سنن ابي داود سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
3. باب كم الوتر
باب: وتر میں کتنی رکعت ہے؟
حدیث نمبر: 1421
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ بِأُصْبُعَيْهِ هَكَذَا:" مَثْنَى مَثْنَى، وَالْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دیہات کے ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اس طرح دو دو رکعتیں ہیں اور آخر رات میں وتر ایک رکعت ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1421]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المسافرین 20 (749)، سنن النسائی/ قیام اللیل 32 (1692)، (تحفة الأشراف:7267)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/40، 58، 71، 76، 79، 81، 100) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: وتر کی رکعتوں کی تعداد کے سلسلہ میں متعدد روایتیں آئی ہیں جن میں ایک رکعت سے لے کر تیرہ رکعت تک کا ذکر ہے ان روایات کو صحیح مان کر انہیں اختلاف احوال پر محمول کرنا مناسب ہو گا، اور یہ واضح رہے کہ وتر کا مطلب دن بھر کی سنن و نوافل اور تہجد (اگر پڑھتا ہے تو) کو طاق بنا دینا ہے، اب چاہے اخیر میں ایک رکعت پڑھ کر طاق بنا دے یا تین یا پانچ، اور اسی طرح طاق رکعتیں ایک ساتھ پڑھ کر، اور یہ سب صورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، نیز یہ بھی واضح رہے کہ وتر کا لفظ تہجد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے، پانچ، سات، نو، یا تیرہ رکعت وتر کا یہی مطلب ہے، نہ کہ تہجد کے علاوہ مزید پانچ تا تیرہ وتر الگ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح مسلم (749)
حدیث نمبر: 1295
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَارِقِيِّ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات اور دن کی نماز دو دو رکعت ہے“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1295]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الصلاة 301 (597)، سنن النسائی/قیام اللیل 24 (1667)، سنن ابن ماجہ/ إقامة الصلاة 172 (1322)، (تحفة الأشراف: 7349)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/26، 51)، سنن الدارمی/ الصلاة 155(1500) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:حسن
أخرجه الترمذي (597 وسنده حسن) وللحديث شواھد، انظر الموطأ (260 بتحقيقي)
أخرجه الترمذي (597 وسنده حسن) وللحديث شواھد، انظر الموطأ (260 بتحقيقي)
حدیث نمبر: 1296
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَأَنْ تَبَاءَسَ وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ، وَتَقُولَ: اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ". سُئِلَ أَبُو دَاوُدَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى، قَالَ: إِنْ شِئْتَ مَثْنَى وَإِنْ شِئْتَ أَرْبَعًا.
مطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو: اے اللہ! اے اللہ!، جس نے ایسا نہیں کیا یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے“۔ ابوداؤد سے رات کی نماز دو دو رکعت ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: چاہو تو دو دو پڑھو اور چاہو تو چار چار۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1296]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 172 (1325)، (تحفة الأشراف: 11288)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/167) (ضعیف)» (اس کے راوی عبد اللہ بن نافع مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (1325)
عبد اللّٰه بن نافع بن العمياء ضعفه البخاري والجمهور وضعفه راجح
وقال ابن حجر : مجهول (تقريب التهذيب:3658)
وفي سماعه من عبد اللّٰه بن الحارث نظر
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
إسناده ضعيف
ابن ماجه (1325)
عبد اللّٰه بن نافع بن العمياء ضعفه البخاري والجمهور وضعفه راجح
وقال ابن حجر : مجهول (تقريب التهذيب:3658)
وفي سماعه من عبد اللّٰه بن الحارث نظر
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 54
حدیث نمبر: 1326
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز (تہجد) کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے، جب تم میں سے کسی کو یہ ڈر ہو کہ صبح ہو جائے گی تو ایک رکعت اور پڑھ لے، یہ اس کی ساری رکعتوں کو جو اس نے پڑھی ہیں طاق (وتر) کر دے گی ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1326]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الصلاة 84 (473)، والوتر 1 (990)، والتہجد 10 (1137)، صحیح مسلم/المسافرین 20(749)، سنن الترمذی/الصلاة 210 (437)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 171 (1320)، سنن النسائی/قیام اللیل 26 (1668)، 35 (1693)، (تحفة الأشراف: 7225)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/5، 9، 10، 49، 54، 66)، وانظر ایضًا رقم: (1295) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سلسلہ میں اختلاف ہے کہ نفل نماز کیسے پڑھی جائے، امام شافعی کی رائے صحیح ہے کہ نفل نماز دو دو کر کے پڑھنا افضل ہے، خواہ دن کی نماز ہو یا رات کی، ان کی دلیل «صلاۃ اللیل والنہار مثنی مثنی» والی حدیث ہے جو صحیح ہے، دو دو رکعت کرکے پڑھنے میں بہت سے فوائد ہیں، اس میں دعا، درود و سلام کی زیادتی ہے، نیز جماعت میں شامل ہونے کے لئے نماز درمیان سے چھوڑنی نہیں پڑتی وغیرہ وغیرہ، ایسے چار چار کرکے پڑھنا بھی جائز ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (990) صحيح مسلم (749)

