الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
30. باب فِي الرَّجُلِ يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ آخَرُ
30. باب: ایک شخص اذان دے اور دوسرا اقامت (تکبیر) کہے یہ جائز ہے۔
Chapter: One Person Calling The Adhan And Another Calling The Iqamah.
حدیث نمبر: 512
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا حماد بن خالد، حدثنا محمد بن عمرو، عن محمد بن عبد الله، عن عمه عبد الله بن زيد، قال:"اراد النبي صلى الله عليه وسلم في الاذان اشياء لم يصنع منها شيئا، قال: فاري عبد الله بن زيد الاذان في المنام، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال: القه على بلال، فالقاه عليه، فاذن بلال، فقال عبد الله: انا رايته وانا كنت اريده، قال: فاقم انت".
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ:"أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَذَانِ أَشْيَاءَ لَمْ يَصْنَعْ مِنْهَا شَيْئًا، قَالَ: فَأُرِيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الْأَذَانَ فِي الْمَنَامِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: أَلْقِهِ عَلَى بِلَالٍ، فَأَلْقَاهُ عَلَيْهِ، فَأَذَّنَ بِلَالٌ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَا رَأَيْتُهُ وَأَنَا كُنْتُ أُرِيدُهُ، قَالَ: فَأَقِمْ أَنْتَ".
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے سلسلہ میں کئی کام کرنے کا (جیسے ناقوس بجانے یا سنکھ میں پھونک مارنے کا) ارادہ کیا لیکن ان میں سے کوئی کام کیا نہیں۔ محمد بن عبداللہ کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں اذان دکھائی گئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو اس کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بلال کو سکھا دو، چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے بلال رضی اللہ عنہ کو سکھا دیا، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، اس پر عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا: اسے میں نے دیکھا تھا اور میں ہی اذان دینا چاہتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم تکبیر کہہ لو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5310)، مسند احمد (4/42) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (ا س کے راوی محمد بن عمرو انصاری لین الحدیث ہیں)

Narrated Abdullah ibn Zayd: The Prophet ﷺ intended to do many things for calling (the people) to prayer, but he did not do any of them. Then Abdullah ibn Zayd was taught in a dream how to pronounce the call to prayer. He came to the Prophet ﷺ and informed him. He said: Teach it to Bilal. He then taught him, and Bilal made a call to prayer. Abdullah said: I saw it in a dream and I wished to pronounce it, but he (the Prophet) said: You should pronounce iqamah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 512


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
محمد بن عمرو ھو أبو سھل كما في مسند الإمام أحمد (42/4) وھو ضعيف
وللحديث شاھد ضعيف عند البيهقي (399/1)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 32
حدیث نمبر: 498
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عباد بن موسى الختلي، وزياد بن ايوب، وحديث عباد اتم، قالا: حدثنا هشيم، عن ابي بشر، قال زياد، اخبرنا ابو بشر، عن ابي عمير بن انس، عن عمومة له من الانصار، قال:" اهتم النبي صلى الله عليه وسلم للصلاة كيف يجمع الناس لها، فقيل له: انصب راية عند حضور الصلاة فإذا راوها آذن بعضهم بعضا، فلم يعجبه ذلك، قال: فذكر له القنع يعني الشبور، وقال زياد: شبور اليهود فلم يعجبه ذلك، وقال: هو من امر اليهود، قال: فذكر له الناقوس، فقال: هو من امر النصارى، فانصرف عبد الله بن زيد بن عبد ربه وهو مهتم لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاري الاذان في منامه، قال: فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبره، فقال له: يا رسول الله، إني لبين نائم ويقظان إذ اتاني آت فاراني الاذان، قال: وكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه قد رآه قبل ذلك فكتمه عشرين يوما، قال: ثم اخبر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له: ما منعك ان تخبرني؟ فقال: سبقني عبد الله بن زيد فاستحييت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بلال، قم فانظر ما يامرك به عبد الله بن زيد فافعله، قال: فاذن بلال، قال ابو بشر: فاخبرني ابو عمير، ان الانصار تزعم ان عبد الله بن زيد لولا انه كان يومئذ مريضا لجعله رسول الله صلى الله عليه وسلم مؤذنا".
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى الْخُتَّلِيُّ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، وَحَدِيثُ عَبَّادٍ أَتَمُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَالَ زِيَادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ:" اهْتَمَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ كَيْفَ يَجْمَعُ النَّاسَ لَهَا، فَقِيلَ لَهُ: انْصِبْ رَايَةً عِنْدَ حُضُورِ الصَّلَاةِ فَإِذَا رَأَوْهَا آذَنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ، قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ الْقُنْعُ يَعْنِي الشَّبُّورَ، وَقَالَ زِيَادٌ: شَبُّورُ الْيَهُودِ فَلَمْ يُعْجِبْهُ ذَلِكَ، وَقَالَ: هُوَ مِنْ أَمْرِ الْيَهُودِ، قَالَ: فَذُكِرَ لَهُ النَّاقُوسُ، فَقَالَ: هُوَ مِنْ أَمْرِ النَّصَارَى، فَانْصَرَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ وَهُوَ مُهْتَمٌّ لِهَمِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُرِيَ الْأَذَانَ فِي مَنَامِهِ، قَالَ: فَغَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَبَيْنَ نَائِمٍ وَيَقْظَانَ إِذْ أَتَانِي آتٍ فَأَرَانِي الْأَذَانَ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَدْ رَآهُ قَبْلَ ذَلِكَ فَكَتَمَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا، قَالَ: ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُخْبِرَنِي؟ فَقَالَ: سَبَقَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا بِلَالُ، قُمْ فَانْظُرْ مَا يَأْمُرُكَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ فَافْعَلْهُ، قَالَ: فَأَذَّنَ بِلَالٌ، قَالَ أَبُو بِشْرٍ: فَأَخْبَرَنِي أَبُو عُمَيْرٍ، أَنَّ الْأَنْصَارَ تَزْعُمُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ لَوْلَا أَنَّهُ كَانَ يَوْمَئِذٍ مَرِيضًا لَجَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنًا".
ابو عمیر بن انس اپنے ایک انصاری چچا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فکرمند ہوئے کہ لوگوں کو کس طرح نماز کے لیے اکٹھا کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ نماز کا وقت ہونے پر ایک جھنڈا نصب کر دیجئیے، جسے دیکھ کر ایک شخص دوسرے کو باخبر کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند نہ آئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بگل ۱؎ کا ذکر کیا گیا، زیاد کی روایت میں ہے: یہود کے بگل (کا ذکر کیا گیا) تو یہ تجویز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہیں آئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں یہودیوں کی مشابہت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ناقوس کا ذکر کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں نصرانیوں کی مشابہت ہے۔ پھر عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹے، وہ بھی (اس مسئلہ میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح فکرمند تھے، چنانچہ انہیں خواب میں اذان کا طریقہ بتایا گیا۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: وہ صبح تڑکے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو اس خواب کی خبر دی اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص (خواب میں) میرے پاس آیا اور اس نے مجھے اذان سکھائی، راوی کہتے ہیں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس سے پہلے یہ خواب دیکھ چکے تھے لیکن وہ بیس دن تک خاموش رہے، پھر انہوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے ان سے فرمایا: تم کو کس چیز نے اسے بتانے سے روکا؟، انہوں نے کہا: چونکہ مجھ سے پہلے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اسے آپ سے بیان کر دیا اس لیے مجھے شرم آ رہی تھی ۲؎، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال! اٹھو اور جیسے عبداللہ بن زید تم کو کرنے کو کہیں اسی طرح کرو، چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی ۳؎۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوعمیر نے بیان کیا کہ انصار سمجھتے تھے کہ اگر عبداللہ بن زید ان دنوں بیمار نہ ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ہی کو مؤذن بناتے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15604) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بخاری کی روایت میں «بوقۃ» کا لفظ ہے اور مسلم اور نسائی کی روایت میں «قرن» کا لفظ آیا ہے، یہ چاروں الفاظ ( «قنع»، «شبور»، «بوقۃ» اور «قرن») ہم معنی الفاظ ہیں، یعنی بگل اور نرسنگھا جس سے پھونک مارنے پر آواز نکلے۔
۲؎: عمر رضی اللہ عنہ خواب دیکھنے کے بعد بھول گئے تھے، بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سننے پر آپ کو یہ کلمات یاد آئے، اور جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنا خواب بیان کر چکے تھے۔
۳؎: یہ اہتمام ۲ ہجری میں ہوا اس کے پہلے بغیر اذان کے نماز پڑھی جاتی تھی، اور لوگ خود بخود مسجد میں جمع ہو جایا کرتے تھے۔

Narrated Abu Umayr ibn Anas: Abu Umayr reported on the authority of his uncle who was from the Ansar (the helpers of the Prophet): The Prophet ﷺ was anxious as to how to gather the people for prayer. The people told him: Hoist a flag at the time of prayer; when they see it, they will inform one another. But he (the Prophet) did not like it. Then someone mentioned to him the horn. Ziyad said: A horn of the Jews. He (the Prophet) did not like it. He said: This is the matter of the Jews. Then they mentioned to him the bell of the Christians. He said: This is the matter of the Christians. Abdullah ibn Zayd returned anxiously from there because of the anxiety of the Messenger ﷺ. He was then taught the call to prayer in his dream. Next day he came to the Messenger of Allah ﷺ and informed him about it. He said: Messenger of Allah, I was between sleep and wakefulness; all of a sudden a newcomer came (to me) and taught me the call to prayer. Umar ibn al-Khattab had also seen it in his dream before, but he kept it hidden for twenty days. The Prophet ﷺ said to me (Umar): What did prevent you from saying it to me? He said: Abdullah ibn Zayd had already told you about it before me: hence I was ashamed. Then the Messenger of Allah ﷺ said: Bilal, stand up, see what Abdullah ibn Zayd tells you (to do), then do it. Bilal then called them to prayer. Abu Bishr reported on the authority of Abu Umayr: The Ansar thought that if Abdullah ibn Zayd had not been ill on that day, the Messenger of Allah ﷺ would have made him muadhdhin.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 498


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 499
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن منصور الطوسي، حدثنا يعقوب، حدثنا ابي، عن محمد بن إسحاق، حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، قال: حدثني ابي عبد الله بن زيد، قال:" لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس يعمل ليضرب به للناس لجمع الصلاة، طاف بي وانا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده، فقلت: يا عبد الله، اتبيع الناقوس؟ قال: وما تصنع به؟ فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: افلا ادلك على ما هو خير من ذلك؟ فقلت له: بلى، قال: فقال: تقول: الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، قال: ثم استاخر عني غير بعيد، ثم قال: وتقول إذا اقمت الصلاة: الله اكبر، الله اكبر، اشهد ان لا إله إلا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله، فلما اصبحت، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته بما رايت، فقال: إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فالق عليه ما رايت فليؤذن به فإنه اندى صوتا منك، فقمت مع بلال فجعلت القيه عليه ويؤذن به، قال: فسمع ذلك عمر بن الخطاب وهو في بيته فخرج يجر رداءه، ويقول: والذي بعثك بالحق يا رسول الله، لقد رايت مثل ما راى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فلله الحمد"، قال ابو داود: هكذا رواية الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن عبد الله بن زيد، وقال فيه ابن إسحاق: عن الزهري، الله اكبر الله اكبر، الله اكبر الله اكبر، وقال معمر،ويونس: عن الزهري فيه، الله اكبر، الله اكبر، لم يثنيا.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ رَبِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ:" لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ، طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ، فَقُلْتُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ؟ قَالَ: وَمَا تَصْنَعُ بِهِ؟ فَقُلْتُ: نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ؟ فَقُلْتُ لَهُ: بَلَى، قَالَ: فَقَالَ: تَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ: ثُمَّ اسْتَأْخَرَ عَنِّي غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ قَالَ: وَتَقُولُ إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ، فَقَالَ: إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٌّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْكَ، فَقُمْتُ مَعَ بِلَالٍ فَجَعَلْتُ أُلْقِيهِ عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ، قَالَ: فَسَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ، وَيَقُولُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا رَأَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلِلَّهِ الْحَمْدُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا رِوَايَةُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وقَالَ فِيهِ ابْنُ إِسْحَاق: عَنْ الزُّهْرِيِّ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، وقَالَ مَعْمَرٌ،وَيُونُسُ: عَنْ الزُّهْرِيِّ فِيهِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَمْ يُثَنِّيَا.
عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کی تیاری کا حکم دینے کا ارادہ کیا تاکہ لوگوں کو نماز کی خاطر جمع ہونے کے لیے اسے بجایا جا سکے تو ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ ایک شخص ۱؎ کے ہاتھ میں ناقوس ہے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ کے بندے! کیا اسے فروخت کرو گے؟ اس نے کہا: تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے بلائیں گے، اس شخص نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتا دوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، تو اس نے کہا: تم اس طرح کہو «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الصلاة حى على الفلاح حى على الفلاح الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز کے لیے آؤ، نماز کے لیے آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف آؤ، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر وہ شخص مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا، زیادہ دور نہیں گیا پھر اس نے کہا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اس طرح کہو: «الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حى على الصلاة حى على الفلاح قد قامت الصلاة قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله» ۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے دیکھا تھا اسے آپ سے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان شاءاللہ یہ خواب سچا ہے، پھر فرمایا: تم بلال کے ساتھ اٹھ کر جاؤ اور جو کلمات تم نے خواب میں دیکھے ہیں وہ انہیں بتاتے جاؤ تاکہ اس کے مطابق وہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند ہے ۲؎۔ چنانچہ میں بلال کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، میں انہیں اذان کے کلمات بتاتا جاتا تھا اور وہ اسے پکارتے جاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے گھر میں سے سنا تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے بھی اسی طرح دیکھا ہے جس طرح عبداللہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح زہری کی روایت ہے، جسے انہوں نے سعید بن مسیب سے، اور سعید نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس میں ابن اسحاق نے زہری سے یوں نقل کیا ہے: «الله أكبر الله أكبر الله أكبر الله أكبر» (یعنی چار بار) اور معمر اور یونس نے زہری سے صرف «الله أكبر الله أكبر» کی روایت کی ہے، اسے انہوں نے دہرایا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصلاة 25 (189)، سنن ابن ماجہ/الأذان 1 (706)، (تحفة الأشراف: 5309)، مسند احمد (4/42)، سنن الدارمی/الصلاة 3 (1224) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ ایک فرشتہ تھا جو اللہ کی طرف سے اذان سکھانے کے لئے مامور ہوا تھا۔
۲؎: اس سے معلوم ہوا کہ مؤذن کا بلند آواز ہونا بہتر ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں اذان دہری اور اقامت اکہری ذکر ہوئی ہے۔ فجر کی اذان میں «الصلاة خير من النوم» کہنا مسنون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے (سنن ابوداود، حدیث نمبر ۵۰۱ دیکھئیے)۔ بلال رضی اللہ اور ابومحذورہ رضی اللہ عنہا کی اذانوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اذان سے پہلے کوئی کلمات نہیں ہیں۔ حتی کہ «اعوذ باللہ من الشیطان الرحیم» یا «بسم اللہ الرحمن الرحیم» بھی نہیں، اذان اللہ اکبر سے شروع ہو گی۔ اسی طرح آخر میں «لا الہ الا اللہ» کے بعد «محمد رسول اللہ» بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض سادہ لوح موذن کرتے ہیں۔ اس سے ترجیع یعنی شہادتین کو دو دو بار کہنا ثابت ہوا۔

Abdullah bin Zaid reported: when the Messenger of Allah ﷺ ordered a bell to be made so that it might be struck to gather the people for prayer, a man carrying a bell in his hand appeared to me while I was asleep, and I said; servant of Abdullah, will you sell the bell? He asked; what will you do with it? I replied; we shall use it to call the people to prayer. He said; should I not suggest you something better than that. I replied: certainly. Then he told me to say: Allah is most great, Allah is most great, Allah is most great, Allah is most great. I testify that there is no god but Allah, I testify that Muhammad is the Messenger of Allah. Come to pray, come to pray; come to salvation; come to salvation. Allah is most great, Allah is most great. I testify that there is no god but Allah. He then moved backward a few steps and said: when you utter the IQAMAH, you should say: Allah is most great, Allah is most great. I testify that there is no god but Allah, I testify that Muhammad is the Messenger of Allah. Come to prayer, come to salvation. The time for prayer has come, the time for prayer has come: Allah is most great, Allah is most great. There is no god but Allah. When the morning came, I came to the Messenger of Allah ﷺ and informed him of what I had seen in the dream. He said: it is a genuine vision, and he then should use it to call people to prayer, for he has a louder voice than you have. So I got up along with Bilal and began to teach it to him and he used it in making the call to prayer. Umar bin al-khattab (Allah be pleased with him) heard it while he was in his house and came out trailing his cloak and said: Messenger of Allah. By him who has sent you with the truth, I have also seen the kind of thing as has been shown to him. The Messenger of Allah ﷺ said: To Allah be the praise. Abu Dawud said; Al-Zuhri narrated this tradition in a similar way from Saeed bin al-Musayyib on the authority of Abdullah bin Zaid. In this version Ibn Ishaq narrated from al-Zuhri: Allah is most great. Allah is most great, Allah is most great, Allah is most great. Ma;mar and yunus narrated from al-Zuhri; Allah is most great, Allah is most great. They did not report it twice again.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 499


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (650)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.