الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
The Book on Legal Punishments (Al-Hudud)
7. باب مَا جَاءَ فِي تَحْقِيقِ الرَّجْمِ
7. باب: رجم کے ثبوت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1431
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع , حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق , عن داود بن ابي هند , عن سعيد بن المسيب , عن عمر بن الخطاب , قال: " رجم رسول الله صلى الله عليه وسلم , ورجم ابو بكر , ورجمت , ولولا اني اكره ان ازيد في كتاب الله , لكتبته في المصحف , فإني قد خشيت ان تجيء اقوام فلا يجدونه في كتاب الله , فيكفرون به ". قال: وفي الباب , عن علي , قال ابو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح , وروي من غير وجه , عن عمر.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , قَالَ: " رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَجَمَ أَبُو بَكْرٍ , وَرَجَمْتُ , وَلَوْلَا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَزِيدَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , لَكَتَبْتُهُ فِي الْمُصْحَفِ , فَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَجِيءَ أَقْوَامٌ فَلَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَيَكْفُرُونَ بِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنْ عُمَرَ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو ۱؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم (سے متعلق آیت) نہ پا کر اس کا انکار کر دیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور دوسری سندوں سے بھی عمر رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے،
۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10451)، وانظر مسند احمد (1/36، 43) وانظر ما یأتي (صحیح) (متابعات کی بنا پر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ”سعید بن مسیب“ اور ”عمر رضی الله عنہ“ کے درمیان انقطاع ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی آیت رجم «الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نكالا من الله ...» کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا۔
۲؎: سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام و فرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر رضی الله عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے، عمر رضی الله عنہ نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا، چنانچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا، افسوس صد افسوس! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح التعليق على ابن ماجة، الإرواء (8 / 4 - 5)
حدیث نمبر: 1434
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة , حدثنا هشيم , عن منصور بن زاذان , عن الحسن , عن حطان بن عبد الله , عن عبادة بن الصامت , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذوا عني فقد جعل الله لهن سبيلا , الثيب بالثيب جلد مائة , ثم الرجم , والبكر بالبكر جلد مائة , ونفي سنة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منهم , علي بن ابي طالب , وابي بن كعب , وعبد الله بن مسعود , وغيرهم قالوا: الثيب تجلد وترجم , وإلى هذا ذهب بعض اهل العلم وهو قول: إسحاق , وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم منهم , ابو بكر , وعمر , وغيرهما , الثيب إنما عليه الرجم , ولا يجلد , وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم مثل هذا في غير حديث في قصة ماعز وغيره , انه امر بالرجم , ولم يامر ان يجلد قبل ان يرجم , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول: سفيان الثوري , وابن المبارك , والشافعي , واحمد.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذُوا عَنِّي فَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا , الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ , ثُمَّ الرَّجْمُ , وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ , وَنَفْيُ سَنَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ , عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ , وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ , وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: الثَّيِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ , وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ: إِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ , أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَغَيْرُهُمَا , الثَّيِّبُ إِنَّمَا عَلَيْهِ الرَّجْمُ , وَلَا يُجْلَدُ , وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ هَذَا فِي غَيْرِ حَدِيثٍ فِي قِصَّةِ مَاعِزٍ وَغَيْرِهِ , أَنَّهُ أَمَرَ بِالرَّجْمِ , وَلَمْ يَأْمُرْ أَنْ يُجْلَدَ قَبْلَ أَنْ يُرْجَمَ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَابْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دین خاص طور پر زنا کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی الله عنہم شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۳- جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ رضی الله عنہما شامل ہیں، کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 3 (1690)، سنن ابی داود/ الحدود 23 (4415)، سنن ابن ماجہ/الحدود 7 (2550)، (تحفة الأشراف: 5083)، و مسند احمد (3/475)، سنن الدارمی/الحدود 19 (2372) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے راہ نکال دی ہے، اس سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے «واللاتي يأتين الفاحشة من نسآئكم فاستشهدوا عليهن أربعة منكم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتى يتوفاهن الموت أو يجعل الله لهن سبيلا» یعنی تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو، یہاں تک کی موت ان کی عمریں پوری کر دے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے (النساء: ۱۵)، یہ ابتدائے اسلام میں بدکار عورتوں کی وہ عارضی سزا ہے جب زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی۔
۲؎: جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے کہ کوڑے کی سزا اور رجم دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے، کیونکہ قتل کے ساتھ اگر کئی حدود ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو صرف قتل کافی ہو گا اور باقی حدود ساقط ہو جائیں گی «واللہ اعلم» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2550)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.