الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
84. بَابُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ:
84. باب: رفع یدین تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت کرنا (سنت ہے)۔
(84) Chapter. To raise both hands while saying Takbir [on opening As-Salat (the prayer)] , and while bowing and on raising up the head (after bowing).
حدیث نمبر: 737
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسحاق الواسطي، قال: حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن ابي قلابة،" انه راى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، وإذا اراد ان يركع رفع يديه، وإذا رفع راسه من الركوع رفع يديه، وحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ،" أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا".
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

Narrated Abu Qilaba: I saw Malik bin Huwairith saying Takbir and raising both his hands (on starting the prayers and raising his hands on bowing and also on raising his head after bowing. Malik bin Huwairith said, "Allah's Apostle did the same."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 704

   صحيح البخاري737مالك بن الحويرثصلى كبر ورفع يديه وإذا أراد أن يركع رفع يديه وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه وحدث أن رسول الله صنع هكذا
   صحيح البخاري824مالك بن الحويرثيتم التكبير وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس واعتمد على الأرض ثم قام
   صحيح مسلم865مالك بن الحويرثكبر رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه وإذا ركع رفع يديه حتى يحاذي بهما أذنيه وإذا رفع رأسه من الركوع فقال سمع الله لمن حمده
   صحيح مسلم864مالك بن الحويرثكبر ثم رفع يديه وإذا أراد أن يركع رفع يديه وإذا رفع رأسه من الركوع رفع يديه
   سنن أبي داود745مالك بن الحويرثيرفع يديه إذا كبر وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع حتى يبلغ بهما فروع أذنيه
   سنن النسائى الصغرى882مالك بن الحويرثحين دخل في الصلاة رفع يديه وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع حتى حاذتا فروع أذنيه
   سنن النسائى الصغرى881مالك بن الحويرثإذا صلى رفع يديه حين يكبر حيال أذنيه وإذا أراد أن يركع وإذا رفع رأسه من الركوع
   سنن النسائى الصغرى1057مالك بن الحويرثيرفع يديه إذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع حتى يحاذي بهما فروع أذنيه
   سنن النسائى الصغرى1086مالك بن الحويرثرفع يديه في صلاته وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وإذا سجد وإذا رفع رأسه من السجود حتى يحاذي بهما فروع أذنيه
   سنن النسائى الصغرى1144مالك بن الحويرثإذا دخل في الصلاة رفع يديه وإذا ركع فعل مثل ذلك وإذا رفع رأسه من الركوع فعل مثل ذلك وإذا رفع رأسه من السجود فعل مثل ذلك كله يعني رفع يديه
   سنن النسائى الصغرى1025مالك بن الحويرثيرفع يديه إذا كبر وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع حتى بلغتا فروع أذنيه
   سنن ابن ماجه859مالك بن الحويرثإذا كبر رفع يديه حتى يجعلهما قريبا من أذنيه وإذا ركع صنع مثل ذلك وإذا رفع رأسه من الركوع صنع مثل ذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 735، 736، 737  
´رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین کرنا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے (رفع یدین کرتے) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 735]

فوائد و مسائل:
اہل فہم اور جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس کے اتباع کا شوق عطا فرمایا ہے، اس کے لئے یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔ ہاں اتنا واضح ہو کہ رفع الیدین کی حدیث بہت سی سندوں سے مروی ہے، حتیٰ کہ چند ائمہ مثلاً:
◈ امام ابن حزم، سیوطی اور مجدد الدین الفیروز آبادی وغیرہم اس حدیث کے متواتر ہونے کے قائل ہیں [المحليٰ لابن حزم: 934، الازها، المتناثره فى الاخبار المتواتره للسيوطي: 48، سفر السعادة: 14]
◈ اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں اپنے استاذ امام عراقی سے نقل فرمایا ہے کہ:
میں نے اس حدیث کے روایت کنندہ صحابہ کا تتبع کیا تو پچاس کو پہنچا۔ [فتح الباري: 149/2]
↰ اور اس مسکین نے بھی ان کا تتبع کیا تو باوجود کم علمی کے اور قلت الاطلاع علیٰ نسب الحدیث کے بیس کو پہنچا، جن کے اسماء گرامی یہ ہیں:
➊ ابوبکر صدیق
➋ عمر بن الخطاب
➌ علی بن ابی طالب
➍ ابن عمر
➎ ابن عباس
➏ ابن الزبیر
➐ ابوہریرۃ
➑ ابوموسیٰ اشعری
➒ ابوحمید ساعدی
➓ محمد بن مسلمہ
⓫ ابواسید
⓬ مالک بن الحویرث
⓭ وائل بن حجر
⓮ سہل بن سعد
⓯ ابوقتادہ
⓰ انس بن مالک
⓱ جابر بن عبداللہ
⓲ براء بن عازب
⓳ عمر اللیثی
⓴ معاذ بن جبل [ديكهئيے اثبات رفع اليدين، جلاء العينين، تمييز الطيب]
نیز حافظ زیلعی نصب الرایہ میں امام بیہقی کے خلافیات سے ایک حدیث شریف لائے ہیں، جس سے رفع الیدین کے متعلق مواطن مذکورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امر ثابت ہوتا ہے۔ [نصب الراية فى التخريج احاديث هدايه]

نیز مالک بن الحویرث کی حدیث سے بھی امر مستفاد ہے۔ اس لئے چند محدثین مثلاً:
➊ محمد بن سیرین،
➋ حمیدی،
➌ اوزاعی،
➍ امام احمد بن حنبل،
➎ امام ابن خزیمہ اور
➏ امام ابن حبان وغیرہم
رفع الیدین کے وجوب کے قائل ہیں اور احقر کے ہاں بھی یہ قول مستند ہے۔ اس لیے کہ امر وجوب کے لئے ہوتا ہے جب تک اس کے لئے دلیل صارف نہ پائی جائے اور «فيما نحن فيه امر» کا بھی کوئی دلیل صارف نہیں ہے۔

◈ اور جو عبداللہ بن مسعود والی حدیث ہے اس کو محدثین نے ضعیف بتلایا ہے۔ [جزء رفع اليدين للبخاري طبع دهلي]
↰ اور امام ابوحنیفہ کے تلمیذ رشید امیر المجاہدین والزاہدین عبداللہ بن المبارک نے اس حدیث کے متعلق یوں کہا ہے: «لم يثبت حديث ابن مسعود . . . .» الخ [سنن ترمذي ابواب الصلوة، باب رفع اليدين عند الركوع]

◈ باقی رہی «كاذناب الخيل الشمس» والی حدیث، سو وہ تو سلام کے متعلق ہے اور اس کا رفع الیدین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ [جزء رفع اليدين للبخاري]
↰ اس لئے کہ اگر اس حدیث کا تعلق رفع الیدین کے ساتھ مانا جائے تو پھر مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان میں کوئی تعلق اور مناسبت نہیں رہتی اور شارع بارع علیہ السلام کا یہ کلام _ بن جاتا ہے۔ «حاشاًلله»
کیونکہ آپ خالی الذہن ہو کر غور کریں تو آپ کو بخوبی معلوم ہو جائے گا کہ مذکورہ ہیبت پر رفع الیدین کرنے اور گھوڑے کی دم ہلانے کے درمیان کتنا ہی بون بعید ہے۔ ہاں اگر سلام کے جواب کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو پھر مشبہ اور مشبہ بہ کے درمیان میں مناسبت پوری طرح ہے۔

نیز اگر اس کا رفع الیدین در اوقات مخصوصہ کے ساتھ تعلق مانا جائے تو بھی یہ حدیث حنفیہ کے لئے مذہب شکن ہے۔ کیونکہ وہ تکبیرات عیدین اور وتر میں قنوت کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔ «فما هو جوابهم فهو جوابنا» معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا امر کا کوئی قرینہ صارفہ نہیں ہے۔
اس لئے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قاعدہ تھا جیسا کہ ان سے امام بخاری کے جزء رفع الیدین میں اور سنن دارقطنی میں مروی ہے کہ:
«اذا راي رجلا لا يرفع يديه اذا ركع واذا رفع رماه بالحصيٰ» [جزء رفع اليدين للبخاري، سنن دارقطني مع التعليق المغني: 392/1، 1105]
آپ جس کو دیکھتے کہ وہ رکوع کی طرف جاتے اور رکوع سے واپس آنے کے وقت رفع الیدین نہیں کرتا تو اس کو کنکریاں مارتے تھے۔

اور یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسا جلیل القدر امام کسی کو مستحب کے ترک کرنے پر سزا دے، بلکہ ضرور ان کے ہاں رفع الیدین کا وجوب ثابت ہوا ہے اور اگر مستحب چھوڑنے پر بھی سزا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو جس نے کہا کہ «لا يزيد على هذا ولا انقص» میں اس کو بہشتی کہنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔ «فاعتبروا يا اولي الابصار .»
   اہلحدیث کے امتیازی مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 38   
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 737  
´رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین`
«. . . وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ . . .»
. . . پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے . . . [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة: 744]

فقہ الحدیث:
راوی حدیث کا عمل:
◈ ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے:
«أنه راى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا أراد أن يركع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا .»
انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري: 102/1، ح: 737، صحيح مسلم: 168/1، ح: 391]
↰ صحابی رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 11، حدیث\صفحہ نمبر: 9   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 745  
´جنہوں نے دو رکعت کے بعد اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کا ذکر کیا ہے ان کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے جب آپ تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کانوں کی لو تک لے جاتے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 745]
745۔ اردو حاشیہ:
«فروع اذنيه» کی شرح میں دو قول ہیں۔ ایک تو یہی کہ کان کے نیچے جو نرم گوشت والا حصہ ہوتا ہے اسے «شحمة الاذن» بھی کہتے ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ کان کی اوپر والی چوٹی کو «فرع الاذن» کہا جاتا ہے اور لغت اسی کی تائید کرتی ہے۔ امام شافعی اللہ نے ان مختلف روایات کو یوں جمع کیا ہے کہ ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں، اس طرح کہ انگوٹھے کانوں کی لوؤوں کے برابر اور انگلیاں اوپر کے حصے کے برابر آ جائیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 745   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 881  
´نماز دونوں ہاتھ کانوں کے بالمقابل اٹھانے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو جس وقت آپ اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے کانوں کے بالمقابل اٹھاتے، اور جب رکوع کرنے اور رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کرتے (تب بھی اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل اٹھاتے)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 881]
881 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ رفع الیدین رکوع میں جانے سے پہلے قیام کی حالت میں کرنا چاہیے نہ کہ جاتے ہوئے۔ اسی طرح جب سر اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو جائے تو پھر رفع الیدین کرنا چاہیے، نہ کہ سراٹھاتے ہوئے۔ گویا رفع الیدین قیام کی حالت ہی میں ہونا چاہیے۔
➋ حضرت وائل بن حجر اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہم دونوں صحابی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے آخر میں مسلمان ہوئے ہیں، دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور دونوں ہی رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع الیدین کرنے کی احادیث بیان کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ درست نہیں، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 881   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1025  
´رکوع کے لیے دونوں ہاتھ کانوں کی لو کے بالمقابل اٹھانے کا بیان۔`
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے، اور جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے، تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی کانوں کی لو تک پہنچ جاتے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1025]
1025۔ اردو حاشیہ: حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ماہ رجب المرجب سن 9ھ میں مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ رفع الیدین کے ایک اور راوی صحابیٔ رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ شوال المکرم 10ھ میں حاضر ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر عمر تک رفع الیدین فرماتے رہے۔ اس حدیث سے احناف کے دعوائے نسخ کی تردید ہوتی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ احناف رکوع کو جاتے اور اٹھتے وقت کے رفع الیدین کو تو نہیں مانتے جو بہت قوی اسناد سے ثابت ہیں مگر قنوت وتر اور تکبیرات عیدین کے رفع الیدین کے قائل ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ اگر رفع الیدین منسوخ ہے تو یہ دو کیوں نہ منسوخ ہوئے؟ آخر تفریق کی کوئی وجہ؟ جو اعتراضات رکوع کے رفع الیدین پر کیے جاتے ہیں، کیا وہ قنوت کے رفع الیدین پروارد نہیں ہوتے؟ رفع الیدین منسوخ بھی ہے، نماز کے سکون کے منافی بھی ہے مگر شروع نماز میں دوران نماز قنوت وتر میں اور عیدین کی تکبیرات میں بار بار کیے بھی جا رہے ہیں؟ صرف رکوع کا رفع الیدین ہی اتنا قبیح ہے کہ اس پر اعتراضات بھی ہیں اور وہ منع بھی ہے؟ کیا صرف رکوع کے رفع الیدین کے نسخ کی کوئی معقول وجہ ہے؟ یا تو سب کو ختم کر دیا انہیں بھی مانو۔ یاأولی الالباب! (مزید بحث کے لیے دیکھیے فوائد حدیث نمبر 877 و مابعد)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1025   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:737  
737. حضرت مالک بن حویرث ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع کرنا چاہتے تو بھی اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور وہ بیان کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:737]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنا موقف ثابت کرنے کے لیے بے ہنگم قیل وقال میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اپنے موقف کے اثبات کے لیے احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔
امام بخاری ؒ کے عنوانات کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ٹھوس ہوتے ہیں۔
آپ نے اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں رفع الیدین سے متعلق دو احادیث کا حوالہ دیا ہے۔
ہم بھی ان کا طریقہ اپناتے ہوئے اس سلسلے میں مزید چند احادیث کا حوالہ دیتے ہیں تاکہ قاری کو اس سنت پر عمل کرنے میں سہولت رہے:
٭حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے او جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور کہتے تھے رسول اللہ ﷺ بھی نماز کے شروع میں، رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے۔
(السنن الکبرٰی للبیهقي، الصلاة: 2/73)
٭ سیدنا عمر فاروق ؓ نے ایک مرتبہ لوگوں کو نماز کا طریقہ بتانے کا ارادہ کیا تو قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہو گئے اور دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا، پھر اللہ أکبر کہا۔
اس کے بعد رکوع کیا اور اسی طرح ہاتھوں کو بلند کیا اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کیا۔
(الخلافیات للبیهقي بحوالہ نصب الرایة: 2/415)
٭حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے شروع میں، رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اور دورکعت پڑھ کر کھڑا ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 744)
٭حضرت ابو حمید ساعدی ؓ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دورکعت پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔
تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا تم سچ بیان کرتے ہو، واقعی رسول اللہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 304)
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجمع میں حضرت ابو قتادہ، سہل بن سعد ساعدی ؓ اور ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہم موجود تھے۔
(صحیح ابن خزیمة: 298/2)
امام محمد بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ حدیث سنی اور رفع الیدین نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔
(صحیح ابن خزیمة: 2/298)
٭ حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اللہ أکبر کہتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، پھر اپنے ہاتھ کپڑے میں ڈھانپ لیتے اور دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے۔
جب رکوع کرنے لگتے تو ہاتھ کپڑوں سے باہر نکالتے، اللہ أکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے۔
جب رکوع سے اٹھتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور رفع الیدین کرتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 896(401)
واضح رہے کہ حضرت وائل بن حجر ؓ یمن کے رہنے والے تھے، 9 اور 10 ہجری میں دو دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ 10ہجری تک رفع الیدین کرتے تھے۔
11 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی، لہٰذا آخر عمر تک رفع الیدین کرنا ثابت ہوا۔
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ایک دن لوگوں سے فرمایا:
کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ بتاؤں؟اس کے بعد انھوں نے نماز پڑھی۔
جب تکبیر تحریمہ کہی تو رفع الیدین کیا، پھر جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور تکبیر کہی، پھر سمع الله لمن حمده کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھائے، اس کے بعد فرمایا کہ اسی طرح کیا کرو۔
(سنن الدار قطني: 1/291، حدیث: 1292، طبع دارالمعرفة، بیروت)
٭حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ شروع نماز میں، رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 738)
واضح رہے کہ بعض روایات کے مطابق حضرت ابو ہریرہ ؓ حضرت ابو حمیدی ساعدی ؓ کی رفع الیدین کے متعلق تصدیق کرنے والوں میں ہیں جبکہ انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع میں اسے بیان کیا تھا۔
(فتح الباري: 397/2)
٭ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کرتے تھے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 868) (2)
مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو بیان کرنے والے مندرجہ ذیل صحابہ ہیں:
٭ حضرت عبداللہ بن عمر٭حضرت مالک بن حویرث٭حضرت ابو بکر صدیق٭حضرت عمر فاروق٭حضرت علی٭حضرت ابو حمید ساعدی٭حضرت وائل بن حجر٭حضرت ابو موسیٰ اشعری٭حضرت ابو ہریرہ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم۔
ان کے علاوہ حضرت سہل بن سعدساعدی٭ابو اسید ساعدی اور محمد بن مسلمہ٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہم حضرت ابو حمید ساعدی کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں۔
حدیث متواتر کی تعریف یہ ہے کہ جسے کم از کم دس راوی بیان کریں۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ رفع الیدین کی احادیث متواتر ہیں۔
اس بنا پر رفع الیدین کا اثبات قطعئ الثبوت ہے اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں، نیز الکتانی، ابن جوزی، حافظ ابن حجر، ابن حزم، سیوطی، العراقی، سخاوی اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ وغیرہ ہم نے رفع الیدین کے متواتر ہونے کی تصریح کی ہے۔
والله المستعان۔
امام بخاری ؒ نے اس سنت متواترہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک مستقل رسالہ جزء رفع الیدین بھی لکھا ہے جو استاذی المکرم شاہ بدیع الدین راشدی ؒ کی تحقیق وتخریج سے مطبوع ومتداول ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 737   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.