں بلایا گیا تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے سیدنا عمر ؓ نے کہا: اس پر کوئی گواہ پیش کرو بصورت دیگر میں تمہارے ساتھ ایسا ایسا کروں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ ؓ یہ سن کر انصار کی مجلس میں گئے تو انہوں نے کہا: اس کے لیے تو ہمارا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی گواہی دے سکتا ہے، پھر سیدنا ابو سعید خدری ؓ اٹھے اور انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: مجھ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7353]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے نسیان کو فوراً تسلیم کر کے حدیث نبوی کے آگے سر جھکا دیا۔
ایک مومن مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ حدیث پاک کے سامنے ادھر ادھر کی باتیں چھوڑ کر سر تسلیم خم کر دے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ بعض احادیث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بعد میں معلوم ہوئیں‘ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
مضمون حدیث ایک بہت بڑا ادبی اخلاقی سماجی امر پر مشتمل ہے اللہ ہر مسلمان کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے‘ آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7353   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7353  
7353. سیدنا عبید بن عمیر سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے سیدنا عمر فاروق ؓ سے اجازت طلب کی لیکن سیدنا عمر بن خطاب ؓ کو کسی کام میں مصروف پاکر آپ واپس چلے گئے۔ پھر (فراغت کے بعد) سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے کہا: کیا میں نے ابھی عبداللہ بن قیس ؓ کی آواز نہیں سنی تھی؟ انہیں اجازت دے دو۔ جب انہیں بلایا گیا تو سیدنا عمر ؓ نے ان سے پوچھا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا ہے سیدنا عمر ؓ نے کہا: اس پر کوئی گواہ پیش کرو بصورت دیگر میں تمہارے ساتھ ایسا ایسا کروں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ ؓ یہ سن کر انصار کی مجلس میں گئے تو انہوں نے کہا: اس کے لیے تو ہمارا چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی گواہی دے سکتا ہے، پھر سیدنا ابو سعید خدری ؓ اٹھے اور انہوں نے کہا: ہمیں یہی حکم دیا گیا تھا۔ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: مجھ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7353]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت جلیل القدر صحابی تھے۔
اس کے باوجود استیذان (اجازت طلب کرنے)
کا حکم ان سے مخفی رہا، حتی کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے انھیں اس امر کا علم ہوا۔
جب انھیں پتا چلا تو فوراً تسلیم کرلیا۔
یہ کوئی عیب بھی نہیں ہے۔

ہرمومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہونے پر سرتسلیم خم کردے، چنانچہ درج ذیل مثالوں سے اس امر کی وضاحت کی جاتی ہے:
۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جدہ (دادنی، نانی)
کی میراث کا علم نہیں تھا۔
انھیں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا۔
۔
حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم نہ تھا کہ خاوند کی دیت سے بیوی حصہ پاتی ہے یا نہیں توانھیں حدیث کے حوالے سے حضرت ضحاک بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگاہ کیا۔
۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوپتا نہیں تھا کہ خاوند کی وفات کے بعد بیوی عدت کہاں گزارے؟ انھیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اطلاع دی اور حدیث کا حوالہ دیا۔
۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ تھا کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اوروہ حاملہ ہوتو جو لمبی عدت ہو اسے وہ گزارنا ہوگی، انھیں سبیعہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا واقعہ بتاکر مسئلے سے آگاہ کیا۔
۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنبی کے لیے روزہ رکھنے کے قائل نہ تھے، انھیں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خود اپنا معمول بتاکر اس موقف سے رجوع کرنے پر مجبور کیا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کے لیے اپنے پڑوسی انصاری صحابی سے یہ طے کیا تھا کہ وہ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شرکت کریں گے، حاضری دینے والا دوسرے کو علمی مسائل سے آگاہ کرے گا۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 89)
اس کے باوجود کچھ احادیث کا انھیں علم نہ ہوسکا، چنانچہ:
ب۔
موزوں پر مسح کرنے کے متعلق انھیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگاہ کیا۔
ج۔
ہاتھ کی تمام انگلیاں دیت کے اعتبار سے برابر ہیں، ان میں چھوٹی بڑی کا فرق نہیں کیا جائے گا۔
اس بات کا علم انھیں عمرو بن حزم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوا۔
اس طرح متعدد مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم نہیں تھا۔
(فتح الباري: 393/13)
نوٹ:
۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث کی ثقاہت اور تائید کے لیے شہادت طلب کی تھی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خبر واحد کو قبول کرنے کے قائل نہ تھے کیونکہ ایک آدمی کی شہادت کے باوجود بھی وہ خبر واحد ہی رہتی ہے حد تواتر کونہیں پہنچ پاتی۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7353   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.