الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
39. باب مَا جَاءَ فِي مَعِيشَةِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
39. باب: صحابہ کرام رضی الله عنہم کی معاشی زندگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 2366
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، حدثنا قيس، قال: سمعت سعد بن مالك يقول: " إني اول رجل من العرب رمى بسهم في سبيل الله , ولقد رايتنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وما لنا طعام إلا الحبلة وهذا السمر حتى إن احدنا ليضع كما تضع الشاة ثم اصبحت بنو اسد يعزروني في الدين لقد خبت إذا وضل عملي " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن عتبة بن غزوان.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَال: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: " إِنِّي أَوَّلُ رَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَلَقَدْ رَأَيْتُنَا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا لَنَا طَعَامٌ إِلَّا الْحُبُلَةَ وَهَذَا السَّمُرَ حَتَّى إِنَّ أَحَدَنَا لَيَضَعُ كَمَا تَضَعُ الشَّاةُ ثُمَّ أَصْبَحَتْ بَنُو أَسَدٍ يُعَزِّرُونِي فِي الدِّينِ لَقَدْ خِبْتُ إِذًا وَضَلَّ عَمَلِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن عُتْبَةَ بْنِ غَزْوَانَ.
سعد بن مالک (ابی وقاص) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں عرب کا پہلا شخص ہوں جس نے راہ خدا میں تیر پھینکا، اور ہم نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے وقت دیکھا ہے کہ ہمارے پاس خاردار درختوں کے پھل اور کیکر کے درخت کے علاوہ کھانے کے لیے کچھ نہ تھا یہاں تک کہ ہم لوگ قضائے حاجت میں بکریوں کی طرح مینگنیاں نکالا کرتے تھے ۱؎، اور اب قبیلہ بنی اسد کے لوگ مجھے دین کے سلسلے میں ملامت کرنے لگے ہیں، اگر میں اسی لائق ہوں تو بڑا ہی محروم ہوں اور میرے اعمال ضائع ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عتبہ بن غزوان سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جہاد جیسے افضل عمل کو انجام دیتے وقت ہماری تنگی کا یہ حال تھا کہ ہم جنگلی درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو جاتے تھے، کیونکہ وسائل کی کمی کے باعث اتنا سامان خوراک ساتھ نہیں ہوتا تھا جو اختتام تک کفایت کرتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (2365)
حدیث نمبر: 3299
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد بن حميد، والحسن بن علي الحلواني المعنى واحد، قالا: حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن إسحاق، عن محمد بن عمرو بن عطاء، عن سليمان بن يسار، عن سلمة بن صخر الانصاري، قال: كنت رجلا قد اوتيت من جماع النساء ما لم يؤت غيري، فلما دخل رمضان تظاهرت من امراتي حتى ينسلخ رمضان فرقا من ان اصيب منها في ليلتي، فاتتابع في ذلك إلى ان يدركني النهار وانا لا اقدر ان انزع، فبينما هي تخدمني ذات ليلة إذ تكشف لي منها شيء فوثبت عليها، فلما اصبحت غدوت على قومي فاخبرتهم خبري، فقلت: انطلقوا معي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره بامري، فقالوا: لا والله لا نفعل، نتخوف ان ينزل فينا قرآن او يقول فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالة يبقى علينا عارها، ولكن اذهب انت فاصنع ما بدا لك، قال: فخرجت فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته خبري، فقال: " انت بذاك؟ " قلت: انا بذاك، قال: " انت بذاك؟ " قلت: انا بذاك، قال: " انت بذاك؟ " قلت: انا بذاك، وهانا ذا فامض في حكم الله، فإني صابر لذلك، قال: " اعتق رقبة "، قال: فضربت صفحة عنقي بيدي، فقلت: لا والذي بعثك بالحق لا املك غيرها، قال: " صم شهرين "، قلت: يا رسول الله، وهل اصابني ما اصابني إلا في الصيام، قال: " فاطعم ستين مسكينا "، قلت: والذي بعثك بالحق لقد بتنا ليلتنا هذه وحشى ما لنا عشاء، قال: " اذهب إلى صاحب صدقة بني زريق، فقل له فليدفعها إليك فاطعم عنك منها وسقا ستين مسكينا، ثم استعن بسائره عليك وعلى عيالك "، قال: فرجعت إلى قومي، فقلت: وجدت عندكم الضيق وسوء الراي، ووجدت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم السعة والبركة، امر لي بصدقتكم، فادفعوها إلي فدفعوها إلي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، قال محمد: سليمان بن يسار لم يسمع عندي من سلمة بن صخر، قال: ويقال سلمة بن صخر سلمان بن صخر، وفي الباب، عن خولة بنت ثعلبة وهي امراة اوس بن الصامت.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوانِيُّ المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا قَدْ أُوتِيتُ مِنْ جِمَاعِ النِّسَاءِ مَا لَمْ يُؤْتَ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ رَمَضَانُ تَظَاهَرْتُ مِنَ امْرَأَتِي حَتَّى يَنْسَلِخَ رَمَضَانُ فَرَقًا مِنْ أَنْ أُصِيبَ مِنْهَا فِي لَيْلَتِي، فَأَتَتَابَعَ فِي ذَلِكَ إِلَى أَنْ يُدْرِكَنِي النَّهَارُ وَأَنَا لَا أَقْدِرُ أَنْ أَنْزِعَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ فَوَثَبْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ عَلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمْ خَبَرِي، فَقُلْتُ: انْطَلِقُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْبِرَهُ بِأَمْرِي، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ، نَتَخَوَّفُ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا قُرْآنٌ أَوْ يَقُولَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةً يَبْقَى عَلَيْنَا عَارُهَا، وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ فَاصْنَعْ مَا بَدَا لَكَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي، فَقَالَ: " أَنْتَ بِذَاكَ؟ " قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ: " أَنْتَ بِذَاكَ؟ " قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ: " أَنْتَ بِذَاكَ؟ " قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، وَهَأَنَا ذَا فَأَمْضِ فِيَّ حُكْمَ اللَّهِ، فَإِنِّي صَابِرٌ لِذَلِكَ، قَالَ: " أَعْتِقْ رَقَبَةً "، قَالَ: فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ عُنُقِي بِيَدِي، فَقُلْتُ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَمْلِكُ غَيْرَهَا، قَالَ: " صُمْ شَهْرَيْنِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَهَلْ أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ، قَالَ: " فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا "، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا هَذِهِ وَحْشَى مَا لَنَا عَشَاءٌ، قَالَ: " اذْهَبْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ، فَقُلْ لَهُ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ فَأَطْعِمْ عَنْكَ مِنْهَا وَسْقًا سِتِّينَ مِسْكِينًا، ثُمَّ اسْتَعِنْ بِسَائِرِهِ عَلَيْكَ وَعَلَى عِيَالِكَ "، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَالْبَرَكَةَ، أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ، فَادْفَعُوهَا إِلَيَّ فَدَفَعُوهَا إِلَيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ: وَيُقَالُ سَلَمَةُ بْنُ صَخْرٍ سَلْمَانُ بْنُ صَخْرٍ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ ثَعْلَبَةَ وَهِيَ امْرَأَةُ أَوْسِ بْنِ الصَّامِتِ.
سلمہ بن صخر انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے عورت سے جماع کی جتنی شہوت و قوت ملی تھی (میں سمجھتا ہوں) اتنی کسی کو بھی نہ ملی ہو گی، جب رمضان کا مہینہ آیا تو میں نے اس ڈر سے کہ کہیں میں رمضان کی رات میں بیوی سے ملوں (صحبت کر بیٹھوں) اور پے در پے جماع کئے ہی جاؤں کہ اتنے میں صبح ہو جائے اور میں اسے چھوڑ کر علیحدہ نہ ہو پاؤں، میں نے رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے بیوی سے ظہار ۱؎ کر لیا، پھر ایسا ہوا کہ ایک رات میری بیوی میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک مجھے اس کی ایک چیز دکھائی پڑ گئی تو میں (اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا) اسے دھر دبوچا، جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں اپنے حال سے باخبر کیا، میں نے ان سے کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو تاکہ میں آپ کو اپنے معاملے سے باخبر کر دوں، ان لوگوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم نہ جائیں گے، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے متعلق قرآن (کوئی آیت) نازل نہ ہو جائے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات نہ کہہ دیں جس کی شرمندگی برقرار رہے، البتہ تم خود ہی جاؤ اور جو مناسب ہو کرو، تو میں گھر سے نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ کو اپنی بات بتائی، آپ نے فرمایا: تم نے یہ کام کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے، آپ نے فرمایا: تم نے ایسا کیا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، میں نے ایسا کیا ہے آپ نے (تیسری بار بھی یہی) پوچھا: تو نے یہ بات کی ہے، میں نے کہا: جی ہاں، مجھ سے ہی ایسی بات ہوئی ہے، مجھ پر اللہ کا حکم جاری و نافذ فرمائیے، میں اپنی اس بات پر ثابت و قائم رہنے والا ہوں، آپ نے فرمایا: ایک غلام آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اپنی اس گردن کے سوا کسی اور گردن کا مالک نہیں ہوں (غلام کیسے آزاد کروں) آپ نے فرمایا: پھر دو مہینے کے روزے رکھو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جو پریشانی و مصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اسی روزے ہی کی وجہ سے تو لاحق ہوئی ہے، آپ نے فرمایا: تو پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو، میں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم نے یہ رات بھوکے رہ کر گزاری ہے، ہمارے پاس رات کا بھی کھانا نہ تھا، آپ نے فرمایا: بنو زریق کے صدقہ دینے والوں کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں صدقہ کا مال دے دیں اور اس میں سے تم ایک وسق ساٹھ مسکینوں کو اپنے کفارہ کے طور پر کھلا دو اور باقی جو کچھ بچے وہ اپنے اوپر اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرو، وہ کہتے ہیں: پھر میں لوٹ کر اپنی قوم کے پاس آیا، میں نے کہا: میں نے تمہارے پاس تنگی، بدخیالی اور بری رائے و تجویز پائی، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کشادگی اور برکت پائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تمہارا صدقہ لینے کا حکم دیا ہے تو تم لوگ اسے مجھے دے دو، چنانچہ ان لوگوں نے مجھے دے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: سلیمان بن یسار نے میرے نزدیک سلمہ بن صخر سے نہیں سنا ہے، سلمہ بن صخر کو سلمان بن صخر بھی کہتے ہیں،
۳- اس باب میں خولہ بنت ثعلبہ سے بھی روایت ہے، اور یہ اوس بن صامت کی بیوی ہیں (رضی الله عنہما)۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1198 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: میں نے کہہ دیا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہے۔ تاکہ رمضان بھر تو جماع سے بچا رہ سکوں، اور حالت صوم میں جماع کی نوبت نہ آنے پائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2062)

قال الشيخ زبير على زئي: (3299) إسناده ضعيف / د 2213، جه 2062

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.