الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
25. باب وَمِنْ سُورَةِ النُّورِ
25. باب: سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3178
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن عبد الملك بن ابي سليمان، عن سعيد بن جبير، قال: سئلت عن المتلاعنين في إمارة مصعب بن الزبير، ايفرق بينهما؟ فما دريت ما اقول، فقمت من مكاني إلى منزل عبد الله بن عمر، فاستاذنت عليه، فقيل لي إنه قائل، فسمع كلامي، فقال لي: ابن جبير؟ ادخل ما جاء بك إلا حاجة، قال: فدخلت فإذا هو مفترش بردعة رحل له، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، المتلاعنان ايفرق بينهما؟ فقال: سبحان الله، نعم، إن اول من سال عن ذلك فلان بن فلان، اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله ارايت لو ان احدنا راى امراته على فاحشة كيف يصنع؟ إن تكلم تكلم بامر عظيم، وإن سكت سكت على امر عظيم، قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم فلم يجبه، فلما كان بعد ذلك اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الذي سالتك عنه قد ابتليت به، فانزل الله هذه الآيات في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم سورة النور آية 6 حتى ختم الآيات، قال: فدعا الرجل فتلاهن عليه ووعظه وذكره واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: لا والذي بعثك بالحق ما كذبت عليها، ثم ثنى بالمراة ووعظها وذكرها واخبرها ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: لا والذي بعثك بالحق ما صدق، فبدا بالرجل، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم ثنى بالمراة فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ثم فرق بينهما "، وفي الباب، عن سهل بن سعد، قال: وهذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ، فَقُمْتُ مِنْ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لِي إِنَّهُ قَائِلٌ، فَسَمِعَ كَلَامِي، فَقَالَ لِيَ: ابْنَ جُبَيْرٍ؟ ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَانِ أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ، قَالَ: فَدَعَا الرَّجُلَ فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ وَوَعَظَهُ وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ وَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا وَأَخْبَرَهَا أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ، فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا "، وَفِي الْبَابِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ مصعب بن زبیر رضی الله عنہ کی امارت کے زمانے میں مجھ سے پوچھا گیا: کیا لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان جدائی کر دی جائے گی؟ میری سمجھ میں نہ آیا کہ میں کیا جواب دوں میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آ گیا، ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، مجھ سے کہا گیا کہ وہ قیلولہ فرما رہے ہیں، مگر انہوں نے میری بات چیت سن لی۔ اور مجھے (پکار کر) کہا: ابن جبیر! اندر آ جاؤ، تم کسی (دینی) ضرورت ہی سے آئے ہو گے، میں اندر داخل ہوا، دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے کجاوے کے نیچے ڈالنے والا کمبل بچھائے ہوئے ہیں، میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا دونوں لعان کرنے والوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! پاک اور برتر ذات ہے اللہ کی، ہاں، (سنو) سب سے پہلا شخص جس نے اس بارے میں مسئلہ پوچھا وہ فلاں بن فلاں تھے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، کہا: اللہ کے رسول! بتائیے اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا یعنی زناکاری کرتے ہوئے دیکھے تو کیا کرے؟ اگر بولتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے اور اگر چپ رہتا ہے تو بڑی بات پر چپ رہتا ہے، آپ یہ سن کر چپ رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب اس کے بعد ایسا واقعہ پیش ہی آ گیا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میں نے آپ سے جو بات پوچھی تھی، اس سے میں خود دوچار ہو گیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی آیات «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» ۱؎ سے ختم آیات تک «والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين» نازل فرمائیں، ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں اور اسے نصیحت کیا، اسے سمجھایا بجھایا، اسے بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے ہلکا ہے، اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے اس عورت پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے، اسے بھی وعظ و نصیحت کی، سمجھایا بجھایا، اسے بھی بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کے مقابل میں ہلکا اور آسان ہے ۲؎، اس نے کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! اس نے سچ نہیں کہا ہے، پھر آپ نے لعان کی شروعات مرد سے کی، مرد نے چار بار گواہیاں دی کہ اللہ گواہ ہے کہ وہ سچا ہے، پانچویں بار میں کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر آپ عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی اللہ کی چار گواہیاں دیں، اللہ گواہ ہے کہ اس کا شوہر جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہا: اللہ کا غضب ہو اس پر اگر اس کا شوہر سچوں میں سے ہو، اس کے بعد آپ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سہل بن سعد رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1202 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جو لوگ اپنی بیویوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور ان کا کوئی گواہ بجز خود ان کی ذات کے نہ ہو تو ایسے لوگوں میں سے ہر ایک کا ثبوت یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ وہ سچوں میں سے ہیں اور پانچویں مرتبہ کہیں کہ اس پر اللہ کی تعالیٰ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو، اور اس عورت سے سزا اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یقیناً اس کا مرد جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے اور پانچویں دفعہ کہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہو اگر اس کا خاوند سچوں میں سے ہو (النور: ۶-۹)۔
۲؎: اگر گناہ سرزد ہوا ہے تو اسے قبول کر لو اور متعینہ سزا جھیل جاؤ ورنہ آخرت کا عذاب تو بہت بھاری اور سخت ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1202
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، حدثنا عبدة بن سليمان، عن عبد الملك بن ابي سليمان، عن سعيد بن جبير، قال: سئلت عن المتلاعنين في إمارة مصعب بن الزبير، ايفرق بينهما؟ فما دريت ما اقول: فقمت مكاني إلى منزل عبد الله بن عمر، استاذنت عليه فقيل لي: إنه قائل: فسمع كلامي، فقال ابن جبير: ادخل ما جاء بك إلا حاجة، قال: فدخلت فإذا هو مفترش بردعة رحل له، فقلت: يا ابا عبد الرحمن المتلاعنان، ايفرق بينهما؟، فقال: سبحان الله، نعم إن اول من سال عن ذلك فلان بن فلان، اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ارايت لو ان احدنا راى امراته على فاحشة، كيف يصنع إن تكلم تكلم بامر عظيم، وإن سكت سكت على امر عظيم، قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم فلم يجبه، فلما كان بعد ذلك اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن الذي سالتك عنه قد ابتليت به، فانزل الله هذه الآيات، التي في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم سورة النور آية 6، حتى ختم الآيات فدعا الرجل، فتلا الآيات عليه، ووعظه، وذكره واخبره، ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: لا والذي بعثك بالحق ما كذبت عليها، ثم ثنى بالمراة فوعظها، وذكرها، واخبرها، ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: لا والذي بعثك بالحق ما صدق، قال: فبدا بالرجل فشهد اربع شهادات: بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم ثنى بالمراة فشهدت اربع شهادات: بالله إنه لمن الكاذبين، والخامسة ان غضب الله عليها، إن كان من الصادقين ثم فرق بينهما. قال: وفي الباب، عن سهل بن سعد، وابن عباس، وابن مسعود، وحذيفة. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: سُئِلْتُ عَنِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ فِي إِمَارَةِ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ فَمَا دَرَيْتُ مَا أَقُولُ: فَقُمْتُ مَكَانِي إِلَى مَنْزِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَقِيلَ لِي: إِنَّهُ قَائِلٌ: فَسَمِعَ كَلَامِي، فَقَالَ ابْنُ جُبَيْرٍ: ادْخُلْ مَا جَاءَ بِكَ إِلَّا حَاجَةٌ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَإِذَا هُوَ مُفْتَرِشٌ بَرْدَعَةَ رَحْلٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُتَلَاعِنَانِ، أَيُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، نَعَمْ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ إِنْ تَكَلَّمَ تَكَلَّمَ بِأَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُجِبْهُ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدِ ابْتُلِيتُ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ هَذِهِ الْآيَاتِ، الَّتِي فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6، حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَا الْآيَاتِ عَلَيْهِ، وَوَعَظَهُ، وَذَكَّرَهُ وَأَخْبَرَهُ، أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَوَعَظَهَا، وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا، أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: لَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا صَدَقَ، قَالَ: فَبَدَأَ بِالرَّجُلِ فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ: بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ ثَنَّى بِالْمَرْأَةِ فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ: بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا، إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَحُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ مصعب بن زبیر کے زمانہ امارت میں مجھ سے لعان ۱؎ کرنے والوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ان کے درمیان تفریق کر دی جائے؟ تو میں نہیں جان سکا کہ میں انہیں کیا جواب دوں؟ چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھ کر عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت مانگی، بتایا گیا کہ وہ قیلولہ کر رہے ہیں، لیکن انہوں نے میری بات سن لی، اور کہا: ابن جبیر! آ جاؤ تمہیں کوئی ضرورت ہی لے کر آئی ہو گی۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ پالان پر بچھائے جانے والے کمبل پر لیٹے ہیں۔ میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کر دی جائے گی؟ کہا: سبحان اللہ! ہاں، سب سے پہلے اس بارے میں فلاں بن فلاں نے پوچھا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ہم میں سے کوئی اپنی بیوی کو برائی کرتے دیکھے تو کیا کرے؟ اگر کچھ کہتا ہے تو بڑی بات کہتا ہے، اور اگر خاموش رہتا ہے تو وہ سنگین معاملہ پر خاموش رہتا ہے۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر جب کچھ دن گزرے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (دوبارہ) آیا اور اس نے عرض کیا: میں نے آپ سے جو مسئلہ پوچھا تھا میں اس میں خود مبتلا کر دیا گیا ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کی یہ آیتیں نازل فرمائیں «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» یعنی جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت زنا لگاتے ہیں اور ان کے پاس خود اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہیں ہیں (سورۃ النور: 6)۔ یہاں تک کہ یہ آیتیں ختم کیں، پھر آپ نے اس آدمی کو بلایا اور اسے یہ آیتیں پڑھ کر سنائیں، اور اسے نصیحت کی اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے اس پر جھوٹا الزام نہیں لگایا ہے۔ پھر آپ نے وہ آیتیں عورت کے سامنے دہرائیں، اس کو نصیحت کی، اور اس کی تذکیر کی اور بتایا کہ دنیا کا عذاب آخرت کے عذاب سے آسان ہے۔ اس پر اس عورت نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، وہ سچ نہیں بول رہا ہے۔ ابن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے مرد سے ابتداء کی، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ گواہی دی کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ پھر دوبارہ آپ نے عورت سے یہی باتیں کہلوائیں، اس نے اللہ کا نام لے کر چار مرتبہ گواہی دی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں مرتبہ اس نے گواہی دی کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ پھر آپ نے ان دونوں میں تفریق کر دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سہل بن سعد، ابن عباس، ابن مسعود اور حذیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللعان 1 (1493)، سنن النسائی/الطلاق 41 (3503)، (تحفة الأشراف: 7058)، مسند احمد (2/12)، سنن الدارمی/النکاح 39 (2275) (صحیح) وأحرجہ کل من: صحیح البخاری/الطلاق 27 (5306)، و32 (5311)، و33 (5312)، و34 (5313، 5314)، و35 (5315)، و 52 (5349)، و53 (5350)، والفرائض 17 (6748)، صحیح مسلم/اللعان (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ الطلاق 27 (2257، 2258، 2259)، سنن النسائی/الطلاق 42 (3504)، و43 (3505)، و43 (3505)، و44 (3506)، و 45 (3507)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2066)، موطا امام مالک/الطلاق 13 (35)، من غیر ہذا الوجہ۔وبسیاق آخر، انظر الحدیث الآتي۔»

وضاحت:
۱؎: لعان کا حکم آیت کریمہ «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» (النور: ۶)، میں ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں یا کسی حاکم مجاز کے سامنے پہلے مرد چار بار اللہ کا نام لے کر گواہی دے کہ میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو، اسی طرح عورت بھی اللہ کا نام لے کر چار بار گواہی دے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اگر اس کا شوہر سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، ایسا کہنے سے شوہر حد قذف (زنا کی تہمت لگانے پر عائد سزا) سے بچ جائے گا اور بیوی زنا کی سزا سے بچ جائے گی اور دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے جدائی ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1955)
حدیث نمبر: 1203
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، انبانا مالك بن انس، عن نافع، عن ابن عمر، قال: لاعن رجل امراته، وفرق النبي صلى الله عليه وسلم بينهما، والحق الولد بالام. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَاعَنَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ، وَفَرَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْأُمِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کر دی اور لڑکے کو ماں کے ساتھ کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 8322) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2069)
حدیث نمبر: 3179
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن ابي عدي، حدثنا هشام بن حسان، حدثني عكرمة، عن ابن عباس، ان هلال بن امية قذف امراته عند النبي صلى الله عليه وسلم بشريك بن السحماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " البينة وإلا حد في ظهرك "، قال: فقال هلال: يا رسول الله، إذا راى احدنا رجلا على امراته ايلتمس البينة؟ فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " البينة وإلا فحد في ظهرك "، قال: فقال هلال: والذي بعثك بالحق إني لصادق ولينزلن في امري ما يبرئ ظهري من الحد، فنزل: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم فقرا حتى بلغ والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 6 ـ 9، قال: فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم، فارسل إليهما، فجاءا، فقام هلال بن امية: فشهد والنبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله يعلم ان احدكما كاذب، فهل منكما تائب؟ " ثم قامت فشهدت، فلما كانت عند والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين سورة النور آية 9 قالوا لها: إنها موجبة، فقال ابن عباس: فتلكات ونكست حتى ظننا ان سترجع، فقالت: لا افضح قومي سائر اليوم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ابصروها فإن جاءت به اكحل العينين سابغ الاليتين خدلج الساقين فهو لشريك بن السحماء، فجاءت به كذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لولا ما مضى من كتاب الله عز وجل لكان لنا ولها شان ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث هشام بن حسان، وهكذا روى عباد بن منصور هذا الحديث عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، ورواه ايوب، عن عكرمة مرسلا ولم يذكر فيه عن ابن عباس.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا حَدٌّ فِي ظَهْرِكَ "، قَالَ: فَقَالَ هِلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا رَأَى أَحَدُنَا رَجُلًا عَلَى امْرَأَتِهِ أَيَلْتَمِسُ الْبَيِّنَةَ؟ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْبَيِّنَةَ وَإِلَّا فَحَدٌّ فِي ظَهْرِكَ "، قَالَ: فَقَالَ هِلَالٌ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ إِنِّي لَصَادِقٌ وَلَيَنْزِلَنَّ فِي أَمْرِي مَا يُبَرِّئُ ظَهْرِي مِنَ الْحَدِّ، فَنَزَلَ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَقَرَأَ حَتَّى بَلَغَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 6 ـ 9، قَالَ: فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمَا، فَجَاءَا، فَقَامَ هِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ: فَشَهِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَكُمَا كَاذِبٌ، فَهَلْ مِنْكُمَا تَائِبٌ؟ " ثُمَّ قَامَتْ فَشَهِدَتْ، فَلَمَّا كَانَتْ عِنْدَ وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ سورة النور آية 9 قَالُوا لَهَا: إِنَّهَا مُوجِبَةٌ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَتَلَكَّأَتْ وَنَكَسَتْ حَتَّى ظَنَّنَا أَنْ سَتَرْجِعُ، فَقَالَتْ: لَا أَفْضَحُ قَوْمِي سَائِرَ الْيَوْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْصِرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ سَابِغَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَهُوَ لِشَرِيكِ بْنِ السَّحْمَاءِ، فَجَاءَتْ بِهِ كَذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا مَا مَضَى مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَكَانَ لَنَا وَلَهَا شَأْنٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، وَهَكَذَا رَوَى عَبَّادُ بْنُ مَنْصُورٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال بن امیہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گواہ لاؤ ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی، ہلال نے کہا: جب ہم میں سے کوئی کسی شخص کو اپنی بیوی سے ہمبستری کرتا ہوا دیکھے گا تو کیا وہ گواہ ڈھونڈتا پھرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے کہ تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری ہو گی۔ ہلال نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں سچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس معاملے میں کوئی ایسی چیز ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بچا دے گی، پھر (اسی موقع پر) آیت «والذين يرمون أزواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا أنفسهم» سے «والخامسة أن غضب الله عليها إن كان من الصادقين» تک نازل ہوئی آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب آپ پڑھ کر فارغ ہوئے تو ان دونوں کو بلا بھیجا، وہ دونوں آئے، پھر ہلال بن امیہ کھڑے ہوئے اور گواہیاں دیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سمجھانے لگے: اللہ کو معلوم ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے تو کیا تم میں سے کوئی ہے جو توبہ کر لے؟ پھر عورت کھڑی ہوئی، اور اس نے بھی گواہی دی، پھر جب پانچویں گواہی اللہ کی اس پر لعنت ہو اگر وہ سچا ہو دینے کی باری آئی، تو لوگوں نے اس سے کہا: یہ گواہی اللہ کے غضب کو واجب کر دے گی ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: (لوگوں کی بات سن کر) وہ ٹھٹکی اور ذلت و شرمندگی سے سر جھکا لیا، ہم سب نے گمان کیا کہ شاید وہ (اپنی پانچویں گواہی) سے پھر جائے گی، مگر اس نے کہا: میں اپنی قوم کو ہمیشہ کے لیے ذلیل و رسوا نہ کروں گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس عورت کو دیکھتے رہو اگر وہ کالی آنکھوں والا موٹے چوتڑ والا اور بھری رانوں والا بچہ جنے تو سمجھ لو کہ دہ شریک بن سحماء کا ہے، تو اس نے ایسا ہی بچہ جنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کتاب اللہ (قرآن) سے اس کا فیصلہ (لعان کا) نہ آ چکا ہوتا تو ہماری اور اس کی ایک عجیب ہی شان ہوتی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے ہشام بن حسان کی روایت سے حسن غریب ہے،
۲- اس حدیث کو عباد بن منصور نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی الله عنہما کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے،
۳- ایوب نے عکرمہ سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس روایت میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النور 2 (4746)، والطلاق 29 (5308)، سنن ابی داود/ الطلاق 27 (2254)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 27 (2067) (تحفة الأشراف: 6225)، و مسند احمد (1/273) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی میں اس پر حد جاری کر کے ہی رہتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2067)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.