الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
21. باب
21. باب
حدیث نمبر: 3725
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا الاحوص بن جواب ابو الجواب، عن يونس بن ابي إسحاق، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم جيشين , وامر على احدهما علي بن ابي طالب، وعلى الآخر خالد بن الوليد، وقال: " إذا كان القتال فعلي "، قال: فافتتح علي حصنا فاخذ منه جارية، فكتب معي خالد كتابا إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشي به، قال: فقدمت على النبي صلى الله عليه وسلم فقرا الكتاب فتغير لونه، ثم قال: " ما ترى في رجل يحب الله ورسوله , ويحبه الله ورسوله "، قال: قلت: اعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله، وإنما انا رسول فسكت. قال ابو عيسى: هذا حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَيْنِ , وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَعَلَى الْآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَقَالَ: " إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ "، قَالَ: فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَكَتَبَ مَعِي خَالِدٌ كِتَابًا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشِي بِهِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ الْكِتَابَ فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ: " مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ , وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لشکر بھیجے اور ان دونوں میں سے ایک کا امیر علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کو اور دوسرے کا خالد بن ولید رضی الله عنہ کو بنایا اور فرمایا: جب لڑائی ہو تو علی امیر رہیں گے چنانچہ علی رضی الله عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس سے (مال غنیمت میں سے) ایک لونڈی لے لی، تو میرے ساتھ خالد رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علی رضی الله عنہ کی شکایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہو گیا پھر آپ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو ایک ایسے شخص کے سلسلے میں جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، میں تو صرف ایک قاصد ہوں، پھر آپ خاموش ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر رقم: 1704 (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد ومضى برقم (1756) // (286 / 1772) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3725) إسناده ضعيف / تقدم:1704
حدیث نمبر: 1704
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا الاحوص بن الجواب ابو الجواب، عن يونس بن ابي إسحاق، عن ابي إسحاق، عن البراء، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " بعث جيشين وامر على احدهما علي بن ابي طالب، وعلى الآخر خالد بن الوليد "، فقال: " إذا كان القتال، فعلي "، قال: فافتتح علي حصنا فاخذ منه جارية، فكتب معي خالد بن الوليد إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشي به، فقدمت على النبي صلى الله عليه وسلم، فقرا الكتاب، فتغير لونه ثم قال: " ما ترى في رجل يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله "، قال: قلت: اعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله، وإنما انا رسول، فسكت، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن ابن عمر، وهذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث الاحوص بن جواب، قوله يشي به، يعني: النميمة.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ الْجَوَّابِ أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَعَثَ جَيْشَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَعَلَى الْآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ "، فَقَالَ: " إِذَا كَانَ الْقِتَالُ، فَعَلِيٌّ "، قَالَ: فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَكَتَبَ مَعِي خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشِي بِهِ، فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَ الْكِتَابَ، فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ ثُمَّ قَالَ: " مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ، فَسَكَتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَحْوَصِ بْنِ جَوَّابٍ، قَوْلُهُ يَشِي بِهِ، يَعْنِي: النَّمِيمَةَ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لشکر روانہ کیا ۱؎، ایک پر علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کو اور دوسرے پر خالد بن ولید رضی الله عنہ کو امیر مقرر کیا اور فرمایا: جب جنگ ہو تو علی امیر ہوں گے ۲؎، علی رضی الله عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں سے ایک لونڈی لے لی، خالد بن ولید رضی الله عنہ نے مجھ کو خط کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روانہ کیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیر ہو گیا، پھر آپ نے فرمایا: اس آدمی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں میں تو صرف قاصد ہوں، لہٰذا آپ خاموش ہو گئے ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف احوص بن جواب کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں ابن عمر سے بھی حدیث مروی ہے، ۳- «يشي به» کا معنی چغل خوری ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف واعادہ في المناقب برقم 3725، (تحفة الأشراف: 1901) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ابواسحاق مدلس ومختلط ہیں، لیکن عمران بن حصین (عند المؤلف برقم 3712) کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہ دونوں لشکر یمن کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔
۲؎: یعنی پہنچتے ہی اگر دشمن سے مقابلہ شروع ہو جائے تو علی رضی الله عنہ اس کے امیر ہوں گے، اور اگر دونوں لشکر علیحدہ علیحدہ رہیں تو ایک کے علی رضی الله عنہ اور دوسرے کے خالد رضی الله عنہ امیر ہوں گے۔
۳؎: یعنی ایک آدمی کی ماتحتی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا، اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی اور اس کے قلم سے یہ خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اب اس میں میرا کیا قصور ہے یہ سن کر آپ خاموش رہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // وسيأتي (776 / 3991) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1704) إسناده ضعيف / يأتي: 3725
أبوإسحاق السبيعي عنعن (تقدم: 107)
حدیث نمبر: 2203
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن عبد الله بن عبيد، عن عديسة بنت اهبان بن صيفي الغفاري، قالت: جاء علي بن ابي طالب إلى ابي، فدعاه إلى الخروج معه، فقال له ابي: إن خليلي وابن عمك " عهد إلي إذا اختلف الناس ان اتخذ سيفا من خشب "، فقد اتخذته فإن شئت خرجت به معك، قالت: فتركه، قال ابو عيسى: وفي الباب عن محمد بن مسلمة، وهذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث عبد الله بن عبيد.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عُدَيْسَةَ بِنْتِ أُهْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَتْ: جَاءَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلَى أَبِي، فَدَعَاهُ إِلَى الْخُرُوجِ مَعَهُ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: إِنَّ خَلِيلِي وَابْنَ عَمِّكَ " عَهِدَ إِلَيَّ إِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ أَنْ أَتَّخِذَ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ "، فَقَدِ اتَّخَذْتُهُ فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِهِ مَعَكَ، قَالَتْ: فَتَرَكَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ.
عدیسہ بنت اہبان غفاری کہتی ہیں کہ میرے والد کے پاس علی رضی الله عنہ آئے اور ان کو اپنے ساتھ لڑائی کے لیے نکلنے کو کہا، ان سے میرے والد نے کہا: میرے دوست اور آپ کے چچا زاد بھائی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے وصیت کی کہ جب لوگوں میں اختلاف ہو جائے تو میں لکڑی کی تلوار بنا لوں، لہٰذا میں نے بنا لی ہے، اگر آپ چاہیں تو اسے لے کر آپ کے ساتھ نکلوں، عدیسہ کہتی ہیں: چنانچہ علی رضی الله عنہ نے میرے والد کو چھوڑ دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن عبیداللہ کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- اس باب میں محمد بن مسلمہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 10 (3960) (تحفة الأشراف: 1734) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: لکڑی کی تلوار بنانے کا مطلب فتنہ کے وقت قتل و خوں ریزی سے اپنے آپ کو دور رکھنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (3960)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.