الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
23. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ} :
23. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں“۔
(23) Chapter. The Statement of Allah: “The angels and the Ruh [Jibril (Gabriel)] ascend to Him...” (V.70:4) The Statement of Allah: "To Him ascend (all) the goodly words…" (V.35:10)
حدیث نمبر: 7433
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا وكيع، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن ابيه، عن ابي ذر، قال:" سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن قوله: والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38، قال: مستقرها تحت العرش".حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:" سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38، قَالَ: مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ".
ہم سے عیاش بن الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت «والشمس تجري لمستقر لها‏» کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔

Narrated Abu Dharr: I asked the Prophet regarding the Verse:--'And the sun runs on its fixed course for a term decreed for it.' (36.28) He said, "Its fixed course is underneath Allah's Throne."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 528

   صحيح البخاري4803جندب بن عبد اللهمستقرها تحت العرش
   صحيح البخاري7433جندب بن عبد اللهمستقرها تحت العرش
   صحيح مسلم402جندب بن عبد اللهمستقرها تحت العرش

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7433  
7433. سیدنا ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے (اللہ تعالیٰ کے) اس فرمان کے متعلق سوال کیا: اور سورج اپنی مقرر گزر گاہ پر چل رہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7433]
حدیث حاشیہ:
باب کی سب احادیث میں امام بخاری  نےعلو اور فوقیت باری تعالیٰ ثابت کی اور اس کےلیے جہت فوق ثابت کی جیسے اہل حدیث کا مذہب ہےاور ابن عباس ؓ کی روایت میں جو رب العرش ہے اس سے بھی یہی مطلب نکلا کیونکہ عرش تمام اجسام کےاوپر ہے اور رب العرش عرش کے اوپر ہوگا اورتعجب ہے ابن منیر سے کہ انہوں نے امام بخاری کےمشرب کے خلاف یہ کہا کہ اس باب سے ابطال جہت مقصود ہے۔
اگر امام بخاری کی یہ غرض ہوتی تووہ صعود اورعروج کی آیتیں اورعلو کی احادیث اس باب میں کیوں لائے معلوم ہوا کہ فلاسفہ کےچوزوں کا اثر ابن منیر اورابن حجر اور ایسے علماء حدیث پر کیونکر پڑ گیا جو اثبات جہت کی دلیلوں سےالٹا مطلب سمجھتےہیں یعنی ابطال جہت، إن ھذا الشیئ عجاب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7433   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7433  
7433. سیدنا ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے (اللہ تعالیٰ کے) اس فرمان کے متعلق سوال کیا: اور سورج اپنی مقرر گزر گاہ پر چل رہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7433]
حدیث حاشیہ:

یہ زمین جس پر ہم آباد ہیں، سورج اس سے کروڑوں میل کی بلندی پر ہے۔
اس قدر بلند ہونے کے باوجود بھی یہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے ہے۔
اور عرش عظیم تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی صراحت ہے۔
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے علو ثابت کیا ہے۔
یہ علو کیسا ہے؟ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے مگر اس استواء کی کیفیت کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:
لفظ استواء سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر قرار پکڑنے یا بلند ہونے کے معنی تو واضح ہیں مگر اللہ تعالیٰ کےعرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے متعلق ہمیں شارع علیہ السلام کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے مستوی علی العرش ہونے پر ایمان لانا تو واجب ہے جبکہ اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
(فتح الباري: 500/13)

بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہے لیکن شارح صحیح بخاری ابن منیر پر تعجب ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے خلاف یہ کہا کہ اس عنوان سے ابطال جہت مقصود ہے۔
اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہی غرض ہوتی تو عروج ملائکہ اور صَعُود کلمات طیبات پر مشتمل آیات اور ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علوثابت کرنے والی احادیث اس عنوان کے تحت کیوں لائے؟3۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کےعلو اور اس کے مستوی علی العرش ہونے کے متعلق لوگوں کی چار قسمیں ہین جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اللہ تعالیٰ نہ عالم سے خارج ہے اور نہ اس میں داخل ہے، اس کے لیے کوئی جہت اوپر یا نیچے نہیں۔
۔
اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔
وحدت الوجود کی بنیاد بھی یہی ہے۔
۔
وہ عرش کے اوپر بھی ہے اورذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود بھی ہے۔
۔
کتاب و سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے وہی چیز ثابت کی جائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کی ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق نشاندہی کی ہے۔
اس میں کوئی تحریف وتاویل نہ کی جائے اور نہ مخلوق کے مماثل ہی قرار دیا جائے۔
اس عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر بلند ہے، آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: 229/5)

برصغیر میں بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے اور وہ وحدت الوجود کو صحیح اور برحق قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں اور جو اس میں چڑھتی ہے اور جہاں کہیں بھی تم ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے۔
(الحدید 4)
اس آیت کریمہ میں دونوں مسئلے ثابت ہوئے کہ وہ اللہ ذات کے اعتبار سے اپنے عرش پر بلند ہے اور علم کے اعتبار سے ہرجگہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت سے مراد اس کی ہمہ گیر نگرانی ہے اوروہ روئے زمین سے متعلق نہیں بلکہ کائنات میں ہرجگہ موجود رہتی ہے۔
انسانوں کے تمام اقوال وافعال اور ان کی تمام حرکات وسکنات اس کے علم میں ہیں۔
نہ کوئی اللہ تعالیٰ سے چھپ سکتاہے اور نہ اپنے افعال واعمال ہی سے اس سے چھپا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت اس کی ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدرت اور اس کے علم کے لحاظ سے ہوتی ہے، چنانچہ امام ابن جریر طبری مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اے لوگو! وہ اللہ تم پر گواہ ہے، تم جہاں بھی ہو وہ تمھیں جانتا ہے۔
وہ تمہارے اعمال، تمہارا ٹھکانا اور نقل وحرکت جانتا ہے اور وہ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
(تفسیر طبری: 125/27)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اللہ تعالیٰ کی معیت کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا:
اس سے اللہ تعالیٰ کا علم مراد ہے۔
وہ عالم الغیب ہے، ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
وہ شاہد ہے، علامہ الغیوب ہے۔
وہ غیب جانتا ہے اور ہمارا رب تکییف کے بغیرعرش پر ہے لیکن ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے۔
(شرح حدیث النزول:
ص: 74)

بہرحال اس بات پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: 650/17)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7433   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.