سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہباء نامی خچر کو جس پر آپ، اور حسن و حسین سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ کے پاس (صحن میں) لیتا چلا گیا، یہ (حسن) آپ کے آگے اور وہ (حسین) آپ کے پیچھے بیٹھے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس میں ابن عباس اور عبداللہ بن جعفر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: بعض احادیث سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سواری پر تین آدمیوں کے بیٹھنے سے منع فرمایا ہے، اور اس حدیث میں یہ ہے کہ آپ حسن اور حسین رضی الله عنہما کے ساتھ ایک ہی سواری پر بیٹھے، منع کی صورت اس حالت سے متعلق ہے جب سواری کمزور ہو اور اگر طاقتور ہے تو پھر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن عبيد، حدثنا سفيان وهو ابن زياد العصفري، عن ابيه، عن حبيب بن النعمان الاسدي، عن خريم بن فاتك الاسدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الصبح فلما انصرف قام قائما، فقال: " عدلت شهادة الزور بالشرك بالله " ثلاث مرات، ثم تلا هذه الآية واجتنبوا قول الزور سورة الحج آية 30 إلى آخر الآية، قال ابو عيسى: هذا عندي اصح، وخريم بن فاتك له صحبة، وقد روى عن النبي صلى الله عليه وسلم احاديث وهو مشهور.حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ الْعُصْفُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ النُّعْمَانِ الْأَسَدِيِّ، عَنْ خُرَيْمِ بْنِ فَاتِكٍ الْأَسَدِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةَ الصُّبْحِ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَامَ قَائِمًا، فَقَالَ: " عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ بِالشِّرْكِ بِاللَّهِ " ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ سورة الحج آية 30 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا عِنْدِي أَصَحُّ، وَخُرَيْمُ بْنُ فَاتِكٍ لَهُ صُحْبَةٌ، وَقَدْ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَادِيثَ وَهُوَ مَشْهُورٌ.
خریم بن فاتک اسدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی، جب پلٹے تو خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے“، آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی پھر آپ نے یہ مکمل آیت تلاوت فرمائی «واجتنبوا قول الزور»”اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث میرے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۲- خریم بن فاتک کو شرف صحابیت حاصل ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے کئی حدیثیں روایت کی ہیں، اور مشہور صحابی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأحکام 32 (2372) (ضعیف) (سند میں زیاد عصفری اور حبیب بن نعمان دونوں لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: **
قال الشيخ زبير على زئي: (2300) إسناده ضعيف / د 3599، جه 2372 وانظر الحديث السابق: 2299
حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا بشر بن المفضل، عن الجريري، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " الا اخبركم باكبر الكبائر؟ " قالوا: بلى يا رسول الله، قال: " الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وشهادة الزور، او قول الزور "، قال: فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولها حتى قلنا ليته سكت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن عبد الله بن عمرو.حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ " قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَوْ قَوْلُ الزُّورِ "، قَالَ: فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں بڑے بڑے (کبیرہ) گناہوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟“ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹی بات بولنا“، ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری بات کو برابر دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم لوگوں نے دل میں کہا: کاش! آپ خاموش ہو جاتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے۔