الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
57. بَابُ قِرَاءَةِ الْفَاجِرِ وَالْمُنَافِقِ، وَأَصْوَاتُهُمْ وَتِلاَوَتُهُمْ لاَ تُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ:
57. باب: فاسق اور منافق کی تلاوت کا بیان اور اس کا بیان کہ ان کی آواز اور ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی۔
(57) Chapter. The recitation of the Quran by an impious person or a hypocrite; and the fact that their voices and recitation do not exceed their throats (i.e., do not benefit them).
حدیث نمبر: 7562
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو النعمان، حدثنا مهدي بن ميمون سمعت محمد بن سيرين، يحدث، عن معبد بن سيرين، عن ابي سعيد الخدري رضي الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" يخرج ناس من قبل المشرق ويقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، ثم لا يعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه قيل ما سيماهم؟، قال: سيماهم التحليق، او قال التسبيد".حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، يُحَدِّثُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ فِيهِ حَتَّى يَعُودَ السَّهْمُ إِلَى فُوقِهِ قِيلَ مَا سِيمَاهُمْ؟، قَالَ: سِيمَاهُمُ التَّحْلِيقُ، أَوْ قَالَ التَّسْبِيدُ".
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی بن میمون ازدی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن سیرین سے سنا، ان سے معبد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دئیے جائیں گے جیسے تیر پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ کبھی دین میں نہیں واپس آ سکتے، یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ (خود) واپس آ جائے، پوچھا گیا کہ ان کی علامت کیا ہو گی؟ تو فرمایا کہ ان کی علامت سر منڈوانا ہو گی۔

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said, "There will emerge from the East some people who will recite the Qur'an but it will not exceed their throats and who will go out of (renounce) the religion (Islam) as an arrow passes through the game, and they will never come back to it unless the arrow, comes back to the middle of the bow (by itself) (i.e., impossible). The people asked, "What will their signs be?" He said, "Their sign will be the habit of shaving (of their beards). (Fath-ul-Bari, Page 322, Vol. 17th)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 651

   صحيح البخاري4351سعد بن مالكألا تأمنوني وأنا أمين من في السماء يأتيني خبر السماء صباحا ومساء قال فقام رجل غائر العينين مشرف الوجنتين ناشز الجبهة كث اللحية محلوق الرأس مشمر الإزار فقال يا رسول الله اتق الله قال ويلك أولست أحق أهل الأرض أن يتقي الله قال ثم ولى الرجل قال خالد بن
   صحيح البخاري3610سعد بن مالكومن يعدل إذا لم أعدل قد خبت وخسرت إن لم أكن أعدل فقال عمر يا رسول الله ائذن لي فيه فأضرب عنقه فقال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله
   صحيح البخاري6931سعد بن مالكيخرج في هذه الأمة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم يقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم أو حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء
   صحيح البخاري6933سعد بن مالكيمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح البخاري5058سعد بن مالكيخرج فيكم قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم وصيامكم مع صيامهم وعملكم مع عملهم ويقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر في النصل فلا يرى شيئا وينظر في القدح فلا يرى شيئا وينظر في الريش فلا يرى شيئا ويتمارى في الفوق
   صحيح البخاري7432سعد بن مالكمن يطيع الله إذا عصيته فيأمنني على أهل الأرض ولا تأمنوني فسأل رجل من القوم قتله أراه خالد بن الوليد فمنعه النبي فلما ولى قال النبي إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من
   صحيح البخاري6163سعد بن مالكيمرقون من الدين كمروق السهم من الرمية
   صحيح البخاري7562سعد بن مالكيخرج ناس من قبل المشرق ويقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ثم لا يعودون فيه حتى يعود السهم إلى فوقه قيل ما سيماهم قال سيماهم التحليق أو قال التسبيد
   صحيح البخاري4667سعد بن مالكيخرج من ضئضئ هذا قوم يمرقون من الدين
   صحيح مسلم2455سعد بن مالكيخرج في هذه الأمة ولم يقل منها قوم تحقرون صلاتكم مع صلاتهم فيقرءون القرآن لا يجاوز حلوقهم أو حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية فينظر الرامي إلى سهمه إلى نصله إلى رصافه فيتمارى في الفوقة هل علق بها من الدم شيء
   صحيح مسلم2451سعد بن مالكيقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح مسلم2457سعد بن مالكهم شر الخلق أو من أشر الخلق يقتلهم أدنى الطائفتين إلى الحق
   صحيح مسلم2452سعد بن مالكيتلون كتاب الله رطبا لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية
   صحيح مسلم2456سعد بن مالكيقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية
   سنن أبي داود4764سعد بن مالكمن يطيع الله إذا عصيته أيأمنني الله على أهل الأرض ولا تأمنوني قال فسأل رجل قتله أحسبه خالد بن الوليد قال فمنعه قال فلما ولى قال إن من ضئضئ هذا أو في عقب هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدع
   سنن النسائى الصغرى4106سعد بن مالكمن ضئضئ هذا قوما يخرجون يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لئن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد
   سنن النسائى الصغرى2579سعد بن مالكمن ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان يمرقون من الإسلام كما يمرق السهم من الرمية لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد
   سنن ابن ماجه169سعد بن مالكيمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7432  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ المعارج میں) فرمان فرشتے اور روح القدس اس کی طرف چڑھتے ہیں`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتِهَا، فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَبَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ وَبَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ وَبَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَتَغَضَّبَتْ قُرَيْشٌ، وَالْأَنْصَارُ، فَقَالُوا: يُعْطِيهِ صَنَادِيدَ أَهْلِ نَجْدٍ وَيَدَعُنَا، قَالَ: إِنَّمَا أَتَأَلَّفُهُمْ، فَأَقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ، كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللَّهَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ إِذَا عَصَيْتُهُ، فَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي، فَسَأَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ؟ قَتْلَهُ أُرَاهُ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ . . .»
. . . ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ سونا بھیجا گیا تو آپ نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا۔ اور مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں سفیان نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں ابن ابی نعم نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدری فزاری، علقمہ بن علاثہ العامری اور زید الخیل الطائی میں تقسیم کر دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کے رئیسوں کو تو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک مصلحت کے لیے ان کا دل بہلاتا ہوں۔ پھر ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گھنی تھی، دونوں کلے پھولے ہوئے تھے اور سر گٹھا ہوا تھا۔ اس مردود نے کہا: اے محمد! اللہ سے ڈر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں بھی اس (اللہ) کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اس کی اطاعت کرے گا؟ اس نے مجھے زمین پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے۔ پھر حاضرین میں سے ایک صحابی خالد رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پھر جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کے صرف لفظ پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکال کر پھینک دئیے جائیں گے جس طرح تیر شکاری جانور میں سے پار نکل جاتا ہے، وہ اہل اسلام کو (کافر کہہ کر) قتل کریں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں نے ان کا دور پایا تو انہیں قوم عاد کی طرح نیست و نابود کر دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7432]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7432 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {تَعْرُجُ الْمَلاَئِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا بظاہر باب سے مناسبت دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تحت الباب نہ تو فرشتوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اعمال صالحہ کا اوپر چڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اسی روایت کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں باب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«حديث أبى سعيد الخدري رضي الله عنه، و مناسبة للترجمة من جهة أنه ورد فى بعض روايات هذا الحديث: ألا تأمنوني و أنا أمين من فى السماء فجرى البخاري على عادته المعروفة من الإشارة إلى الرواية التى لم يوردها لإرادة تشحيذ أذهان الطلبة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 271/5]
حدیث سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی باب سے مناسبت اس جہت سے ہے کہ بعض روایات میں اس حدیث کے یہ الفاظ وارد ہیں: میں اس اللہ کا امین ہوں جو آسمانوں میں ہے، پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ تشحیذ کا سامان پیدا ہو جائے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بعض لوگوں نے مناسبت دینے کے لیے تکلف کیا ہے کہ کتاب المغازی میں یہ روایت ہے کہ «و أنا أمين من فى السماء» ۔ [عمدة القاري للعيني: 181/25]

لہٰذا ان تصریحات سے مناسبت کا پہلو اس طرح سے اجاگر ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «و أنا أمين» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پس انہی الفاظوں کے ساتھ باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 320   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث169  
´خوارج کا بیان۔`
ابوسلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حروریہ ۱؎ (خوارج) کے بارے میں کچھ ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی قوم کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے جو بڑی عبادت گزار ہو گی، اس کی نماز کے مقابلہ میں تم میں سے ہر ایک شخص اپنی نماز کو کمتر اور حقیر سمجھے گا ۲؎، وہ دین سے ایسے ہی نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار کے جسم سے نکل جاتا ہے کہ تیر انداز اپنا تیر لے کر اس کا پھل دیکھتا ہے، تو اسے (خون وغیرہ) کچھ بھی نظر نہیں آتا، پھر اس کے پھل کو دیکھتا ہے تو بھی کچھ نظر نہیں آت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 169]
اردو حاشہ:
(1)
خوارج، نماز روزہ وغیرہ نیک اعمال میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ صحابہ بھی دیکھیں تو تعجب کریں۔
لیکن عقیدے کی خرابی کے ساتھ نیک عمل میں جتنی بھی محنت کی جائے، کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

(2)
اس حدیث میں تیر کے مختلف حصوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

نَصْل (پھل)
تیر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو لوہے کا بنا ہوتا ہے اور تیز دھار ہونے کی وجہ سے زخمی کرتا ہے۔

رِصَاف وہ پٹھے جو تیر میں وہاں ہوتے ہیں جہاں لوہے کا پھل لکڑی سے ملتا ہے۔

قَدْح:
تیر کی وہ لمبی لکڑی جس کے سرے پر نصل لگایا جاتا ہے۔

قُذَذ:
اُن پروں کو کہتے ہیں جو تیر کے پچھلے حصے میں ہوتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ تیر کے کسی حصے میں شکار شدہ جانور کا خون یا گوشت کا ٹکڑا تک نہیں لگا بلکہ تیر اسے لگ کر اتنی تیزی سے پار ہو گیا کہ بالکل صاف نکل گیا۔
اسی طرح یہ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور سیدھے باہر نکل گئے۔
اسلام کی دینی اور اخلاقی تعلیمات کا کچھ اثر قبول نہیں کیا۔

(3)
اگرچہ خوارج کی گمراہی واضح ہے اور صحیح اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے، تاہم علماء کی اکثریت نے اس کے باوجود انہیں مرتد یا غیر مسلم قرار نہیں دیا بلکہ گمراہ اور باغی ہی فرمایا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 169   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4764  
´چوروں سے مقابلہ کرنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی سے آلودہ سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار لوگوں: اقرع بن حابس حنظلی مجاشعی، عیینہ بن بدر فزاری، زید الخیل طائی جو بنی نبہان کے ایک فرد ہیں اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بنی کلاب سے ہیں کے درمیان تقسیم کر دیا، اس پر قریش اور انصار کے لوگ ناراض ہو گئے اور کہنے لگے: آپ اہل نجد کے رئیسوں کو دیتے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان کی تالیف قلب کرتا ہوں اتنے میں ایک شخص آیا (جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4764]
فوائد ومسائل:
رسول ؐ انتہائی حلیم ومتحمل مزاج تھے اور بے ادب وگستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر کر جاتے تھے۔
چنانچہ حکام، قضاہ اور اصحاب منصب کو بھی چاہیے کہ پہلے جاہلوں کی اصلاح کی کوشش کریں، اگر وہ اعلانیہ فساد پھیلانے لگیں تو ان کا قلع قمع کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4764   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7562  
7562. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق کی طرف سے رون ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دیں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ وآپس دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ پر واپس آجائے۔ پوچھا گیا: ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ان کی علامت سرمنڈوانا ہے، یا فرمایا: بالوں کو جڑ سے نیست ونابود کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7562]
حدیث حاشیہ:
عراق مدینہ سےمشرق کی طرف ہےوہاں سےخارجی نکلے جنہوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان کےخلاف بغاوت کی۔
حدیث قرن الشیطان والی اصلی معنوں میں:
جن لوگوں کو رسو ل اللہ ﷺکی حدیث کے سمجھنے کا ملکہ ہے اورجو حدیث شریف کےنکات ودقائق اور رموز سےکما حقہ، واقف اورآشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا کلام پاک پر مغز اورمختصر ہے کیونکہ خیر الکلام ما قل دل کلام کی خوبی یہی ہے کہ مختصر ہو لیکن مکمل اور پرازمطالب ہو۔
اس اصول کی مدنظر رکھ کر اب احادیث ذیل پرغور کرنے سے حقیقت امر ظاہر ہوجائے گی اور طالبان حق پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ رسول اللہﷺ نےمشرق کی جانب رخ فرماتے ہوئے جس فتنہ اورجس شر اورزلزلہ کے خطرات سے ہمیں اطلا ع دی دراصل اس اشارہ کا مشاالیہ عراق اور ہندوستان ہے۔
کیونکہ عراق تو فتنوں اور شرارتوں کی وجہ سے وہ نام پیدا کر چکا ہے کہ شاید ہی دنیائے اسلام کےممالک میں کوئی ایسا بدترین فتنہ خیز ملک ہو۔
اسی لیے رسول اللہﷺ نےبصرہ کے ذکر پرفرمایا کہ بِهَا خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَرَجْفٌ وَقَوْمٌ يَبِيتُونَ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ (ابوداؤد)
یعنی یہاں کے لوگ ایسے شریراور بداعمال ہوں گے اور ایسے متلون المزاج، بزدل اور ڈھل مل یقین اور ناقابل اعتماد ہوں گے کہ رات کو کچھ خیالات لے کر سوئیں گے اور دن کو کچھ اور ہی بن کر اٹھیں گے، بندراورسور ہوں گے۔
یا تو عادات میں دیوث، بےغیرت اورمکار، یا شکل وشباہت میں۔
اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےعراق کے لیے دعا نہ فرمائی حالانکہ آپ کو باربار توجہ بھی دلائی گئی کہ حضور! ہماری وہاں سے بہت سی حاجتیں اورضرورتیں ہیں۔
بلکہ اس کےجواب میں آنحضرت ﷺ نےاس ملک کی غداری وفتن پروری کے متعلق کھری کھری باتیں فرما دیں۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔
عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا في مدينتنا -اللهم بَارِك لنَا في شامِنَا-اللهم بَارِك لنَا في يمنِنا -فقال رجل يارسول الله! فاالعراق فإن فيها ميرتنا وفيها حاجاتنا فسكت ثم أَعادَ عليهِ فسكتَ فقال بها يطلعُ قرنُ الشيطانِ وهناك الزلازلُ والفتنُ (كنزل العمال، جلد:
هفتم/ ص: 16)

حضرت حسن بصری راوی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نےمدینہ اورشام ویمن کے لیے دعائے برکت فرمائی تو ایک صحابی دست بستہ عرض کرنے لگا۔
حضور ﷺ عراق کےلیے بھی دعا فرمائیے کیونکہ وہ ملک ہمارے پڑوس ہی میں ہےاور ہم وہاں سے غلہ لاتے ہیں اور تجارت وغیرہ اوربہت سے ہمارے کاروبار اس ملک سے رہتے ہیں تو آپﷺ خاموش رہے۔
جب اس شخص نےبااصرار عرض کیا توحضور ﷺنےاس کے جواب میں فرمایا کہ اس ملک سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا اور فتنے اور فساد ایسے ہوں گے جن سے امت مرحومہ کےافراد میں ایک زلزلہ ساپیدا ہو جائے گا توچونکہ رسول اللہ ﷺ نے صاف طورپر صحابہ کے ذہن نشین کرا دیا تھا کہ عراق ہی منشاء فتن اورباعث فساد فی الامت ہوگا اس لیے یہی وجہ ہے کہ وہ (صحابہ)
اور ان کےبعد والے لوگ اورشارحین حدیث جو اپنی وسیع النظری اورتبحرعلمی اور معلومات کی بنا پر نجد والی حدیث کا اصلی مطلب سمجھ کرعوام کے سامنے پیش کرتے رہے اورانہوں نے نجد ملک عراق کو قرار دیا۔
جو دراصل ہے بھی۔
میں حیران ہوں کہ آج کل کے لوگ کس قدر تنگ خیال اورمتعصب واقع ہوئے ہیں کہ ذرا سےاختلاف پر رافضیوں کی سی تبرا بازی پراتر آتے ہیں اوراپنی اصلیت سے بے خبر ہوکر مومنین قاتین وصالحین پرلعنتیں بھیجنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ انہی کا ہم خیال شیخ دحلان اپنی کتاب کے ص 35پرلکھتا ہے۔
ایسے امر کےسبب سے جس کا ثبوت براہین سے ہے اہل اسلام کی تکفیر پراقدام کیسے ہو سکتا ہے۔
(تو پھر کیوں کرتے ہو۔
آہ يقولونَ بأفواههِم ماليس في قُلوبِهِم)

حدیث صحیح میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہہ کر پکارے گا تو ان میں سے ایک پر یہ لوٹے گی۔
اگر وہ ایسا ہے جب تو اس پر پڑے گی ورنہ کہنے والے پر۔
اس بارے میں احتیاط واجب ہے۔
اہل قبلہ میں سے کسی پر حکم کفر ایسے ہی امر کے باعث کیا جاے جو واضح اور قاطع ہو (الدرراالسنیة في رد الوهابیة، اردو، ص: 36)
میں متعجب ہوں کہ اتنی بین صراحت کے ہوتے ہوئے پھر یہ لوگ کیوں نجدہائے،، پکارتے ہوئے شیخ محمدبن عبدالوہاب � اور ان کے جانشینوں کو کوس رہے ہیں۔
ملاحظہ ہوکہ جو نجد فتنوں کا باعث ہے حقیقت میں وہ عراق ہی ہے اورجومشرق ہے وہ ہندوستان میں دارالتکفیر،، بریلی ہے۔
کنز العمال میں أماکن مذمومة،، کے تحت میں آتا ہے۔
مسند عمر ابى مجاز قال أرادَ عمرُ أن لا يدعَ مصرا من الأَمصارِ إلا أتاه فقال له كعب لاتأتي العراقَ فإن فيه تسعة أعشار الشر(كنز العمال)
یعنی حضرت عمر نےاپنے عہد حکومت میں تمام ممالک محروسہ کادورہ کرنےکا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت کعب نےعرض کیاکہ آپ ہرجگہ جائیں لیکن عراق کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں تونوحصے برائی اور شر موجود ہے۔
،، (2)
عن أبي إدريسَ قال قدم علينا عمر بن الخطاب الشامَ فقال إِني أُريدُ أن آتي العراقَ فقال له كعب الأحبارُ أُعيذُك بالله يا أميرَ المؤمنين من ذلك قال وماتكره من ذلك قال بها تسعة أعشار الشر وكل داء عضال و عصاة الجن وهاروت وماروت وبها ياخل ابليس دفرخ- ابوادریس کہتے ہیں کہ حضرت عمر جب شام میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے وہاں سے پھر عراق جانے کا ارادہ ظاہرفرمایا تو حضرت کعب احبار نےعرض کیا، یا امیرالمؤمنین! خدا کی پناہ وہاں جانے کا خیال تک نہ فرمائیں۔
حضرت عمر نے براہ استعجاب اس مخالفت اور کراہت عراق کا سبب پوچھا تو حضرت کعب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور وہاں تو نو حصے شراور فساد ہے۔
سخت سخت بیماریاں اورسرکش اورگمراہ کن جن، ہاروت وماروت ہیں اور وہی شیطان کا مرکز ہےاوراسی جگہ اس نے انڈے بچے دے رکھے ہیں۔
،، اللہ اللہ کس قدر پر مغز کلام ہےجوکھلے کھلے اورصاف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کےارشاد بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن،، کی صاف صاف صراحت کر رہے ہیں۔
اگر خودعلم نہیں تھا توکسی اہل علم ہی سےاس حدیث کی تشریح اورمطلب پوچھ لیتے، ماشاءاللہ پنجاب اورہندوستان میں ہزاروں علماء اہل حدیث موجود ہیں۔
كثرالله سوادهم وعم فيوضم)
اورپھر اس کوتاہ نظری پرفخر کرتے ہوئے یہ لوگ شارحین حدیث رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین پرلے دے کرتے اور ان پراعترراضات کرتے اور آوازے کستے ہیں۔
اب ان تصریحات کے ہوتے ہوئے پھر نجد ہی کو قرن الشیطان کا مطلع رٹے جانا کون سا انصاف اور کہاں کی عقل مندی ہے جب کہ مطالعہ حدیث سے یہ صاف صاف علم ہوچکا ہے کہ فتنہ اور شر قرن الشیطان عراق ہی سے طلوع ہوں گے جہاں بصرہ بغداد اور کوفہ وغیرہ شہر ہیں۔
قابل غوربات:
یہ ہےکہ ایک طرف تورسول اللہﷺ نجد کےلوگوں یعنی بنوتمیم کی تعریف وتوصیف فرماتے ہیں اوران کوغیور مجاہدین اورعقلمندکاخطاب دے رہےہیں۔
مسند ابى هريرة ذكرت القبائل عندرسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله فما تقول فى تميم قال(صلى الله عليه وسلم)
يابى الله التميم إلا خيرا –البت الأقدام عظام الهام رجع الأحلام هفبته حمراء لا يضر من ناواها أشد الناس على الدجال آخرالزمان (رجال ثقات)
كنز العمال،ج 6 / ص 144)
یعنی رسول اللہ کے سامنے قبائل عرب کا ذکر ہو رہا تھا پہلے ہوازن اوربنو عامرکا تذکرہ آیا پھرلوگوں نے نبی تمیم کےمتعلق استفسار کیا توحضو ر ﷺ نےالفاظ ذیل میں ان کی تعریف وتکریم ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے بہتری کو اس قوم کے لیےواجب کر دیا (اللہ اللہ)
یہ لوگ (یعنی نجدی)
غیرمتزلزل طبائع کےمالک، بڑے سروالے عقل مند باتدبیر مکمل سیاست واں اورسرخ نیلہ والے ہیں۔
کوئی طاقت خواہ کتنی ہی چیخ پکار کرے اوران کے برخلاف ہرچند پروپیگنڈا پھیلائے ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکےگی۔
ہاں وہ اخیر زمانہ کے دجال پرجولوگ ان کے برخلاف نہایت متعصب اورضدی بداخلاق ہوں گے اورجھگڑالو اسلام کے دشمن اور فتن دوز ہوں گے نہایت سختی سےشعائر اسلام کی پابندی کرتے ہوئے باوجود ہزاروں دھکمیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کےغالب رہیں گے۔
وظھر أمراللہ و ھم کارھون۔
یعنی اخیر زمانہ میں دجال کےمقاتل کےمقابل بڑے مضبوط اورنہ ڈرنے والے لوگ ہوں گے۔
ولا یخافون لومۃ لائم۔
،، غور فرمائیے کہ اخیر زمانہ میں جب کہ حقیقی اسلام کی تعلیم دنیا میں بہت کم ہوگی،جہل وباطل، کفر شرک، پیرپرستی اورقبہ پرستی عام ہوگی۔
قدم قدم پرایک آدمی لغزش کھائے گا۔
یصبح مومنا ویمسی کافرا اور وہ زمانہ ہوگا جس کےمتلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔
من تَمسكَ بسنتي عندَ فسادِ أمتي فله أجرُ مائةِ شهيد – یعنی اس وقت جوسنت رسول اللہ ﷺ پرعمل پیرا ہوں گے ان میں ہر ایک درجہ میں سو شہید کے برابر ہوگا،، غورکریں کہ ایسے زمانہ مین جن لوگوں کی رسول اللہ ﷺ تعریف فرمائیں کہ اخیرزمانہ میں دجال پر بہت سخت ہوں گے۔
بھلا اللہ کے ہاں ان کی کہاں تک قدر ہوگی اوروہ کس عالی رتبہ کے لوگ ہوں گے۔
یہ امر مختاج بیان نہیں ہے اور ہر ایک مخالف اس بات کا قائل ہے کہ موجودہ اہل نجد اور مجدد اسلام شیخ محمدبن عبدالوہاب نوراللہ مرقدہ بنی تمیم ہی سے ہیں۔
اور اب موجودہ سلطان أیدہ اللہ بنصرہ اور ان کی قوم نجدی بھی بنی تمیم ہی سے ہیں ان کا زبردست معاند دحلان لکھتا ہے کہ یہ بات صراحت سے معلوم ہو چکی ہے کہ یہ مغرور (یعنی محمد بن عبدالوہاب �)
تمیم سے ہے۔
،، اور سید علوی جلاء الظلام میں لکھتا ہے۔
یہ مفرور محمدبن عبدالوہاب قبیلہ بنی تمیم سے ہے۔
نیز مولوی قطب الدین فرنگی محل لکھؤ والے بھی اپنے رسالہ آشوب نجد،، میں تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ محمدبن عبدالوہاب أناراللہ برهانه قبیلہ بنی تمیم میں سے ہیں،، اس کے علاوہ تاریخی طور پربھی یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہےکہ نجدی قوم بنی تمیم میں سے ہے۔
ان حالات کے بعد غور فرمائیے کہ حدیث میں اس قوم کورسول اللہ ﷺ نے کس بلند پایہ کی قوم فرمایا کہ:
عن أبي هريرة قال مازالت أُحبُ بنى تميم منذثلاث سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول هم أَشد أمتي على الدجالِ وقال وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قومنا وكانت سبية منهم عند عائشة فقال أعتقيها فإنها من ولدِ إسمعيلَ (بخاری احمد ی، ص،445)
ابوہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی فرماتےہیں کہ بھائی میں تو نبی تمیم کوپڑا عزیز رکھتا ہوں۔
اس کی وجوہات ذیل ہیں۔
(1)
رسول اللہ ﷺ نے ان کےحق میں فرمایا کہ یہ لوگ میرے تمام امت سےدجال پرسخت ہوں گے۔
(2)
جب بنو تمیم کی زکوۃ کا مال جمع ہوکر آیا توحضور ﷺ نےفرمایا کہ آج ہماری کےصدقات آئے ہیں۔
(3)
یہ لوگ (نجدی)
اولاد اسماعیل میں سے ہیں۔
ثبوت یہ ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس ایک نجد ی لونڈی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کوجب علم ہوا آپ نےفرمایا اے عائشہ! اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ اوالاد اسماعیل سےہے۔
،، اب غور فرمائیں کہ ایک طرف تو آنحضور ﷺ نے نجدیوں کو اولاد اسماعیل سےفرمایا۔
پکے مسلمان، عقل مند، مدبر اور باسیات کا خطاب دیا۔
وہاں کےلوگوں کوجنت کی بشارت دی۔
جاء رجل إلى رسو لِ الله عليه وسلم من أهل نجد فإذا هو يسئلُ عن الإسلامِ فقال صلى الله عليه وسلم من سره أن ينظرَ إلى رجل من أهلِ الجنةِ فلينظُر إلى هذا یعنی ایک نجدی نےرسول اللہ ﷺ سے چند سوالات کئے اور ان کے جوابات تسلی بخش پا کر جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس نجدی کو دیکھ لے۔
کیا یہ ہو سکتا ہےکہ اسی زبان سے رسول اللہ ﷺ اس قوم کی مذمت فرمائیں اور اس قوم کو قرن الشیطان سے تعبیر فرمائیں اور ان کے لیے دعا نہ فرمائیں (خدا را انصاف)
کہ ان رسمی حنفیوں بریلویوں، رضائیوں، دیداریوں اورجماعتیوں (ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم)
نے رسو ل اللہ ﷺ کی یہی عزت اوریہی قدر کی کہ پبلک کےسامنے عیاں کر دیا کہ ہاں رسو ل اللہ ﷺ (معاذ اللہ)
ایک طرف تو ایک شخص کی منہ پر تعریف فرماتے تھے اور جب وہ چاہتا پھر مذمت اور اس کے لیے بددعا۔
آہ ثم آہ۔
فما لهؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثا۔
(انصاف۔
انصاف)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7562   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7562  
7562. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق کی طرف سے رون ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دیں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ وآپس دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ پر واپس آجائے۔ پوچھا گیا: ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ان کی علامت سرمنڈوانا ہے، یا فرمایا: بالوں کو جڑ سے نیست ونابود کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7562]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے مشرق کی طرف اشارہ کیا اس سے مراد سر زمین عراق ہے جو تاریخی طور پر زمانہ ماضی اور حال میں فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس سر زمین میں آزمائش و امتحان سے دو چار کیا گیا تھا۔
موجودہ دور میں بھی عراق کی فتنہ انگیزی ڈھکی چھپی نہیں۔
حدیث اور اہل حدیث کے خلا ف اہل رائے کا فتنہ بھی اسی پر فتن سر زمین سے ابھرا تھا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مشرق سے خروج کرنے والے فتنہ گروں کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی یعنی قرآن ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوگا باوجود یکہ وہ قرآن کو یاد کرنے والے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں گے اس کے برعکس اہل ایمان کا معاملہ جدا گانہ ہے۔
وہ جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ تلاوت کا یہ فرق ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
اس میں قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
اس کا کوئی قصور نہیں۔
واللہ الستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7562   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.