الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
99. باب فِي فَضْلِ التَّوْبَةِ وَالاِسْتِغْفَارِ وَمَا ذُكِرَ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
99. باب: توبہ و استغفار کی فضیلت اور بندوں پر اللہ کی رحمتوں کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3536
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم، عن زر بن حبيش، قال: اتيت صفوان بن عسال المرادي، فقال: ما جاء بك، قلت: ابتغاء العلم، قال: " بلغني ان الملائكة تضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يفعل ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قلت له: إنه حاك قال: قلت له: إنه حاك او قال: حك في نفسي شيء من المسح على الخفين، فهل حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه شيئا؟ قال: نعم، كنا إذا كنا في سفر او مسافرين امرنا ان لا نخلع خفافنا ثلاثا إلا من جنابة، ولكن من غائط وبول ونوم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فقلت: فهل حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الهوى شيئا؟ قال: نعم، قال: فقلت: فهل حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الهوى شيئا؟ قال: نعم، كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره فناداه رجل كان في آخر القوم بصوت جهوري اعرابي جلف جاف، فقال: يا محمد يا محمد، فقال له القوم: مه إنك قد نهيت عن هذا، فاجابه رسول الله صلى الله عليه وسلم نحوا من صوته هاؤم، فقال الرجل: يحب القوم ولما يلحق بهم، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال قال زر: فما برح يحدثني حتى حدثني ان الله عز وجل جعل بالمغرب بابا عرضه مسيرة سبعين عاما للتوبة، لا يغلق حتى تطلع الشمس من قبله، وذلك قول الله عز وجل: يوم ياتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها سورة الانعام آية 158 الآية ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ، قُلْتُ: ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، قَالَ: " بَلَغَنِي أَنَّ الْمَلَائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَفْعَلُ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ حَاكَ قَالَ: قُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ حَاكَ أَوْ قَالَ: حَكَّ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنَّا إِذَا كُنَّا فِي سَفَرٍ أَوْ مُسَافِرِينَ أُمِرْنَا أَنْ لَا نَخْلَعَ خِفَافَنَا ثَلَاثًا إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَقُلْتُ: فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْهَوَى شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْتُ: فَهَلْ حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْهَوَى شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَنَادَاهُ رَجُلٌ كَانَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ بِصَوْتٍ جَهْوَرِيٍّ أَعْرَابِيٌّ جِلْفٌ جَافٍ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: مَهْ إِنَّكَ قَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا، فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ قَالَ زِرٌّ: فَمَا بَرِحَ يُحَدِّثُنِي حَتَّى حَدَّثَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ بِالْمَغْرِبِ بَابًا عَرْضُهُ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا لِلتَّوْبَةِ، لَا يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعِ الشَّمْسُ مِنْ قِبَلِهِ، وَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا سورة الأنعام آية 158 الْآيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا: تمہیں کیا چیز یہاں لے کر آئی ہے؟ میں نے کہا: علم حاصل کرنے آیا ہوں، انہوں نے کہا: مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ فرشتے طالب علم کے کام (و مقصد) سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: میرے جی میں یہ خیال گزرا یا میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کچھ بات کھٹکی، تو کیا اس بارے میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ہم جب سفر میں ہوں (یا سفر کرنے والے ہوں) تو ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم تین دن تک اپنے موزے پیروں سے نہ نکالیں، سوائے جنابت کی صورت میں، پاخانہ کر کے آئے ہوں یا پیشاب کر کے، یا سو کر اٹھے ہوں تو موزے نہ نکالیں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ کو محبت و چاہت کے سلسلے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات یا دہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے تو آپ کو ایک آدمی نے جو لوگوں میں سب سے پیچھے چل رہا تھا اور گنوار، بیوقوف اور سخت مزاج تھا، بلند آواز سے پکارا، کہا: یا محمد! یا محمد! لوگوں نے اس سے کہا: ٹھہر، ٹھہر، اس طرح پکارنے سے تمہیں روکا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی کی طرح بھاری اور بلند آواز میں جواب دیا: بڑھ آ، بڑھ آ، آ جا آ جا (وہ جب قریب آ گیا) تو بولا: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن ان کے درجے تک نہیں پہنچا ہوتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو انسان جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ زر کہتے ہیں: وہ مجھ سے حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ اللہ نے مغرب میں توبہ کا ایک دروازہ بنایا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت ہے، وہ بند نہ کیا جائے گا یہاں تک کہ سورج ادھر سے نکلنے لگے (یعنی قیامت تک) اور اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے: «يوم يأتي بعض آيات ربك لا ينفع نفسا إيمانها» جس دن کہ تیرے رب کی بعض آیات کا ظہور ہو گا اس وقت کسی شخص کو اس کا ایمان کام نہ دے گا (الأنعام: ۱۵۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد انظر ما قبله (3535)
حدیث نمبر: 2385
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس، انه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله , متى قيام الساعة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة، فلما قضى صلاته، قال: " اين السائل عن قيام الساعة؟ " فقال الرجل: انا يا رسول الله، قال: " ما اعددت لها؟ " قال: يا رسول الله ما اعددت لها كبير صلاة، ولا صوم إلا اني احب الله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب وانت مع من احببت " , فما رايت فرح المسلمون بعد الإسلام فرحهم بهذا , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ قِيَامِ السَّاعَةِ؟ " فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ " قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَعْدَدْتُ لَهَا كَبِيرَ صَلَاةٍ، وَلَا صَوْمٍ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ " , فَمَا رَأَيْتُ فَرِحَ الْمُسْلِمُونَ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحَهُمْ بِهَذَا , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: قیامت کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس آدمی نے کہا: میں موجود ہوں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: قیامت کے لیے تم نے کیا تیاری کر رکھی ہے، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے کوئی زیادہ صوم و صلاۃ اکٹھا نہیں کی ہے (یعنی نوافل وغیرہ) مگر یہ بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اس کے ساتھ ہو گا جس سے محبت کرتا ہے، اور تم بھی اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ انس کا بیان ہے کہ اسلام لانے کے بعد میں نے مسلمانوں کو اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا آپ کے اس قول سے وہ سب خوش نظر آ رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 6 (3688)، والأدب 95 (6167)، و 96 (6171)، والأحکام 10 (7153)، صحیح مسلم/البر والصلة 50 (3639) (تحفة الأشراف: 585)، و مسند احمد (3/104، 110، 159، 165، 167، 168، 173، 178، 192، 198، 200) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (104)
حدیث نمبر: 2386
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابو هشام الرفاعي، حدثنا حفص بن غياث، عن اشعث، عن الحسن، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب وله ما اكتسب " , وفي الباب عن علي، وعبد الله بن مسعود، وصفوان بن عسال، وابي هريرة، وابي موسى، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث الحسن البصري، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد روي هذا الحديث من غير وجه , عن النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ وَلَهُ مَا اكْتَسَبَ " , وفي الباب عن عَلِيٍّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَصَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي مُوسَى، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے اور اسے وہی بدلہ ملے گا جو کچھ اس نے کمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن بصری کی روایت سے حسن غریب ہے، اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،
۲- یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی مروی ہے،
۳- اس باب میں علی، عبداللہ بن مسعود، صفوان بن عسال، ابوہریرہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 530) (صحیح) (”أنت مع من أحببت ولک ما اکتسبت“ کے سیاق سے صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ: " أنت مع من احببت ولك ما احتسبت "، الصحيحة (3253) // ضعيف الجامع الصغير (5923) //

قال الشيخ زبير على زئي: (2386) إسناده ضعيف (وحديث أبى داود (5125) يغني عنه)
الحسن البصري عنعن (تقدم: 21) وحديث ”المرء مع من أحب“ صحيح متواتر دون الزيادة
حدیث نمبر: 2387
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا يحيى بن آدم، حدثنا سفيان، عن عاصم، عن زر بن حبيش، عن صفوان بن عسال، قال: جاء اعرابي جهوري الصوت، فقال: يا محمد الرجل يحب القوم ولما يلحق بهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ جَهْوَرِيُّ الصَّوْتِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کی آواز بہت بھاری تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے محمد! ایک آدمی قوم سے محبت کرتا ہے البتہ وہ ان سے عمل میں پیچھے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہو گا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4952) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الروض النضير (360)
حدیث نمبر: 3535
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، قال: اتيت صفوان بن عسال المرادي اساله عن المسح على الخفين، فقال: ما جاء بك يا زر؟ فقلت: ابتغاء العلم، فقال: " إن الملائكة لتضع اجنحتها لطالب العلم رضا بما يطلب، فقلت: إنه حك في صدري المسح على الخفين بعد الغائط والبول وكنت امرا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فجئت اسالك هل سمعته يذكر في ذلك شيئا؟ قال: نعم، " كان يامرنا إذا كنا سفرا او مسافرين ان لا ننزع خفافنا ثلاثة ايام ولياليهن إلا من جنابة، لكن من غائط وبول ونوم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فقلت: هل سمعته يذكر في الهوى شيئا؟ قال: نعم، فقلت: هل سمعته يذكر في الهوى شيئا؟ قال: نعم، كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فبينا نحن عنده إذ ناداه اعرابي بصوت له جهوري، يا محمد، فاجابه رسول الله صلى الله عليه وسلم نحوا من صوته هاؤم، فقلنا له: ويحك، اغضض من صوتك فإنك عند النبي صلى الله عليه وسلم وقد نهيت عن هذا، فقال: والله لا اغضض، قال الاعرابي: المرء يحب القوم ولما يلحق بهم؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: " المرء مع من احب يوم القيامة "، فما زال يحدثنا حتى ذكر بابا من قبل المغرب مسيرة سبعين عاما عرضه، او يسير الراكب في عرضه اربعين او سبعين عاما، قال سفيان: قبل الشام، خلقه الله يوم خلق السموات والارض مفتوحا يعني للتوبة، لا يغلق حتى تطلع الشمس منه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: أَتَيْتُ صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ الْمُرَادِيَّ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا زِرُّ؟ فَقُلْتُ: ابْتِغَاءَ الْعِلْمِ، فَقَالَ: " إِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ حَكَّ فِي صَدْرِي الْمَسْحُ عَلَى الْخُفَّيْنِ بَعْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ وَكُنْتَ امْرَأً مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجِئْتُ أَسْأَلُكَ هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي ذَلِكَ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، " كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا كُنَّا سَفَرًا أَوْ مُسَافِرِينَ أَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، لَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ سَمِعْتَهُ يَذْكُرُ فِي الْهَوَى شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ، كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ نَادَاهُ أَعْرَابِيٌّ بِصَوْتٍ لَهُ جَهْوَرِيٍّ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَجَابَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ صَوْتِهِ هَاؤُمُ، فَقُلْنَا لَهُ: وَيْحَكَ، اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ فَإِنَّكَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ نُهِيتَ عَنْ هَذَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَغْضُضُ، قَالَ الْأَعْرَابِيُّ: الْمَرْءُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَمَّا يَلْحَقْ بِهِمْ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، فَمَا زَالَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى ذَكَرَ بَابًا مِنْ قِبَلِ الْمَغْرِبِ مَسِيرَةُ سَبْعِينَ عَامًا عَرْضُهُ، أَوْ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي عَرْضِهِ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ عَامًا، قَالَ سُفْيَانُ: قِبَلَ الشَّامِ، خَلَقَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ مَفْتُوحًا يَعْنِي لِلتَّوْبَةِ، لَا يُغْلَقُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں صفوان بن عسال مرادی رضی الله عنہ کے پاس موزوں پر مسح کا مسئلہ پوچھنے آیا، انہوں نے (مجھ سے) پوچھا اے زر کون سا جذبہ تمہیں لے کر یہاں آیا ہے، میں نے کہا: علم کی تلاش و طلب مجھے یہاں لے کر آئی ہے، انہوں نے کہا: فرشتے علم کی طلب و تلاش سے خوش ہو کر طالب علم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں، میں نے ان سے کہا: پیشاب پاخانے سے فراغت کے بعد موزوں پر مسح کی بات میرے دل میں کھٹکی (کہ مسح کریں یا نہ کریں) میں خود بھی صحابی رسول ہوں، میں آپ سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سلسلے میں کوئی بات بیان کرتے ہوئے سنی ہے؟ کہا: جی ہاں (سنی ہے) جب ہم سفر پر ہوتے یا سفر کرنے والے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم سفر کے دوران تین دن و رات اپنے موزے نہ نکالیں، مگر غسل جنابت کے لیے، پاخانہ پیشاب کر کے اور سو کر اٹھنے پر موزے نہ نکالیں، (پہنے رہیں، مسح کا وقت آئے ان پر مسح کر لیں) میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انسان کی خواہش و تمنا کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، اس دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے ایک اعرابی نے آپ کو یا محمد! کہہ کر بلند آواز سے پکارا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسی کی آواز میں جواب دیا، آ جاؤ (میں یہاں ہوں) ہم نے اس سے کہا: تمہارا ناس ہو، اپنی آواز دھیمی کر لو، کیونکہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہو، اور تمہیں اس سے منع کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلند آواز سے بولا جائے، اعرابی نے کہا: (نہ) قسم اللہ کی میں اپنی آواز پست نہیں کروں گا، اس نے «المرء يحب القوم ولما يلحق بهم» ۱؎ کہہ کر آپ سے اپنی انتہائی محبت و تعلق کا اظہار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «المرء مع من أحب يوم القيامة» جو شخص جس شخص سے زیادہ محبت کرتا ہے قیامت کے دن وہ اسی کے ساتھ رہے گا۔ وہ ہم سے (یعنی زر کہتے ہیں ہم سے صفوان بن عسال) حدیث بیان کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے پچھمی سمت (مغرب کی طرف) میں ایک ایسے دروازے کا ذکر کیا جس کی چوڑائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے (راوی کو شک ہو گیا ہے یہ کہا یا یہ کہا) کہ دروازے کی چوڑائی اتنی ہو گی ؛ سوار اس میں چلے گا تو چالیس سال یا ستر سال میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچے گا، سفیان (راوی) کہتے ہیں: یہ دروازہ شام کی جانب پڑے گا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے تبھی اللہ نے یہ دروازہ بھی بنایا ہے اور یہ دروازہ توبہ کرنے والوں کے لیے کھلا ہوا ہے اور (توبہ کا یہ دروازہ) اس وقت تک بند نہ ہو گا جب تک کہ سورج اس دروازہ کی طرف سے (یعنی پچھم سے) طلوع نہ ہونے لگے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 96 (حسن)»

وضاحت:
۱؎: آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے لیکن وہ ان کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (4 / 73)، وتقدم بعضه برقم (96)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.